اولوالعزم

اس عالم اسباب میں یہ ناممکن ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے غلطیوں اور ناکامیوں سے محفوظ زندگی حاصل کرسکے۔


[email protected]

BANNU: اس عالم اسباب میں یہ ناممکن ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے غلطیوں اور ناکامیوں سے محفوظ زندگی حاصل کرسکے۔ یہاں بہرحال آدمی سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور ناکامی سے دوچار بھی ہونا پڑتا ہے۔ یہاں خطاؤں اور کوتاہیوں سے پاک ہے کوئی اور نہ ہی مسلسل کامیاب و کامران۔ تاہم آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر ناکامی کو اپنے لیے سبق کے طور پر استعمال کرے۔ اکثر کامیاب انسانوں کی کامیابی کا راز یہ ملتا ہے کہ جب وہ ناکام ہوئے تو انھوں نے اپنی ناکامی کو حرف آخر نہیں سمجھا، اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور سیکھنے کا عمل عمرکی آخری سانس تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی کوئی پراسرار شے نہیں دونوں معلوم اسباب کے تحت پیش آنیوالے واقعات کا تسلسل ہوتا ہے۔ اسباب جاننے کے بعد اصلاح کرکے حالات و واقعات کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔

جو شخص زندگی کی جدوجہد کے میدان میں داخل ہو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس میدان میں اکیلا نہیں، یہاں اس کی مانند دوسرے لوگ بھی ہیں جو اپنے حوصلوں کیمطابق زندگی میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ فطرت کا نظام ہے جو وسیع تر پیمانے پر قائم ہے۔ اس نظام میں سردی بھی ہے اورگرمی بھی، خشکی ہے اور پانی بھی، میدان ہے اور پہاڑ بھی، پھول ہیں اور کانٹے بھی، معاون و مددگار دوست احباب اور موافق حالات ہیں اور پاؤں کھینچنے والے سازشی ذہن کے مخالفین ہیں اور ناموافق و نامساعد حالات بھی، مختلف رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔

چاہے آدمی چاہے یا نہ چاہے، ہر آدمی اس صورتحال سے دوچار ہوتا ہے مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ دنیا کا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں مخالف حالات ہیں تو اسی طرح موافق حالات بھی موجود ہیں، جہاں رکاوٹیں کھڑی ہیں وہیں گنجائش کے راستے اور دروازے بھی ہر جانب کھلے ہیں۔ زندگی کے سیلاب میں بے شمار مصیبتوں کی زد میں آتے ہیں مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ عام طور پر لوگوں کا انجام دو قسم کا ہوتا ہے۔

ایک وہ لوگ جو مصیبتوں کے مقابلے میں ٹھہر نہیں پاتے اور مایوسی اور دل شکستگی کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں دوسرے وہ جو مضبوط اعصاب والے ثابت ہوتے ہیں وہ مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں اور آخر کار فتحیاب ہوتے اور کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومتی ہے۔ مصیبتوں کا اصل فائدہ سبق اور نصیحت ہے مگر یہ فائدہ صرف اسی وقت ملتا ہے جب کہ آدمی مصیبتوں کی زد میں آئے مگر وہ باد مخالف سے نہ گھبرائے اور مخالف موجوں سے لڑتے لڑتے ان میں بہہ نہ جائے، ہلاک نہ ہوجائے، وہ زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہو مگر وہ ان سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ مصیبتیں اور تلخیاں اس کے لیے تجربہ ثابت ہوں نہ کہ وہ اس کے ذہن کی معمار بن جائیں۔

زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے سب سے اہم چیز بلند فکری ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان سوالات سے اوپر اٹھ کر سوچیں جو ماضی پر یا پیش آنیوالے دکھوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ انسان کا طرز فکر اس کے لیے مستقبل کے دروازے کھولنے والا ہونا چاہیے۔ یہ 1891 کا واقعہ ہے جب مادام کیوری انتہائی کسمپرسی اور نامساعد حالات میں پولینڈسے پیرس آئی، اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فزکس کا مطالعہ شروع کردیا حالانکہ اس کے پاس گزر بسر کے لیے معمولی جمع پونجی کے سوا کچھ نہ تھا، انتہائی سردی کے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اسباب تھے نہ ہی وسائل لیکن برفیلے موسم کی کپکپاتی راتوں میں بھی وہ روزانہ 20 گھنٹے پڑھتی، پانچ برس تک اسے ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں کے سوا کچھ نصیب نہ ہوا، نقاہت کا یہ عالم تھا کہ اکثر بے ہوش ہوجاتی اس کا سائنسدان شوہر ''پائری'' بھی اسی کی طرح مفلوک الحال تھا۔

