میڈیا کی ترقی‘ مگر مسائل جوں کے توں
انسانی ترقی کے لئے میڈیا اپنا حقیقی کردار کب اد کرے گا؟
بیسویں صدی میڈیا کے ارتقاء کی صدی تھی اور اکیسویں اس کے روزا فزوں ترقی کی صدی ہے۔ اس حقیقت کی ایک واضح جھلک پاکستان میں میڈیا کی ترقی سے بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ یکم مارچ 2002 کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے بعد سے ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی وہ قابلِ رشک ہے۔
اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق اب تک ملک میں الیکٹرانک میڈیا ( ریڈیو اسٹیشنز اور ٹیلی ویژن چینلز)کی تعداد میں 4114 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس پرنٹ میڈیا ( روزنامہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامہ، سہ ماہی اور دیگر)کی تعداد میں108 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر میڈیا کے آؤٹ لیٹس کی تعداد 182 فیصدبڑھ گئی ہے۔
آزادی کے وقت ملک میں تین سرکاری ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے تھے جبکہ اب سرکاری شعبے میں کام کرنے والے ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد 33 ہے۔ ( جو 40 ایف ایم چینلز اور 22 میڈیم ویو چینلزکے سیٹ اپ پر مشتمل ہیں) 1995 ء میں ملک میں پہلے پرائیویٹ کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے کا م کا آغاز کیا اور یہ تعداد 2015 تک بڑھ کر 129 ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں 2003 میں پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پاکستان کا پہلا نان کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا اور آج اس طرح کے ریڈیو اسٹیشنز کی ملک گیر تعداد 39 ہے۔
اگر ہم وطن عزیز میں ٹی وی چینلز کی ترقی پر نظر ڈالیں تو 1964 میں ملک کے پہلے سرکاری ٹی وی چینل کے آغاز سے اب تک سرکاری ٹی وی چینلز کی تعداد بڑھ کر 8 ہو چکی ہے ۔ جبکہ 1990 میں پرائیویٹ شعبے میں شروع ہونے والے پہلے نجی ٹی وی چینل کی تعداد 2015 تک بڑھ کر 86 تک آ چکی ہے۔ پر نٹ میڈیا کی تعداد جو 1953 میں ( وفاقی ادرہ شماریات کے ریکارڈ کے مطابق)370 تھی2011 تک کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 769 تک پہنچ چکی ہے۔
ملک میں میڈیا کا اتنا پھیلاؤ یقیناً خوش آئند ہے لیکن یہ پھیلاؤ عوام کے کس کا م کا؟ یہ سوال آج ملک میں میڈیا کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ایک نقطہ نظر اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ یہ پھیلاؤ دراصل Audience اور مارکیٹ کا زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کرنے کی دوڑ ہے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر لوگوں کی ابلاغی ضروریات کی تکمیل کے حوالے سے ملک میں موجود ابلاغی خلیج (Communication Gap ) کو کم کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے فروغ سے تعبیر ہے۔
لیکن یہ دونوں نقطہ نظر جس ایک مشترکہ پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں وہ میڈیا کی ذمہ داری کے نظریہ سے وابستہ ہے۔ کیا ہمارا میڈیا اپنی پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے؟ کیا انسانی ترقی کے موضوعات اس کے ایجنڈا کا حصہ ہیں؟ کیا اس کے مندرجات (Content ) حقیقی عوامی ضروریات، مسائل اور ثقافت سے ہم آہنگ ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج پاکستان میں میڈیا کے تیز تر پھیلاؤکے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اگر چہ میڈیا کا بنیادی کام کسی بھی معاشرے میں اطلاعات، معلومات اور تفریح فراہم کرنا ہے۔ لیکن ان سوالات کے جواب کے لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں میڈیا کے کردار کی دیگرمختلف جہتوںکو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ ماہر ابلاغیات (Wilbur Schramm) ترقی پذیر ممالک میں تبدیلی اور جدت کے لئے میڈیا کے تین بنیادی کرداروں کی بات کر تے ہیں۔
میڈیا بطور چوکیدار (Watchdogs)، پالیسی ساز (Policymakers) اور استاد (Teachers) کے۔ اُن کے مطابق میڈیا چوکیدار کے طور پر ملک کے پبلک اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور کسی بھی ایسی بے قاعدگی جو ترقی کے عمل کو متاثر کرتی ہو اُسے اجاگر کرے۔
پالیسی ساز کے طور پر میڈیا صرف غلط کو ہی اجاگر نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح بھی تجویز کرے جو حکومتوں کو پالیسیوں کے بنانے اور اس کے عملدر آمد میں معاون ہوتی ہے۔ استاد کے طور پر میڈیا لوگوں کو یہ سیکھائے کہ وہ کس طرح تبدیلی، جدت اور ترقی کے لئے متحرک ہو سکتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں علم اور مہارتیں منتقل کی جائیں تاکہ وہ اپنا نیا کرداراور ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔
میڈیا کا یہ کردار دراصل میڈیا کی اہمیت، اس کے فوری اور دیرپا اثر کی بدولت ہے۔ جس کی وضاحت میڈیا کی مختلف تھیوریز کے ذریعے کی گئی ہے۔ مثلاً میڈیا لوگوں کے ادراک (perception ) پر اثر انداز ہو تا ہے اور اس کے استعمال سے لوگوں کے خیالات کو ایک خاص سمت میں مو ڑا جا سکتا ہے اور یہ لوگوں کے طرز عمل ، رویہ اور عقائد کو تبدیل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے نکلنے والاہر پیغام ایک گولی کی مانند اپنے آڈینس کو لگتا ہے اور اثر کرتا ہے۔
یعنی میڈیا لوگوں کی ترقیاتی عمل کے حوالے سے رائے کی تشکیل اور تبدیل کرنے کا ایک اہم محرک ہے۔ جبکہ ایک اور تھیوری کے مطابق میڈیا لو گوں کی کسی خاص مسئلہ کے بارے میں رائے کو تبدیل کرنے کی بجائے کسی مسئلہ کی اہمیت کے حوالے سے ان کی رائے بناتا ہے۔ جدید تحقیق کاروں کے مطابق اگر کوئی مسئلہ عوامی توجہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر لازماً حکومتی پا لیسیوں پر اثر انداز ہو تا ہے۔
ان تمام خوبیوں کی روشنی میں اگر ہمارا میڈیا چوکیدار، پالیسی ساز اور استاد کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہو اور اُس کا یجنڈا واقعی عوامی مسائل پر بھی مبنی ہو تو پھر ملک کی انسانی ترقی کی صورتحال بہت بہتر ہونی چاہیئے۔لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ سرکاری میڈیا تو پبلک سروس براڈکاسٹنگ کے حوالے سے متحرک ہے ۔ لیکن پرائیویٹ میڈیا جس کا ملک میں ایک سیلاب امڈ آیا ہے، پبلک براڈ کاسٹنگ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیںکر رہا۔
کیونکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ2015ء میںموجود ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس کے مطابق پاکستان دنیا کے 188ممالک میں انسانی ترقی کے اعتبار سے 147ویں نمبر پر ہے اور اس کا شمار دنیا کے کم انسانی ترقی کے حامل ممالک کی کیٹگری میں ہو تا ہے۔ پاکستان کی یہ رینکنگ اس تکلیف دہ حقیقت کو سامنے لا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے صرف افغانستان سے بہتر پوزیشن پر ہے جو171 ویں نمبر پر ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی سماجی ترقی کے اور بہت سے اشاریئے ہمارے میڈیا کی پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی ذمہ داری کی صورتحال کی حقیقت کو عیاں کرتے ہیں۔ آبادی ہی کو لے لیں اگر یہ موضوع میڈیا کے مندرجات اور ایجنڈے کا حصہ ہوتا تو پھر کیا ہم جو 1950ء میں دنیا میں زیادہ آبادی کے حوالے سے 13 ویں نمبر پرتھے یوایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد وشمار کے مطابق 2015 ء تک دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک بنتے؟ اور 2019 تک اسے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کی پیشن گوئی ہوتی؟
اسی طرح دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں کی دوسری بڑی تعداد اور ناخواندہ بالغ افراد کی تیسری بڑی تعداد پاکستانیوں پر مشتمل ہوتی؟۔ اور ملک میں شرح خواندگی 2013-14 تک صرف 58 فیصد تک پہنچ پاتی؟۔ ملک کی خواندگی کی یہ صورتحال ہمارے میڈیا کو بہت کچھ سوچنے اور کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔
صحت کے شعبے کی کارکردگی میڈیا کے مندرجات میں مناسب جگہ نہ پانے کی وجہ سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر لاپروائی کی بہت سی واضح مثالیں نظر آتی ہیں مثلاً بطور والدین ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بیماریوںاور معذوری سے بچانے کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات نا صرف لگوائیں بلکہ اُس کا کورس بھی مکمل کروائیں۔
لیکن کہیں بطور والدین ہم لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہیں متعلقہ ادارے سستی اور نااہلی کی مجسم صورت بن جاتے ہیں۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں ریکارڈ کی بنیاد پر مرتب شدہ اعدادوشمارکی روشنی میں 12 سے23 ماہ تک کی عمرکے صرف 58 فیصد بچوںکو حفاظتی ٹیکہ جات لگوائے جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کی عالمی درجہ بندی میں 23 ویں نمبر پر ہے۔اور ہر سال 3 لاکھ 94 ہزار پاکستانی نو نہال اپنی پانچویں سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور دنیا سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34 فیصد بچوں کا پیدائشی اندراج ہوتا ہے۔
