گھر سے نکلنا مشکل ہے
جس شہر کی سڑکیں کبھی پانی سے نہلائی جاتی تھیں انھیں اب انسانی خون سے غسل دیا جارہا ہے.
اقبال احمد خلیل المعروف اقبال صفی پوری کو اس دارفانی سے منہ موڑ کر ملک عدم سدھارے ہوئے 13 سال پورے ہوچکے ہیں مگر شہر کراچی کے موجودہ پرآشوب حالات نے ان کی ایک نہایت مقبول غزل کے درج ذیل شعر کے حوالے سے ان کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ؎
یا ہم سے پریشاں تھی خوشبو یا بند ہیں اب کلیوں کی طرح
یا مثل صبا آوارہ تھے یا گھر سے نکلنا مشکل ہے
کراچی والوں پر مندرجہ بالا شعر کبھی حرف بہ حرف صادق آئے گا یہ شاید اس عظیم شاعر کے وہم و گمان میں بھی نہ آیا ہوگا۔ شہر قائد میں لاقانونیت کی نوبت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری صاحب سمیت فاضل جج صاحبان کو اپنے ریمارکس میں یہ کہنا پڑا کہ ''کراچی والوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے'' کراچی جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا آج سفاک مجرموںکی جنت بنا ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ملک بھر سے جرائم پیشہ افراد سیلاب کی طرح کراچی آرہے ہیں۔ یہ بات کسی عام شہری کے منہ سے نہیں نکلی بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ایڈووکیٹ جنرل سندھ جیسے انتہائی ذمے دار اہل کار نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کے روبرو کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ جرائم پیشہ افراد کراچی پہنچ چکے ہیں۔ سال رواں کے دوران شہر میں 90 پولیس اہل کاروں سمیت 1900 افراد قتل ہوچکے ہیں۔
جس شہر کی سڑکیں کبھی پانی سے نہلائی جاتی تھیں انھیں اب انسانی خون سے غسل دیا جارہا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اول تو اپنے دفاتر سے بہت کم باہر نکلتے ہیں اور اگر نکلتے بھی ہیں تو ڈرے سہمے ہوئے پولیس اسکواڈ کے ساتھ۔ انھیں اپنی جان کا تو بڑا خیال ہے لیکن عوام کی جانوں کا انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی گارڈ کے بغیر عام آدمی کی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے شہر کی سڑکوں اور گلیوں کوچوں میں گشت کرکے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کریں اور اس بات کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیں کہ ان کا ماتحت عملہ اسے فرائض کی ادائیگی میں کوئی غفلت یا کوتاہی تو نہیں کر رہا۔
قانون شکن عناصر نے نہ صرف عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بلکہ صنعت کاروں اور تاجروں کا ناطقہ بھی بند کر دیا ہے۔ بھتہ خوروں نے عام دکان داروں تک پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام دکان دار سے لے کر بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں پر مشتمل پوری تاجر برادری شہر کی مافیاؤں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں زبانی جمع خرچ کے علاوہ تاجروں کے تحفظ کے لیے عملاً کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ پانی سر سے اتنا اونچا ہوگیا کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کو باقاعدہ الٹی میٹم دینا پڑا۔
کراچی نہ صرف عروس البلاد ہے بلکہ وہ کماؤ پوت ہے جس کی آمدنی پر پورا پاکستان پل رہا ہے۔ کیماڑی سے خیبر اور گلگت تک سب کی روزی روٹی کا دارومدار صرف اسی شہر پر ہے۔ یہ محض ایک شہر نہیں بلکہ منی پاکستان ہے جس کا نمک ملک کا بچہ بچہ کھا رہا ہے ۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہاں ماضی بعید میں صرف چند مچھیروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ بستی ایک چھوٹا سا شہر بنی اور بالٓاخر قیام پاکستان کے نتیجے میں نوزائیدہ مملکت خداداد کی راج دھانی بن گئی۔
پاکستان کیا بنا کراچی کا مقدر جاگ اٹھا اور وہ شہر جس کی حدیں تین ہٹی کے مقام پر جا کر ختم ہوجایا کرتی تھیں، ہر طرف بڑھتا چلا گیا۔ کراچی اگر ملک کا دارالخلافہ رہتا تو شاید اس کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا لیکن افسوس صد افسوس کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے من مانی کرتے ہوئے اور بابائے قوم کی نصیحت و خواہش کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے دارالخلافہ کو کراچی سے نوآباد شہر اسلام آباد منتقل کر دیا۔ ایوب خان کا یہ اقوام کراچی کے لیے سب سے پہلا شدید جھٹکا تھا جس نے اس شہر کی معاشرت و معیشت کی چولیں ہلا دیں۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا''اگر پدونہ تواند، پسر تمام کند'' رہی سہی کسر ایوب خان کے لاڈلے بیٹے (Spoiled child) گوہر ایوب خان نے کراچی میں لسانی عصبیت کا بیج بو کر پوری کردی ۔
ایوب خان کی دیدہ دلیری کا عالم یہ تھا کہ اس نے بابائے قوم کی ہمیشرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہ بخشا اور کھلی دھاندلی کے ذریعے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔ یہ انوکھا تماشا بھی ایوب خان کا ہی کارنامہ ہے کہ سمندر کراچی میں ہے اور ملک کی بحریہ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ انڈے کجھور میں اور بچے ببول میں۔ پاکستان بنانے والوں کی آمد کی برکت اور محنت کی بدولت مچھیروں کے خاندانوں پر مشتمل ماضی کی یہ چھوٹی سی بستی دیکھتے ہی دیکھتے عروس البلاد اور ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی مرکز کی شکل اختیار کر گئی۔
بس پھر کیا تھا ملک کے گوشے گوشے سے ہر کسی نے اس شہر کا رخ کرنا شروع کر دیا جو کہ ایک فطری امر تھا ۔ جو لوگ اس ملک کے قیام کی خاطر خا ک و خون کا دریا عبور کرکے اور اپنی کشتیاں ہمیشہ کے لیے جلا کر یہاں آباد ہوئے تھے انھوں نے دن رات محنت اور مشقت کرکے اس شہر کی معاشرت و معیشت کو چار چاند لگادیے کیوں کہ نہ صرف ان کا جینا مرنا اسی شہر سے وابستہ تھا بلکہ ان کی آیندہ نسلوں کا مستقبل بھی اسی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ مگر اس کے علاوہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی معاش کی تلاش میں ادھر کا رخ کرنے لگے اور اس معاشی اور معاشرتی دھارے میں شامل ہوتے چلے گئے اور اس کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ سب کے سب آپس میں گھل مل گئے۔
مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لسانی عصیبت کا جو بیج ایوب خان کے صاحب زادے بلکہ شہزادے گوہر ایوب خان نے سب سے پہلے بویا تھا وہ رفتہ رفتہ پروان چڑھتا چلا گیا۔ جی ہاں! یہ وہی موصوف تھے جنھیں میاں نواز شریف نے اپنے سابقہ دور حکمرانی میں وزارت خارجہ کے منصب پر سرفراز فرمایا تھا۔ اس کے بعد اس شہر کے امن و سکون کے خاتمہ میں بعض دیگر عوامل بھی شامل ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً عمل اور ردعمل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس میں بہت سے وطن دشمن بیرونی عناصر بھی شامل ہوگئے۔
قصہ مختصر کراچی کے موجود حالات پر ہر محب وطن پاکستانی اور ہر اس شخص کو شدید تشویش لاحق ہے جس کا اس شہر سے کوئی بھی رشتہ ناطہ ہے یا کوئی بھی مفاد وابستہ ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ ہر شخص کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اس شہر میں جلد از جلد اور دائمی امن و آشتی کی بحالی پورے ملک اور اس کی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ کڑوا اور ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ حکومت وقت بار بار کی جھوٹی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے باوجود کراچی کے حالات معمول پر لانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے خواہ اس ناکامی کا سبب اس کی عوام میں دلچسپی ہو یا نیم دلی یا قطعی نااہلی۔ کراچی کے حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ممتاز صنعت کار اور پاک انڈیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ایس ایم منیر کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کراچی آکر بذات خود حالات کا جائزہ لیں۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ تاجر برادری پریشان ہے کہ کسی کو دھمکی اور کسی کو گولی آرہی ہے۔
