کیا ڈی ایچ اے فیز ایٹ والے آسمان سے اترے ہیں
لٹیروں اور رہزنوں سے تو پورا شہر متاثر ہے تو کیا ہر گلی ہر سڑک پرالیکٹرانک سیکیورٹی گیٹ اوردوسرے انتظامات کردیئےجائیں؟
یوں تو ہفتے میں چار دن اظفر آدھا گھنٹہ لیٹ ہی دفتر آتا تھا مگر، آج کچھ زیادہ ہی تاخیر ہوگئی تھی۔ میرے گھورنے پر حسبِ عادت ڈھٹائی سے مسکرانے کے بجائے جیسے پھٹ پڑا۔
کیا بنے گا اس شہر کا؟ ایک طرف دہشت گردوں اور دوسری طرف ڈاکوؤں اور لٹیروں کا راج ہے۔ جن سے امیر و غریب یکساں طور پر متاثر ہیں۔ ہم سبھی پریشان اور خوفزدہ ہیں، لیکن تحفظ اور سلامتی کے نام پر اقدامات شاید وزیروں اور امیروں کا استحقاق ہے۔ یہ بم اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سڑکوں پر نکلتے ہیں تو آگے پیچھے پولیس موبائل اور سیکیورٹی کے دوسرے انتظامات بھی دیکھ لو۔ ان کی رہائشگاہوں کے دروازے تک تو پہنچنے کے بارے میں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اور اوپر سے پوش آبادیوں کے اطراف موجود عوامی گزرگاہوں پر رکاوٹیں، جیسے سونے پر سہاگا! ان تمام چیزوں کی وجہ سے ہم جیسے موٹر سائیکل سوار پھٹیچر لوگوں کو کئی کلو میٹر اضافی فاصلے طے کرکے اپنے دفتر یا گھروں تک جانا پڑتا ہے۔ یہ ناانصافی نہیں تو کیا ہے؟
''ذرا سانس لے لو، پانی پیو پھر بتاؤ ہوا کیا ہوا ہے؟'' میں نے اس کا غصہ دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ کچھ دیر بعد اظفر نے اس روز اپنے مزید تاخیر سے دفتر پہنچنے کی اصل وجہ بتائی تو مجھے بھی بہت غصہ آیا۔ دراصل اظفر روز ڈیفنس فیز ایٹ کے راستے سے ہوتا ہوا دفتر پہنچتا ہے، اور آج جب صبح جب اس جگہ سے گزرا تو وہاں دو مزدور اور کچھ رکاوٹیں نظر آئیں۔ اس نے ایک خیال کے تحت موٹر سائیکل روک کر مزدوروں سے ان کے کام کی نوعیت پوچھی اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ خواص کی جان و مال کے تحفظ کے نام پر عوام کو تکلیف اور پریشانی سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے تو وہ بھڑک اٹھا۔
اظفر نے مجھے تفصیل بتائی تو یاد آیا کہ کل میں نے ڈیفنس فیز ایٹ کے راستوں پر بیریئر لگانے اور سیکیورٹی گیٹ سے گزرنے کے لئے کاروں کی ای ٹیگنگ کئے جانے کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھی تھی۔ سنا ہے کہ یہ فیصلہ وہاں کے مکینوں کی جانب سے لوٹ مار کے واقعات بڑھنے اور رہزنی کی وارداتوں کی شکایات کے بعد کیا گیا ہے۔ اپنے کولیگ کی طرح میرے ذہن میں بھی بہت سے سوال کلبلانے لگے۔
کیا کراچی کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں کو اسلحے کے زور پر ان کے موبائل فونز اور نقدی سے محروم نہیں کیا جارہا؟ کیا ان کی جان کو تحفظ حاصل ہے؟ روزانہ شہری سڑکوں اور گلیوں میں اپنی قیمتی اشیاء سے محروم کئے جارہے ہیں اور ڈاکو، لٹیروں کی ''خوش نصیبی'' کہ وہ پولیس کی گرفت میں بھی نہیں آتے۔ اگر ڈیفنس کے مکینوں کی شکایت پر وہاں رکاوٹیں لگادی جائیں اور سیکیورٹی کے نام پر صرف مخصوص گاڑیاں ہی ان سڑکوں سے گزریں اور عام لوگوں کو ان پر سفر کرنے کی اجازت نہ ہو تو اسے امتیازی سلوک نہیں کہا جائے گا؟ اور کیا یہ قانوناً جائز ہوگا؟ جبکہ عدالت کی جانب سے شہر میں غیر قانونی طور پر حفاظتی نقطہ نظر سے لگائے بیریئر ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔
ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کے ان اقدامات سے ایک تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ عام آدمی کے ساتھ انہیں بھی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتبار نہیں رہا ہے۔ ورنہ یہ سب کرنے کے بجائے رہائشیوں کی شکایات پر متعلقہ تھانے اور دیگر حکومتی اداروں سے رابطہ کیا جاتا، اور ان سے گشت بڑھانے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے موثر انتظامات کی درخواست کی جاتی۔ بلدیہ کراچی کی مدد سے سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس لگوا کر روشنی کا مناسب انتظام کرتے اور نجی سیکیورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن ایسا کرنے کے بجائے سارے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے لیے گئے، پھر چاہے اکثریت اِس فیصلے سے پریشان ہی کیوں نہ ہو۔
لٹیروں اور رہزنوں سے تو پورا شہر ہی متاثر ہے تو کیا ہر گلی ہر سڑک پر الیکٹرانک سیکیورٹی گیٹ اور دوسرے انتظامات کردیئے جائیں؟ پھر ذرا سا بھی شُبہ ہو تو گارڈ کار یا موٹر سائیکل کو آبادی میں داخل نہ ہونے دے۔ اب بھلے کوئی کتنا ہی شور مچالے، سیکیورٹی تو سیکیورٹی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حفاظتی مقصد کے لیے پوش علاقے کے لوگوں کو ایک اسٹیکر فراہم کیا جائے گا جسے اپنی گاڑیوں پر چسپاں کرنا ہوگا اور جب گاڑیاں الیکٹرانک گیٹ کے قریب پہنچیں گی تو سینسر اس پر لگے ٹیگ کو شناخت کرلے گا اور اس گاڑی کو گزرنے دیا جائے گا۔ جبکہ عام سواروں پر یہ ''شاہی دروازے'' نہیں کھلیں گے۔ انہیں سمندر کنارے موجود کسی ریسٹورنٹ، سنیما، شاپنگ مال یا دوسری کسی منزل تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ ہاں، رہائشیوں لیکن ملاقاتیوں اور مہمانوں کو رعایت ضرور دی جائے گی مگر وہ بھی صرف فیملی کی صورت میں اور ان پر بھی کیمروں کی مدد سے نظر رکھی جائے گی۔ اگر ان ملاقاتیوں میں سے کسی پر سیکیورٹی کو شک ہوگا تو اسے کڑی شناخت سے گزرنا پڑے گا۔ یعنی کسی وجہ سے اگر آپ مشکوک نظر آئے تو اپنی توہین کے لیے تیار رہیں۔ اس منصوبے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موٹر سائیکل سواروں کو کسی بھی صورت اس علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، کیونکہ دو دریا اور اس سے ملحقہ تاریک روڈ پر لوٹ مار کرنے والے موٹرسائیکل سوار ہی ہوتے ہیں۔
ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر زبیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ آبادی کے تحفظ کی خاطر صرف فیز ایٹ کے علاقے کی سیکیورٹی میں الیکٹرونک گیٹ اور دوسرے انتظامات بڑھا رہے ہیں۔ اپریل تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ فیز ایٹ کی جانب بڑھنے کے لیے رہائشی اور وزیٹرز کی گاڑیوں کو الگ الگ لین میں رہنا ہوگا۔ خفیہ کیمرے تمام آمدورفت پر نظر رکھیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں ای ٹیگنگ سسٹم فیز تھری کے خیابان حافظ اور صبا ایونیو کے داخلی مقامات پر نصب کیا جارہا ہے۔ یہاں سے دو دریا پر کام کرنے والے بھی گزرتے ہیں جن کے لیے انٹری پاسز کا انتظام کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی غریب ملازم کسی دن غلطی سے پاس گھر بھول آیا تو یقیناً اسے واپس لوٹنا پڑے گا۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے من مانی اور انفرادی سوچ خوب پروان چڑھ چکی ہے۔ یہاں جس کی جیب بھاری ہے وہ راستے بند کرواسکتا ہے۔ کوئی قانون اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اختیارات اور اوپر تک پہنچ رکھنے والا کسی بھی عام شہری کی توہین کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں صرف فیز ایٹ کو سیکیورٹی کے پیش نظر عام لوگوں کی آمدورفت کے لئے بند کردینا صحیح ہے؟
[poll id="952"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
کیا بنے گا اس شہر کا؟ ایک طرف دہشت گردوں اور دوسری طرف ڈاکوؤں اور لٹیروں کا راج ہے۔ جن سے امیر و غریب یکساں طور پر متاثر ہیں۔ ہم سبھی پریشان اور خوفزدہ ہیں، لیکن تحفظ اور سلامتی کے نام پر اقدامات شاید وزیروں اور امیروں کا استحقاق ہے۔ یہ بم اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سڑکوں پر نکلتے ہیں تو آگے پیچھے پولیس موبائل اور سیکیورٹی کے دوسرے انتظامات بھی دیکھ لو۔ ان کی رہائشگاہوں کے دروازے تک تو پہنچنے کے بارے میں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اور اوپر سے پوش آبادیوں کے اطراف موجود عوامی گزرگاہوں پر رکاوٹیں، جیسے سونے پر سہاگا! ان تمام چیزوں کی وجہ سے ہم جیسے موٹر سائیکل سوار پھٹیچر لوگوں کو کئی کلو میٹر اضافی فاصلے طے کرکے اپنے دفتر یا گھروں تک جانا پڑتا ہے۔ یہ ناانصافی نہیں تو کیا ہے؟
''ذرا سانس لے لو، پانی پیو پھر بتاؤ ہوا کیا ہوا ہے؟'' میں نے اس کا غصہ دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ کچھ دیر بعد اظفر نے اس روز اپنے مزید تاخیر سے دفتر پہنچنے کی اصل وجہ بتائی تو مجھے بھی بہت غصہ آیا۔ دراصل اظفر روز ڈیفنس فیز ایٹ کے راستے سے ہوتا ہوا دفتر پہنچتا ہے، اور آج جب صبح جب اس جگہ سے گزرا تو وہاں دو مزدور اور کچھ رکاوٹیں نظر آئیں۔ اس نے ایک خیال کے تحت موٹر سائیکل روک کر مزدوروں سے ان کے کام کی نوعیت پوچھی اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ خواص کی جان و مال کے تحفظ کے نام پر عوام کو تکلیف اور پریشانی سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے تو وہ بھڑک اٹھا۔
اظفر نے مجھے تفصیل بتائی تو یاد آیا کہ کل میں نے ڈیفنس فیز ایٹ کے راستوں پر بیریئر لگانے اور سیکیورٹی گیٹ سے گزرنے کے لئے کاروں کی ای ٹیگنگ کئے جانے کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھی تھی۔ سنا ہے کہ یہ فیصلہ وہاں کے مکینوں کی جانب سے لوٹ مار کے واقعات بڑھنے اور رہزنی کی وارداتوں کی شکایات کے بعد کیا گیا ہے۔ اپنے کولیگ کی طرح میرے ذہن میں بھی بہت سے سوال کلبلانے لگے۔
کیا کراچی کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں کو اسلحے کے زور پر ان کے موبائل فونز اور نقدی سے محروم نہیں کیا جارہا؟ کیا ان کی جان کو تحفظ حاصل ہے؟ روزانہ شہری سڑکوں اور گلیوں میں اپنی قیمتی اشیاء سے محروم کئے جارہے ہیں اور ڈاکو، لٹیروں کی ''خوش نصیبی'' کہ وہ پولیس کی گرفت میں بھی نہیں آتے۔ اگر ڈیفنس کے مکینوں کی شکایت پر وہاں رکاوٹیں لگادی جائیں اور سیکیورٹی کے نام پر صرف مخصوص گاڑیاں ہی ان سڑکوں سے گزریں اور عام لوگوں کو ان پر سفر کرنے کی اجازت نہ ہو تو اسے امتیازی سلوک نہیں کہا جائے گا؟ اور کیا یہ قانوناً جائز ہوگا؟ جبکہ عدالت کی جانب سے شہر میں غیر قانونی طور پر حفاظتی نقطہ نظر سے لگائے بیریئر ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔
ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کے ان اقدامات سے ایک تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ عام آدمی کے ساتھ انہیں بھی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتبار نہیں رہا ہے۔ ورنہ یہ سب کرنے کے بجائے رہائشیوں کی شکایات پر متعلقہ تھانے اور دیگر حکومتی اداروں سے رابطہ کیا جاتا، اور ان سے گشت بڑھانے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے موثر انتظامات کی درخواست کی جاتی۔ بلدیہ کراچی کی مدد سے سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس لگوا کر روشنی کا مناسب انتظام کرتے اور نجی سیکیورٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن ایسا کرنے کے بجائے سارے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لے لیے گئے، پھر چاہے اکثریت اِس فیصلے سے پریشان ہی کیوں نہ ہو۔
لٹیروں اور رہزنوں سے تو پورا شہر ہی متاثر ہے تو کیا ہر گلی ہر سڑک پر الیکٹرانک سیکیورٹی گیٹ اور دوسرے انتظامات کردیئے جائیں؟ پھر ذرا سا بھی شُبہ ہو تو گارڈ کار یا موٹر سائیکل کو آبادی میں داخل نہ ہونے دے۔ اب بھلے کوئی کتنا ہی شور مچالے، سیکیورٹی تو سیکیورٹی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حفاظتی مقصد کے لیے پوش علاقے کے لوگوں کو ایک اسٹیکر فراہم کیا جائے گا جسے اپنی گاڑیوں پر چسپاں کرنا ہوگا اور جب گاڑیاں الیکٹرانک گیٹ کے قریب پہنچیں گی تو سینسر اس پر لگے ٹیگ کو شناخت کرلے گا اور اس گاڑی کو گزرنے دیا جائے گا۔ جبکہ عام سواروں پر یہ ''شاہی دروازے'' نہیں کھلیں گے۔ انہیں سمندر کنارے موجود کسی ریسٹورنٹ، سنیما، شاپنگ مال یا دوسری کسی منزل تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ ہاں، رہائشیوں لیکن ملاقاتیوں اور مہمانوں کو رعایت ضرور دی جائے گی مگر وہ بھی صرف فیملی کی صورت میں اور ان پر بھی کیمروں کی مدد سے نظر رکھی جائے گی۔ اگر ان ملاقاتیوں میں سے کسی پر سیکیورٹی کو شک ہوگا تو اسے کڑی شناخت سے گزرنا پڑے گا۔ یعنی کسی وجہ سے اگر آپ مشکوک نظر آئے تو اپنی توہین کے لیے تیار رہیں۔ اس منصوبے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موٹر سائیکل سواروں کو کسی بھی صورت اس علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا، کیونکہ دو دریا اور اس سے ملحقہ تاریک روڈ پر لوٹ مار کرنے والے موٹرسائیکل سوار ہی ہوتے ہیں۔
ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے بریگیڈیئر زبیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ آبادی کے تحفظ کی خاطر صرف فیز ایٹ کے علاقے کی سیکیورٹی میں الیکٹرونک گیٹ اور دوسرے انتظامات بڑھا رہے ہیں۔ اپریل تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ فیز ایٹ کی جانب بڑھنے کے لیے رہائشی اور وزیٹرز کی گاڑیوں کو الگ الگ لین میں رہنا ہوگا۔ خفیہ کیمرے تمام آمدورفت پر نظر رکھیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں ای ٹیگنگ سسٹم فیز تھری کے خیابان حافظ اور صبا ایونیو کے داخلی مقامات پر نصب کیا جارہا ہے۔ یہاں سے دو دریا پر کام کرنے والے بھی گزرتے ہیں جن کے لیے انٹری پاسز کا انتظام کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی غریب ملازم کسی دن غلطی سے پاس گھر بھول آیا تو یقیناً اسے واپس لوٹنا پڑے گا۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے من مانی اور انفرادی سوچ خوب پروان چڑھ چکی ہے۔ یہاں جس کی جیب بھاری ہے وہ راستے بند کرواسکتا ہے۔ کوئی قانون اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اختیارات اور اوپر تک پہنچ رکھنے والا کسی بھی عام شہری کی توہین کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں صرف فیز ایٹ کو سیکیورٹی کے پیش نظر عام لوگوں کی آمدورفت کے لئے بند کردینا صحیح ہے؟
[poll id="952"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