نئے بھوت کی بانہوں میں
اٹلی کا عظیم فلسفی تھامس اکیونس البرٹس کا شاگر د تھا وہ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھ کر استاد کے سبق سنتا تھا۔
اٹلی کا عظیم فلسفی تھامس اکیونس البرٹس کا شاگر د تھا وہ گھنٹوں چپ چاپ بیٹھ کر استاد کے سبق سنتا تھا۔ ایک روز خطبات کے درمیان وقفے میں ایک طالب علم نے جو ٹھٹولیا ہونے پر ناز کرتا تھا کھڑکی سے باہر جھانکا اور چلانے لگا دیکھو ذرا دیکھو ایک سانڈ اوپر اڑ رہا ہے۔
تھامس نے دیکھنے کے لیے سر کھڑکی سے باہر نکالا تو سبھی طالب علم اس کا مذاق اڑانے کے لیے ہنسنے لگے۔ تھامس نے بڑی متانت سے ان کا سامنا کیا، اس کے چہر ے پر حقارت کے آثار امڈ آئے تھے ''میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ یہ مان لوں کہ کوئی سانڈ ہوا میں اڑ سکتا ہے'' اس نے کہا ''لیکن مجھے یہ یقین بھی نہ آتا تھا کہ خدا کا کوئی بندہ جھوٹ بولنے کی اس حد تک جا سکتا ہے۔''
شاید ہی کوئی ایسا جھوٹ ہو جو 68 سالوں میں ہم سے بولا نہ گیا ہو، یا ہم نے سنا نہ ہو، ایسے ایسے جھوٹ بھی سنے ہیں جنہیں سنتے ہی شرم آ گئی لیکن مجال ہے کہ بولنے والے ذرا بھی شرمائیں ہوں اور اکثر یہ بھی ہوا ہے کہ بعض جھوٹ اس قدر ڈھٹائی اور تواتر کے ساتھ بولے گئے کہ جھوٹ خود ہی شرما گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بار یہ ہی سننے کو ملا کہ ہم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
آیئے! ہم اپنے جھوٹ کی لاش کو دیکھتے ہیں ہمارے جھوٹ کی لاش گلی سڑی سہی بدبودار سہی متعفن سہی بھیانک سہی گھناؤنی سہی لیکن اس کا منہ دیکھنے میں کیا حرج ہے کیا یہ ہماری کچھ نہیں لگتی، کیا ہم اس کے عزیز و اقارب نہیں۔ آئیں! ابتداء پہلے روز سے کرتے ہیں، پہلے ہی روز سے ہم سے وہ وہ کہا گیا جس کے خواب، خواہشیں اور تمنائیں ہمیں جینے نہ دیتی تھیں اور آج آج ہو گیا ہے، لیکن آج تک وہ ہی باتیں سن رہے ہیں۔
زمانہ بدل گیا، وقت بدل گیا، لو گ بدل گئے لیکن وہ باتیں نہیں بدلیں پہلے وہ باتیں ہمارے بزرگ سنا کرتے تھے، آج ہم سنا کرتے ہیں۔ آج جب صبح اخبار پڑھتے ہیں یا ٹی وی دیکھتے ہیں تو وہ ہی کچھ سننے کو ملتا ہے کہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیں گے، عام آدمی کو بااختیار بنا دیں گے، ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کر دیا جائے گا، روز مرہ کی اشیاء عام لوگوں کی جلد دسترس میں ہونگی، ملک میں انصاف کی ندیاں بہا دیں گے۔
جاگیرداری کاخاتمہ کر دیا جائے گا، ملک میں انقلاب برپا کر دیں گے، اسی سال ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ کر دیا جائے گا، صرف ہماری حکومت ہی عوامی حکومت ہے۔
ہمیں عوام کے غم اور فکر میں نیند ہی نہیں آتی ہے سارا سار ا دن اور رات عوام کے لیے ہی سوچتے رہتے ہیں، عوام ہمیں اپنے بچوں سے زیادہ پیارے ہیں۔