اس نے اسی حال میں Ph.D کیا، حوصلہ نہیں ہارا اس کے عزم اور ہمت کی ایک عظیم کہانی ہے اس نے ریڈیم دریافت کیا، جس سے انسانیت کو فائدہ ہوا، وہ واحد سائنسدان ہے جسے دو مرتبہ نوبل پرائز سے نوازا گیا۔اس کی زندگی پر 30 فلمیں بنیں اور سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، جس نے اپنی ایجاد اربوں ڈالر کی پیش کش کے باوجود رفاہی و فلاحی کاموں کے لیے وقف کردی جس کی انتھک محنت اور عزم و حوصلے کے اعتراف میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سائنس کے طالبعلم پولینڈ کا نام آنے پر سر سے ٹوپی اتار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سی وی رمن ہندوستان کے مشہور سائنسدان جنھیں فزکس کا نوبل انعام ملا ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد دس روپے ماہوار پر اسکول ٹیچر تھے، انتہائی مشکل حالات میں اپنی غیر معمولی محنت کے ذریعے عالمی شہرت حاصل کی اور علم کی دنیا میں اہم مقام حاصل کیا۔ اپنی کامیابی کو رمن نے ان الفاظ میں بیان کیا۔

شکست، مایوسی، محنت اور ہر قسم کے دکھ کی ایک لمبی تاریخ، یہ رمن کی کامیابی کے سفر کی مختصر وضاحت تھی۔ ٹرسٹن جونز ایک ملاح، مہم جو اور مصنف ہیں۔ 1982 میں وہ ایک پاؤں سے محروم ہوگئے اس محرومی نے انھیں اور مضبوط بنادیا اور انھوں نے دنیا گھومنے کا عزم کیا اور کئی بار دنیا کے گرد سمندری سفر کیا اور اپنی معذوری کو اپنی مجبوری نہ بننے دیا، 34 برس میں 6 لاکھ 40 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے بیس بار اٹلانٹک کو عبور کیا اور خود کو دنیا سے منوایا۔ بل کازبی ایک سیاہ فام امریکی 1937 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔

ابتدا میں وہ بمشکل ایک ہزار ڈالر سالانہ کماتا تھا پھر اس کی سالانہ آمدنی کئی ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس نے ناموافق حالات میں تعلیم اور دانش مندانہ جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور امریکا کا مشہور ترین کامیڈین بھی بنا۔ معروف سائنسدان اسٹیفن ہاپکنگ1942 میں امریکا میں پیدا ہوا ایم ایس سی کرنے کے بعد جب وہ Ph.D کر رہا تھا تو اس پر ایک خطرناک بیماری نے حملہ کیا، ڈاکٹروں نے اسے باور کرایا کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک یا دو سال ہیں۔ اسی مایوسی کے عالم میں اس نے عزم و ہمت کی تاریخ رقم کی معذوری کے باوجود Ph.D مکمل کیا اور طبیعات کی دنیا میں اتنا نام پیدا کرلیا کہ وہ آئن اسٹائن کے بعد سب سے بڑا ماہر طبیعات تسلیم کیا جاتا ہے اور کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمیٹکس کا پروفیسر ہے یہ وہ کرسی ہے جو اب تک صرف ممتاز سائنسدانوں کو دی جاتی رہی ہے۔

اس کی صرف ایک کتاب "A Brief History of Time" 1988 سے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔ اس نے عزم و حوصلے سے موت کو شکست دی اور ڈاکٹروں کے اندازے اس کی موت کے حوالے سے غلط ثابت ہوئے۔ اسی طرح ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن نوجوانی میں ذہین نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن آج دنیا اسے بیسویں صدی کے عظیم سائنسدان کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے۔انسان کی ذہنی صلاحیتیں اس کی ہر کمزوری کی تلافی ہیں۔

اس کا ارادہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو عبور اور ہر مشکل پر غالب آجاتا ہے وہ ہر ناکامی کے بعد اپنے لیے ہمت کرکے کامیابی کا نیا راستہ نکال سکتا ہے، یہ مذکورہ صرف چند مثالیں ہیں جو انسان کے ناقابل شکست عزم و حوصلے کا آئینہ دار ہیں ورنہ تو ایک پوری تاریخ ہے جو نامساعد و ناموافق حالات سے پروان چڑھنے والی انسانی کامیابیوں اورکامرانیوں کی داستانوں کی گواہ ہے۔ اولوالعزمی کی ایک عظیم تاریخ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں