امریکی صدارتی انتخابات ایک جائزہ
سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان جس قدر کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے قبل کسی انتخابات میں نہیں دیکھی گئی.
آج 146 ملین امریکی رجسٹرڈ ووٹر اپنی آزادی کے 57 ویں انتخابات میں 45 ویں صدر کا انتخاب کریں گے۔
ڈیموکریٹس کے امیدوار صدر اوباما اور ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے ریاست Massachusetts کے سابق گورنر مٹ رومنی کے درمیان امریکی تاریخ کے انتہائی سخت مقابلے کی توقع ہے، اگرچہ انتخابات سے قبل جاری رہنے والی Early Voting میں 15 ملین کے قریب امریکی اپنا ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں جو کہ ووٹنگ کا 30 فیصد حصہ بتایا جاتا ہے۔
بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق متعدد ریاستوں میں مٹ رومنی کو صدر اوباما کے مقابلے میں چند پوائنٹ کی برتری حاصل ہے تاہم بعض گیلپ سروے مجموعی طور پر صدر اوباما کو مٹ رومنی کے مقابلے میں 5 فیصد کی برتری قرار دے رہے ہیں لیکن سنڈی نامی خطرناک طوفان سے قبل تجربہ کاروں کا کہنا تھا کہ طوفان بارک اوباما کو لے ڈوبے گا اور مٹ رومنی طوفانی لہروں کے ساتھ وائٹ ہاؤس تک پہنچ جائیں گے تاہم اس کا فیصلہ آج کے انتخابات میں سامنے آجائے گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر اوباما اپنے چار سالہ دور میں امریکا کی معاشی بدحالی کو صحیح کرنے میں ناکام رہے۔
جس کی وجہ سے غریب لوگوں کی تعداد 50 ملین سے تجاوز کرگئی اور 24.4 ملین امریکی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ 15.7 ملین امریکی بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں یعنی چار میں سے ایک بچہ غریب بن چکا ہے جس کے سبب 90 ملین امریکیوں کو ووٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ SuffolkUniversity پول کے مطابق ان امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کا ووٹ ڈالنا ہی بے کار ہے چونکہ چاہے مٹ رومنی یا اوباما آجائیں ان کی غربت میں کمی کا کوئی امکان نہیں، تو بہتر ہے کہ انتخاب والے روز اپنا وقت گھر پر گزاریں۔
امریکا کی اس معاشی بدحالی کی وجہ سابق صدر بش کی جنگی جنونی پالیسی بتائی گئی، جس کی وجہ سے امریکا 14.46 کھرب ڈالروں کے دلدل میں پھنس گیا۔ اس سے قبل صدر کلنٹن کے دور حکومت میں ملک کا مجموعی قرضہ 5.7 کھرب ڈالر تھا لیکن جب امریکا 9/11 کے بعد اسلامی ممالک کو فتح کرنے کے جنون میں عراق اور افغانستان پر چڑھ دوڑا تو اس کے نتیجے میں قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی بجٹ خسارہ ڈیڑھ کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو قومی پیداوار کا تقریباً دس فیصد ہے اور یہ صورتحال صدر اوباما کو سابق صدر بش تحفے میں دے کرگئے۔
جس کی وجہ سے سفید سے زیادہ سیاہ فام امریکیوں میں غربت زیادہ پھیلی اور سیاہ فام امریکی اس بدحالی کا الزام سفید فام امریکیوں پر ڈالتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران سیاہ اور سفید فام امریکیوں کے درمیان نسلی تعصب میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث بارک اوباما کو 2008 کے مقابلے میں 5 فیصد کم ووٹ مل سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق جب سفید فام امریکیوں سے سیاہ فام امریکیوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو 51 فیصد نے تعصب کا اظہار کیا، اسی طرح اس الیکشن میں سیاہ فام امریکیوں جن کی 12.85 فیصد آبادی ہے اور یہ 95 فیصد صدر اوباما کے حامی ہیں۔