اب عوام کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم نہیں ہو گا۔ جس طرح انسانوں کی بہت سے قسمیں ہیں، اسی طرح جھوٹ کی بھی بہت سے قسمیں ہیں جیسے معصوم جھوٹ، بے شرم جھوٹ، وقتی جھوٹ، ابدی جھوٹ ، موسمی جھوٹ، ملتے جلتے جھوٹے ، رشتے دار جھوٹ ، مست رکھنے والے جھوٹ ، خواب دکھانے والے جھوٹ ، نفرت انگیز جھوٹ ، لازوال جھوٹ۔ اب یہ جھوٹ بولنے والوں پر منحصر ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ انھیں کس قسم کے حالات کا سامنا ہے اور کس قسم کے انسانوں کا کہ وہ ان حالات کے عین مطابق اور ان انسانوں کو مست رکھنے کے لیے جھوٹ کی کونسی قسم کی تسیبح بار بار پڑھیں ۔ جھوٹ بولنے والے بلا کے ذہین ہوتے ہیں انھیں اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کونسے حالات اورکونسے انسانوں کے سامنے جھوٹ کی کتنی مقدار بولنی ہے۔
اسی لیے ان کے جھوٹ بولنے کی مقدار وقت، لوگوں اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سنگین نتائج کوجنم دے سکتی ہے اس لیے یہ لوگ احتیاط کو لازم رکھتے ہیں اگر آپ بہت باریکی کے ساتھ جائزہ لیں تو آپ کو فوراً پتہ چل جائے گا کہ اصل میں جھوٹ بولنا اور سننا دونوں ہی نشے ہیں دونوں ہی کے الگ الگ مزے ہیں ایک کوجھوٹ سنائے بغیر نیند نہیں آتی اور دوسرے کو سنے بغیر چین نہیں آتا دونوں ہی اپنے اپنے سرور کی خاطر مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور جب ان کا سرور ٹوٹنے لگتا ہے تو ان کا حال نہ ہی پوچھا جائے تو بہتر ہے۔
ایک اور بہت دلچسپ بات ہے کہ اگر کوئی عام آدمی جھوٹ بولے توسننے والے فوراً طیش میں آ جاتے ہیں اور اسے ایسی ایسی کھری کھری سناتے ہیں کہ اس کے پیارے تک قبروں میں بے چین ہو جاتے ہیں اور کروٹوں پرکروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اسی طرح انسان انسان کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے۔ اس بات پر ہم سب یکساں طور پر متفق ہیں جو وقت آ کر چلاجاتا ہے وہ ماضی ہو جاتا ہے۔
اگاتھون نے کہا تھا ''صرف ایک چیز دیوتاؤں کے بس میں نہیں ہے ماضی کو منسوخ کرنا۔'' لٰہذا ہم اپنے ماضی کو منسوخ نہیں کر سکتے، اس کو بدل نہیں سکتے۔ اس میں ترمیم نہیں کر سکتے لیکن جو وقت ابھی تک آیا نہیں ہے، اسے ضرور بدل سکتے ہیں۔
اس میں اپنی خواہشات کے مطابق ترمیم کر سکتے ہیں، اسے اپنے خوابوں کے مطابق بنا سکتے ہیں اگر آپ جھوٹوں کے درمیان خوش ہیں مست ہیں توپھر اور بات ہے خوش رہیں مست رہیں لیکن اگر آپ جھوٹ سن سن کر بیزار ہو چکے ہیں تو پھر آئیے ہم اپنے آنے والے وقت کو اپنی خواہشوں اور خوابوں کے مطابق بنا لیں لیکن اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا ،کیونکہ جیسے آپ ہوتے ہیں دوسرے لوگ ویسے ہی ہوتے ہیں اور ویسا ہی وقت ہوتا ہے۔
کسی بستی میں دو دوست رہتے تھے جو وہاں بہت تنگ تھے، اتنے تنگ کہ انھوں نے وہ بستی چھوڑ کر کہیں اور بسنے کا ارادہ کر لیا اور میلوں دور ایک نئی بستی میں پہنچ گئے۔
بستی کے آغاز میں ہی انھیں ایک سفید بالوں والی بڑھیا ملی وہ اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے ''کیسی بستی ہے یہ اور یہاں کیسے لوگ رہتے ہیں'' ایک نے ہمت کر کے اس سے پوچھا بڑھیا کے چہرے پر مسکراہٹ سی آ گئی ''بیٹے کہاں سے آئے ہو وہاں کس طرح کے لوگ بستے تھے'' بس کچھ نہ پوچھیں ''دونوں نے بیک وقت کہا'' وہاں تو دنیا بھر کے لچے، لفنگے لوگ تھے غیبتیں کرنے والے حسد اور جلن میں کڑھنے والے وعدے پورا نہ کرنے والے خود غرض اور بدقماش اور جھوٹے'' اور بڑھیا کے چہرے پر یاسیت سی چھا گئی اور بولی ''بدقسمتی سے پھر یہاں پر بھی تمہا را واسطہ کچھ ایسے ہی لوگوں سے پڑے گا۔''
یاد رکھیں! اگر آپ بھوتوں سے بھاگیں گے تو بہت جلد آپ کسی بھوت کی بانہوں یاگود میں نظر آئیں گے یا جھوٹوں سے بھاگیں گے تو بھی بہت جلد نئے جھوٹوں کی بانہوں یا گود میں نظر آئیں گے۔ اس لیے انھیں نہیں بلکہ اپنے آپ کو تبدیل کریں، وہ خود بخود تبدیل ہو جائیں گے۔
تھامس نے دیکھنے کے لیے سر کھڑکی سے باہر نکالا تو سبھی طالب علم اس کا مذاق اڑانے کے لیے ہنسنے لگے۔ تھامس نے بڑی متانت سے ان کا سامنا کیا، اس کے چہر ے پر حقارت کے آثار امڈ آئے تھے ''میں اتنا پاگل نہیں ہوں کہ یہ مان لوں کہ کوئی سانڈ ہوا میں اڑ سکتا ہے'' اس نے کہا ''لیکن مجھے یہ یقین بھی نہ آتا تھا کہ خدا کا کوئی بندہ جھوٹ بولنے کی اس حد تک جا سکتا ہے۔''
شاید ہی کوئی ایسا جھوٹ ہو جو 68 سالوں میں ہم سے بولا نہ گیا ہو، یا ہم نے سنا نہ ہو، ایسے ایسے جھوٹ بھی سنے ہیں جنہیں سنتے ہی شرم آ گئی لیکن مجال ہے کہ بولنے والے ذرا بھی شرمائیں ہوں اور اکثر یہ بھی ہوا ہے کہ بعض جھوٹ اس قدر ڈھٹائی اور تواتر کے ساتھ بولے گئے کہ جھوٹ خود ہی شرما گئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر بار یہ ہی سننے کو ملا کہ ہم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
آیئے! ہم اپنے جھوٹ کی لاش کو دیکھتے ہیں ہمارے جھوٹ کی لاش گلی سڑی سہی بدبودار سہی متعفن سہی بھیانک سہی گھناؤنی سہی لیکن اس کا منہ دیکھنے میں کیا حرج ہے کیا یہ ہماری کچھ نہیں لگتی، کیا ہم اس کے عزیز و اقارب نہیں۔ آئیں! ابتداء پہلے روز سے کرتے ہیں، پہلے ہی روز سے ہم سے وہ وہ کہا گیا جس کے خواب، خواہشیں اور تمنائیں ہمیں جینے نہ دیتی تھیں اور آج آج ہو گیا ہے، لیکن آج تک وہ ہی باتیں سن رہے ہیں۔
زمانہ بدل گیا، وقت بدل گیا، لو گ بدل گئے لیکن وہ باتیں نہیں بدلیں پہلے وہ باتیں ہمارے بزرگ سنا کرتے تھے، آج ہم سنا کرتے ہیں۔ آج جب صبح اخبار پڑھتے ہیں یا ٹی وی دیکھتے ہیں تو وہ ہی کچھ سننے کو ملتا ہے کہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیں گے، عام آدمی کو بااختیار بنا دیں گے، ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کر دیا جائے گا، روز مرہ کی اشیاء عام لوگوں کی جلد دسترس میں ہونگی، ملک میں انصاف کی ندیاں بہا دیں گے۔
جاگیرداری کاخاتمہ کر دیا جائے گا، ملک میں انقلاب برپا کر دیں گے، اسی سال ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ کر دیا جائے گا، صرف ہماری حکومت ہی عوامی حکومت ہے۔
ہمیں عوام کے غم اور فکر میں نیند ہی نہیں آتی ہے سارا سار ا دن اور رات عوام کے لیے ہی سوچتے رہتے ہیں، عوام ہمیں اپنے بچوں سے زیادہ پیارے ہیں۔
اب عوام کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم نہیں ہو گا۔ جس طرح انسانوں کی بہت سے قسمیں ہیں، اسی طرح جھوٹ کی بھی بہت سے قسمیں ہیں جیسے معصوم جھوٹ، بے شرم جھوٹ، وقتی جھوٹ، ابدی جھوٹ ، موسمی جھوٹ، ملتے جلتے جھوٹے ، رشتے دار جھوٹ ، مست رکھنے والے جھوٹ ، خواب دکھانے والے جھوٹ ، نفرت انگیز جھوٹ ، لازوال جھوٹ۔ اب یہ جھوٹ بولنے والوں پر منحصر ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ انھیں کس قسم کے حالات کا سامنا ہے اور کس قسم کے انسانوں کا کہ وہ ان حالات کے عین مطابق اور ان انسانوں کو مست رکھنے کے لیے جھوٹ کی کونسی قسم کی تسیبح بار بار پڑھیں ۔ جھوٹ بولنے والے بلا کے ذہین ہوتے ہیں انھیں اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کونسے حالات اورکونسے انسانوں کے سامنے جھوٹ کی کتنی مقدار بولنی ہے۔
اسی لیے ان کے جھوٹ بولنے کی مقدار وقت، لوگوں اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سنگین نتائج کوجنم دے سکتی ہے اس لیے یہ لوگ احتیاط کو لازم رکھتے ہیں اگر آپ بہت باریکی کے ساتھ جائزہ لیں تو آپ کو فوراً پتہ چل جائے گا کہ اصل میں جھوٹ بولنا اور سننا دونوں ہی نشے ہیں دونوں ہی کے الگ الگ مزے ہیں ایک کوجھوٹ سنائے بغیر نیند نہیں آتی اور دوسرے کو سنے بغیر چین نہیں آتا دونوں ہی اپنے اپنے سرور کی خاطر مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور جب ان کا سرور ٹوٹنے لگتا ہے تو ان کا حال نہ ہی پوچھا جائے تو بہتر ہے۔
ایک اور بہت دلچسپ بات ہے کہ اگر کوئی عام آدمی جھوٹ بولے توسننے والے فوراً طیش میں آ جاتے ہیں اور اسے ایسی ایسی کھری کھری سناتے ہیں کہ اس کے پیارے تک قبروں میں بے چین ہو جاتے ہیں اور کروٹوں پرکروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اسی طرح انسان انسان کو دیکھ کر رنگ پکڑتاہے۔ اس بات پر ہم سب یکساں طور پر متفق ہیں جو وقت آ کر چلاجاتا ہے وہ ماضی ہو جاتا ہے۔
اگاتھون نے کہا تھا ''صرف ایک چیز دیوتاؤں کے بس میں نہیں ہے ماضی کو منسوخ کرنا۔'' لٰہذا ہم اپنے ماضی کو منسوخ نہیں کر سکتے، اس کو بدل نہیں سکتے۔ اس میں ترمیم نہیں کر سکتے لیکن جو وقت ابھی تک آیا نہیں ہے، اسے ضرور بدل سکتے ہیں۔
اس میں اپنی خواہشات کے مطابق ترمیم کر سکتے ہیں، اسے اپنے خوابوں کے مطابق بنا سکتے ہیں اگر آپ جھوٹوں کے درمیان خوش ہیں مست ہیں توپھر اور بات ہے خوش رہیں مست رہیں لیکن اگر آپ جھوٹ سن سن کر بیزار ہو چکے ہیں تو پھر آئیے ہم اپنے آنے والے وقت کو اپنی خواہشوں اور خوابوں کے مطابق بنا لیں لیکن اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا ،کیونکہ جیسے آپ ہوتے ہیں دوسرے لوگ ویسے ہی ہوتے ہیں اور ویسا ہی وقت ہوتا ہے۔
کسی بستی میں دو دوست رہتے تھے جو وہاں بہت تنگ تھے، اتنے تنگ کہ انھوں نے وہ بستی چھوڑ کر کہیں اور بسنے کا ارادہ کر لیا اور میلوں دور ایک نئی بستی میں پہنچ گئے۔
بستی کے آغاز میں ہی انھیں ایک سفید بالوں والی بڑھیا ملی وہ اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے ''کیسی بستی ہے یہ اور یہاں کیسے لوگ رہتے ہیں'' ایک نے ہمت کر کے اس سے پوچھا بڑھیا کے چہرے پر مسکراہٹ سی آ گئی ''بیٹے کہاں سے آئے ہو وہاں کس طرح کے لوگ بستے تھے'' بس کچھ نہ پوچھیں ''دونوں نے بیک وقت کہا'' وہاں تو دنیا بھر کے لچے، لفنگے لوگ تھے غیبتیں کرنے والے حسد اور جلن میں کڑھنے والے وعدے پورا نہ کرنے والے خود غرض اور بدقماش اور جھوٹے'' اور بڑھیا کے چہرے پر یاسیت سی چھا گئی اور بولی ''بدقسمتی سے پھر یہاں پر بھی تمہا را واسطہ کچھ ایسے ہی لوگوں سے پڑے گا۔''
یاد رکھیں! اگر آپ بھوتوں سے بھاگیں گے تو بہت جلد آپ کسی بھوت کی بانہوں یاگود میں نظر آئیں گے یا جھوٹوں سے بھاگیں گے تو بھی بہت جلد نئے جھوٹوں کی بانہوں یا گود میں نظر آئیں گے۔ اس لیے انھیں نہیں بلکہ اپنے آپ کو تبدیل کریں، وہ خود بخود تبدیل ہو جائیں گے۔