یا ہم سے پریشاں تھی خوشبو یا بند ہیں اب کلیوں کی طرح
یا مثل صبا آوارہ تھے یا گھر سے نکلنا مشکل ہے
کراچی والوں پر مندرجہ بالا شعر کبھی حرف بہ حرف صادق آئے گا یہ شاید اس عظیم شاعر کے وہم و گمان میں بھی نہ آیا ہوگا۔ شہر قائد میں لاقانونیت کی نوبت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری صاحب سمیت فاضل جج صاحبان کو اپنے ریمارکس میں یہ کہنا پڑا کہ ''کراچی والوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے'' کراچی جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا آج سفاک مجرموںکی جنت بنا ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ملک بھر سے جرائم پیشہ افراد سیلاب کی طرح کراچی آرہے ہیں۔ یہ بات کسی عام شہری کے منہ سے نہیں نکلی بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ایڈووکیٹ جنرل سندھ جیسے انتہائی ذمے دار اہل کار نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کے روبرو کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ جرائم پیشہ افراد کراچی پہنچ چکے ہیں۔ سال رواں کے دوران شہر میں 90 پولیس اہل کاروں سمیت 1900 افراد قتل ہوچکے ہیں۔
جس شہر کی سڑکیں کبھی پانی سے نہلائی جاتی تھیں انھیں اب انسانی خون سے غسل دیا جارہا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اول تو اپنے دفاتر سے بہت کم باہر نکلتے ہیں اور اگر نکلتے بھی ہیں تو ڈرے سہمے ہوئے پولیس اسکواڈ کے ساتھ۔ انھیں اپنی جان کا تو بڑا خیال ہے لیکن عوام کی جانوں کا انھیں ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی گارڈ کے بغیر عام آدمی کی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے شہر کی سڑکوں اور گلیوں کوچوں میں گشت کرکے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کریں اور اس بات کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیں کہ ان کا ماتحت عملہ اسے فرائض کی ادائیگی میں کوئی غفلت یا کوتاہی تو نہیں کر رہا۔
قانون شکن عناصر نے نہ صرف عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بلکہ صنعت کاروں اور تاجروں کا ناطقہ بھی بند کر دیا ہے۔ بھتہ خوروں نے عام دکان داروں تک پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام دکان دار سے لے کر بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں پر مشتمل پوری تاجر برادری شہر کی مافیاؤں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں زبانی جمع خرچ کے علاوہ تاجروں کے تحفظ کے لیے عملاً کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ پانی سر سے اتنا اونچا ہوگیا کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کو باقاعدہ الٹی میٹم دینا پڑا۔
کراچی نہ صرف عروس البلاد ہے بلکہ وہ کماؤ پوت ہے جس کی آمدنی پر پورا پاکستان پل رہا ہے۔ کیماڑی سے خیبر اور گلگت تک سب کی روزی روٹی کا دارومدار صرف اسی شہر پر ہے۔ یہ محض ایک شہر نہیں بلکہ منی پاکستان ہے جس کا نمک ملک کا بچہ بچہ کھا رہا ہے ۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہاں ماضی بعید میں صرف چند مچھیروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ بستی ایک چھوٹا سا شہر بنی اور بالٓاخر قیام پاکستان کے نتیجے میں نوزائیدہ مملکت خداداد کی راج دھانی بن گئی۔