صدر اوباما کی کسی ممکنہ شکست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اب کھلم کھلا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس قدر سخت مقابلے میں سفید فام امریکی دھاندلی کرسکتے ہیں جیسا کہ 2000 کے انتخابات کے دوران سابق صدر بش کے بھائی Jeb بش نے جو اس وقت فلوریڈا کے گورنر تھے، ووٹنگ فراڈ میں ملوث پائے گئے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کی مداخلت پر ووٹ کی گنتی دوبارہ کی گئی اور ڈیموکریٹس کے امیدوار سابق صدر الگور کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان جس قدر کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے قبل کسی انتخابات میں نہیں دیکھی گئی۔ صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا ٹیوٹر اور فیس بک پر دونوں کے درمیان تعصب اپنے عروج پر ہے۔ سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان لفظوں کی جنگ انتہائی شدت اختیار کرگئی ہے۔ سیاہ فام امریکی کھلے عام مٹ رومنی کو ان کی ممکنہ کامیابی پر قتل کی دھمکی بھی دے رہے ہیں اور ٹیوٹر اور فیس بک پر پیغامات دے رہے ہیں کہ اگر اوباما کو دھاندلی کے ذریعے سے ہرایا گیا تو امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں فسادات کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی انتخابی مہم نے امریکیوں کو تقسیم کردیا ہے اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس انتخاب میں امریکا کی تیسری بڑی آبادی ہسپانوی باشندوں کی ہے جن کی تعداد 50 ملین یعنی 16.7 فیصد سے زائد ہے۔ 66 فیصد ہسپانوی امریکی صدر اوباما کے حق میں ہیں چونکہ صدر اوباما نے چند ماہ قبل امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم ان بچوں کو جو ہائی اسکول گریجویٹ کرچکے ہیں انھیں ڈریم ایکٹ کے ذریعے قانونی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا اور بعدازاں اپنے انتخابی مہم میں اعلان بھی کیا کہ اگر انھیں دوبارہ صدر بننے کا موقع ملا تو وہ امریکا میں غیرقانونی طور پر مقیم 11 ملین افراد کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے کانگریس سے سفارش کریں گے جس کے بعد ہسپانوی باشندوں کی بڑی تعداد اوباما کے حق میں ہوگئی ہے ۔
جہاں تک مسلمان ووٹروں کا تعلق ہے، 1.2 ملین مسلم ووٹروں میں 69 فیصد صدر اوباما کے حامی ہیں۔ اس کی وجہ چند ماہ قبل مٹ رومنی اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی دورے کے موقع پر فلسطینیوں کی دل آزاری کرآئے، ان کی معاشی بدحالی اور اسرائیل کی خوش حالی کا کلچر کا فرق بتا بیٹھے اور وہ اس بات سے لاعلم نکلے کہ فلسطینی کس صورت حال میں رہ رہے ہیں، نہ انھیں تجارت کی آزادی، نہ سیاسی آزادی اور ان کی معاشی کمزوری کی وجہ ہی اسرائیلی قبضہ ہے۔ ان کی اس نفرت انگیز گفتگو نے امریکا میں رہائش پذیر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا اور بعدازاں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی درخواست کے بعد جو انھوں نے امریکا میں مقیم یہودیوں سے کی کہ وہ اوباما کی حمایت کو ترک کرکے مٹ رومنی کا ساتھ دیں جس کے بعد مسلمانوں کی اکثریت اوباما کی حامی ہوگئی، اگرچہ امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں تاہم مٹ رومنی کو مسلمانوں کے خلاف مزید جارح رویہ رکھنے کے امکان کو نظرانداز نہیں کر رہے۔
واضح رہے کہ مٹ رومنی اپنے آخری صدارتی مباحثے میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوئے تھے اور ایران پر حملے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ اوباما مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ کونسل آف اسلامک ریلیشنز کے مطابق 68 فیصد مسلمان اوباما کے حمایتی ہیں، اسی طرح امریکا میں مقیم بھارتی باشندوں کی 70 فیصد حمایت اوباما کے ساتھ جب کہ دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے جن میں چینی، افغانی، ایرانی، ویت نامی، بنگلہ دیشی اور متعدد ممالک شامل ہیں، 58 فیصد سے زائد صدر اوباما کے حامی بتائے جاتے ہیں۔
تاہم خیال یہ کیا جاتا ہے کہ چاہے رومنی یا اوباما کوئی بھی صدر 2013 میں وائٹ ہاؤس میں اپنے قدم رکھے نہ تو اسرائیلی ظلم و جبر کو روکے گا اور نہ ڈرون حملوں میں کمی آنے کی توقع ہے بلکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ اور معصوم افراد کے قتل میں مزید تیزی آسکتی ہے اور وہی ناانصافیوں، ظلم اور زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہے گا، اس جارحانہ اقدام کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزید دہشتگرد شامل کرنے میں مدد ملتی رہے گی اور امریکا اپنی اقتصادی صورت حال کو مزید ابتری کی طرف لے جائے گا۔