پاکستان کیا بنا کراچی کا مقدر جاگ اٹھا اور وہ شہر جس کی حدیں تین ہٹی کے مقام پر جا کر ختم ہوجایا کرتی تھیں، ہر طرف بڑھتا چلا گیا۔ کراچی اگر ملک کا دارالخلافہ رہتا تو شاید اس کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا لیکن افسوس صد افسوس کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے من مانی کرتے ہوئے اور بابائے قوم کی نصیحت و خواہش کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے دارالخلافہ کو کراچی سے نوآباد شہر اسلام آباد منتقل کر دیا۔ ایوب خان کا یہ اقوام کراچی کے لیے سب سے پہلا شدید جھٹکا تھا جس نے اس شہر کی معاشرت و معیشت کی چولیں ہلا دیں۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا''اگر پدونہ تواند، پسر تمام کند'' رہی سہی کسر ایوب خان کے لاڈلے بیٹے (Spoiled child) گوہر ایوب خان نے کراچی میں لسانی عصبیت کا بیج بو کر پوری کردی ۔
ایوب خان کی دیدہ دلیری کا عالم یہ تھا کہ اس نے بابائے قوم کی ہمیشرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہ بخشا اور کھلی دھاندلی کے ذریعے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔ یہ انوکھا تماشا بھی ایوب خان کا ہی کارنامہ ہے کہ سمندر کراچی میں ہے اور ملک کی بحریہ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ انڈے کجھور میں اور بچے ببول میں۔ پاکستان بنانے والوں کی آمد کی برکت اور محنت کی بدولت مچھیروں کے خاندانوں پر مشتمل ماضی کی یہ چھوٹی سی بستی دیکھتے ہی دیکھتے عروس البلاد اور ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی مرکز کی شکل اختیار کر گئی۔
بس پھر کیا تھا ملک کے گوشے گوشے سے ہر کسی نے اس شہر کا رخ کرنا شروع کر دیا جو کہ ایک فطری امر تھا ۔ جو لوگ اس ملک کے قیام کی خاطر خا ک و خون کا دریا عبور کرکے اور اپنی کشتیاں ہمیشہ کے لیے جلا کر یہاں آباد ہوئے تھے انھوں نے دن رات محنت اور مشقت کرکے اس شہر کی معاشرت و معیشت کو چار چاند لگادیے کیوں کہ نہ صرف ان کا جینا مرنا اسی شہر سے وابستہ تھا بلکہ ان کی آیندہ نسلوں کا مستقبل بھی اسی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ مگر اس کے علاوہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی معاش کی تلاش میں ادھر کا رخ کرنے لگے اور اس معاشی اور معاشرتی دھارے میں شامل ہوتے چلے گئے اور اس کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ سب کے سب آپس میں گھل مل گئے۔
مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لسانی عصیبت کا جو بیج ایوب خان کے صاحب زادے بلکہ شہزادے گوہر ایوب خان نے سب سے پہلے بویا تھا وہ رفتہ رفتہ پروان چڑھتا چلا گیا۔ جی ہاں! یہ وہی موصوف تھے جنھیں میاں نواز شریف نے اپنے سابقہ دور حکمرانی میں وزارت خارجہ کے منصب پر سرفراز فرمایا تھا۔ اس کے بعد اس شہر کے امن و سکون کے خاتمہ میں بعض دیگر عوامل بھی شامل ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً عمل اور ردعمل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس میں بہت سے وطن دشمن بیرونی عناصر بھی شامل ہوگئے۔
قصہ مختصر کراچی کے موجود حالات پر ہر محب وطن پاکستانی اور ہر اس شخص کو شدید تشویش لاحق ہے جس کا اس شہر سے کوئی بھی رشتہ ناطہ ہے یا کوئی بھی مفاد وابستہ ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ ہر شخص کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اس شہر میں جلد از جلد اور دائمی امن و آشتی کی بحالی پورے ملک اور اس کی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ کڑوا اور ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ حکومت وقت بار بار کی جھوٹی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے باوجود کراچی کے حالات معمول پر لانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے خواہ اس ناکامی کا سبب اس کی عوام میں دلچسپی ہو یا نیم دلی یا قطعی نااہلی۔ کراچی کے حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ممتاز صنعت کار اور پاک انڈیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ایس ایم منیر کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کراچی آکر بذات خود حالات کا جائزہ لیں۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ تاجر برادری پریشان ہے کہ کسی کو دھمکی اور کسی کو گولی آرہی ہے۔