ڈیموکریٹس کے امیدوار صدر اوباما اور ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے ریاست Massachusetts کے سابق گورنر مٹ رومنی کے درمیان امریکی تاریخ کے انتہائی سخت مقابلے کی توقع ہے، اگرچہ انتخابات سے قبل جاری رہنے والی Early Voting میں 15 ملین کے قریب امریکی اپنا ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں جو کہ ووٹنگ کا 30 فیصد حصہ بتایا جاتا ہے۔
بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق متعدد ریاستوں میں مٹ رومنی کو صدر اوباما کے مقابلے میں چند پوائنٹ کی برتری حاصل ہے تاہم بعض گیلپ سروے مجموعی طور پر صدر اوباما کو مٹ رومنی کے مقابلے میں 5 فیصد کی برتری قرار دے رہے ہیں لیکن سنڈی نامی خطرناک طوفان سے قبل تجربہ کاروں کا کہنا تھا کہ طوفان بارک اوباما کو لے ڈوبے گا اور مٹ رومنی طوفانی لہروں کے ساتھ وائٹ ہاؤس تک پہنچ جائیں گے تاہم اس کا فیصلہ آج کے انتخابات میں سامنے آجائے گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر اوباما اپنے چار سالہ دور میں امریکا کی معاشی بدحالی کو صحیح کرنے میں ناکام رہے۔
جس کی وجہ سے غریب لوگوں کی تعداد 50 ملین سے تجاوز کرگئی اور 24.4 ملین امریکی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ 15.7 ملین امریکی بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں یعنی چار میں سے ایک بچہ غریب بن چکا ہے جس کے سبب 90 ملین امریکیوں کو ووٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ SuffolkUniversity پول کے مطابق ان امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کا ووٹ ڈالنا ہی بے کار ہے چونکہ چاہے مٹ رومنی یا اوباما آجائیں ان کی غربت میں کمی کا کوئی امکان نہیں، تو بہتر ہے کہ انتخاب والے روز اپنا وقت گھر پر گزاریں۔
امریکا کی اس معاشی بدحالی کی وجہ سابق صدر بش کی جنگی جنونی پالیسی بتائی گئی، جس کی وجہ سے امریکا 14.46 کھرب ڈالروں کے دلدل میں پھنس گیا۔ اس سے قبل صدر کلنٹن کے دور حکومت میں ملک کا مجموعی قرضہ 5.7 کھرب ڈالر تھا لیکن جب امریکا 9/11 کے بعد اسلامی ممالک کو فتح کرنے کے جنون میں عراق اور افغانستان پر چڑھ دوڑا تو اس کے نتیجے میں قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی بجٹ خسارہ ڈیڑھ کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو قومی پیداوار کا تقریباً دس فیصد ہے اور یہ صورتحال صدر اوباما کو سابق صدر بش تحفے میں دے کرگئے۔
جس کی وجہ سے سفید سے زیادہ سیاہ فام امریکیوں میں غربت زیادہ پھیلی اور سیاہ فام امریکی اس بدحالی کا الزام سفید فام امریکیوں پر ڈالتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران سیاہ اور سفید فام امریکیوں کے درمیان نسلی تعصب میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث بارک اوباما کو 2008 کے مقابلے میں 5 فیصد کم ووٹ مل سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق جب سفید فام امریکیوں سے سیاہ فام امریکیوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو 51 فیصد نے تعصب کا اظہار کیا، اسی طرح اس الیکشن میں سیاہ فام امریکیوں جن کی 12.85 فیصد آبادی ہے اور یہ 95 فیصد صدر اوباما کے حامی ہیں۔
صدر اوباما کی کسی ممکنہ شکست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اب کھلم کھلا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس قدر سخت مقابلے میں سفید فام امریکی دھاندلی کرسکتے ہیں جیسا کہ 2000 کے انتخابات کے دوران سابق صدر بش کے بھائی Jeb بش نے جو اس وقت فلوریڈا کے گورنر تھے، ووٹنگ فراڈ میں ملوث پائے گئے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کی مداخلت پر ووٹ کی گنتی دوبارہ کی گئی اور ڈیموکریٹس کے امیدوار سابق صدر الگور کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان جس قدر کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے قبل کسی انتخابات میں نہیں دیکھی گئی۔ صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا ٹیوٹر اور فیس بک پر دونوں کے درمیان تعصب اپنے عروج پر ہے۔ سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے درمیان لفظوں کی جنگ انتہائی شدت اختیار کرگئی ہے۔ سیاہ فام امریکی کھلے عام مٹ رومنی کو ان کی ممکنہ کامیابی پر قتل کی دھمکی بھی دے رہے ہیں اور ٹیوٹر اور فیس بک پر پیغامات دے رہے ہیں کہ اگر اوباما کو دھاندلی کے ذریعے سے ہرایا گیا تو امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں فسادات کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکی انتخابی مہم نے امریکیوں کو تقسیم کردیا ہے اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس انتخاب میں امریکا کی تیسری بڑی آبادی ہسپانوی باشندوں کی ہے جن کی تعداد 50 ملین یعنی 16.7 فیصد سے زائد ہے۔ 66 فیصد ہسپانوی امریکی صدر اوباما کے حق میں ہیں چونکہ صدر اوباما نے چند ماہ قبل امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم ان بچوں کو جو ہائی اسکول گریجویٹ کرچکے ہیں انھیں ڈریم ایکٹ کے ذریعے قانونی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا اور بعدازاں اپنے انتخابی مہم میں اعلان بھی کیا کہ اگر انھیں دوبارہ صدر بننے کا موقع ملا تو وہ امریکا میں غیرقانونی طور پر مقیم 11 ملین افراد کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے کانگریس سے سفارش کریں گے جس کے بعد ہسپانوی باشندوں کی بڑی تعداد اوباما کے حق میں ہوگئی ہے ۔
جہاں تک مسلمان ووٹروں کا تعلق ہے، 1.2 ملین مسلم ووٹروں میں 69 فیصد صدر اوباما کے حامی ہیں۔ اس کی وجہ چند ماہ قبل مٹ رومنی اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی دورے کے موقع پر فلسطینیوں کی دل آزاری کرآئے، ان کی معاشی بدحالی اور اسرائیل کی خوش حالی کا کلچر کا فرق بتا بیٹھے اور وہ اس بات سے لاعلم نکلے کہ فلسطینی کس صورت حال میں رہ رہے ہیں، نہ انھیں تجارت کی آزادی، نہ سیاسی آزادی اور ان کی معاشی کمزوری کی وجہ ہی اسرائیلی قبضہ ہے۔ ان کی اس نفرت انگیز گفتگو نے امریکا میں رہائش پذیر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا اور بعدازاں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی درخواست کے بعد جو انھوں نے امریکا میں مقیم یہودیوں سے کی کہ وہ اوباما کی حمایت کو ترک کرکے مٹ رومنی کا ساتھ دیں جس کے بعد مسلمانوں کی اکثریت اوباما کی حامی ہوگئی، اگرچہ امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں تاہم مٹ رومنی کو مسلمانوں کے خلاف مزید جارح رویہ رکھنے کے امکان کو نظرانداز نہیں کر رہے۔
واضح رہے کہ مٹ رومنی اپنے آخری صدارتی مباحثے میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوئے تھے اور ایران پر حملے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ اوباما مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ کونسل آف اسلامک ریلیشنز کے مطابق 68 فیصد مسلمان اوباما کے حمایتی ہیں، اسی طرح امریکا میں مقیم بھارتی باشندوں کی 70 فیصد حمایت اوباما کے ساتھ جب کہ دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے جن میں چینی، افغانی، ایرانی، ویت نامی، بنگلہ دیشی اور متعدد ممالک شامل ہیں، 58 فیصد سے زائد صدر اوباما کے حامی بتائے جاتے ہیں۔
تاہم خیال یہ کیا جاتا ہے کہ چاہے رومنی یا اوباما کوئی بھی صدر 2013 میں وائٹ ہاؤس میں اپنے قدم رکھے نہ تو اسرائیلی ظلم و جبر کو روکے گا اور نہ ڈرون حملوں میں کمی آنے کی توقع ہے بلکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ اور معصوم افراد کے قتل میں مزید تیزی آسکتی ہے اور وہی ناانصافیوں، ظلم اور زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہے گا، اس جارحانہ اقدام کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزید دہشتگرد شامل کرنے میں مدد ملتی رہے گی اور امریکا اپنی اقتصادی صورت حال کو مزید ابتری کی طرف لے جائے گا۔