پاکستان میں اگر صحت کی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو جو منظر نامہ سامنے آتا ہے اُس کا ذکر کرتے ہوئے اکنامک سروے آف پاکستان 2014-15 بتاتاہے کہ ملک میں ایک ہزار 73 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر، 12 ہزار 4 سو 47 افراد کے لئے ایک ڈینٹسٹ اور 15 سو 93 افراد کے لئے کسی بھی طبی سہولت میں موجود ایک بستر ہے۔ یہ صورتحال ایک طرف تو ملک میں صحت کی سہولیات میں اضافہ کی طالب ہے تو دوسری جانب صحت کے شعبے پر خرچ کی جانے والی رقم کا تناسب ملکی جی ڈی پی کے حوالے سے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے لیکن میڈیا کی مناسب توجہ شاید اس جانب نہیں ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان دنیا میں بھارت اور انڈونیشیا کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی چار کروڑ افراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ پاکستا ن کے 17 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیںہے۔ اس بنیادی انسانی ضرورت سے محرومی ملک کی صحت اور صفائی پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے یہ موضوع بھی میڈیا کی نظر سے اخفا ء ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 ملک میں لوگوں کی غذائی حیثیت کی یوں منظر کشی کرتا ہے کہ '' پاکستان کی 60 فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکارہے، گزشتہ عشرے میں لوگوں کی غذائیت کی حیثیت(Nutritional Status) میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور ایف اے او کی رپورٹ '' دی اسٹیٹ آف فوڈ ان سکیورٹی ان دی ورلڈ 2015 '' کے مطابق پاکستان کی 22 فیصد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ کیا ہمارے میڈیا نے اس جانب توجہ کی؟
ملک میں خواتین اور مردوںکے درمیان مساویانہ حقوق کی فراہمی کے حوالے سے بھی ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ2014 ء میں پاکستان کو 142 ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ جہاں صحت، تعلیم، معیشت اور سیاست میں صنفی تفاوت کی وسیع خلیج موجود ہے۔
اس کے علاوہ خواتین پر تشدد کی حوصلہ شکنی اور اس کے مضمرات سے معاشرے کو آگاہ کرنے کے لئے میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے لیکن پاکستان ڈیمو گرا فک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 ملک میںخواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق ملک میں 15 سے 49سال کی عمر کی 32.2 فیصدشادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔
جبکہ 38.5 فیصداپنے شوہروں کے ہاتھوںجسمانی یا جذباتی تشدد سہتی ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا یا اُن کی نفسیاتی طور پر تذلیل کرنا شہروںکی نسبت زیادہ ہے۔ پاکستان کے دیہہ میں41.6 اور شہروں میں 32.2 فیصد بیاہی خواتین پُر تشدد واقعات کا سامنا کرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ اَن گنت کیسز سامنے ہی نہیں آتے اور گھروں کی چاردیواری کے اندر ہی دبا دیئے جاتے ہیں۔
چاہے وہ خواتین پر جسمانی تشدد ہو، نفسیاتی یا پھر معاشی خواتین خود بھی اس کے بارے میں کم ہی زبان کھولتی ہیں۔اور ایسا صرف آگہی کی کمی کی وجہ سے ہے جو میڈیا کی پبلک سروس کا ایک بنیادی کام ہے۔
لیکن اس حوالے سے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے اعداد و شمار جو منظر نامہ پیش کررہے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ملک میں15 سے 49 سال کی عمر کی جسمانی تشدد کا شکارشادی شدہ خواتین کا 51.3 فیصد تشدد کے وقت نہ ہی مدد کے لئے کسی کو پکار تی ہیں اور نہ ہی کسی سے اُس کا ذکر کرتی ہیں۔خاموشی کی ان زنجیروں میں سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ کی خواتین جکڑی ہوئی ہیںجہاں جسمانی تشدد کا شکار 66.8 فیصد خواتین اس حوالے سے چپ اختیار کرلیتی ہیں۔
پاکستان کے لئے نوجوانوں کے اثاثہ کی اہمیت بھی دوچند ہے کیونکہ اس وقت دنیامیں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعدادکے حامل ملک کا نام پاکستان ہے۔
اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔Age Group چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے۔
اس کے علاوہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کی مقرر کردہ Age Group کے مطابق دنیا میں 15 ویں نمبرپر ہے اور ملک کی 21.5 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دولتِ مشترکہ کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب 30.7 فیصد ہے اور پاکستان اس تناسب کے حوالے سے دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ کیا میڈیا ہمارے اس قومی اثاثہ کی فلاح و بہبود اور تربیت کو اپنے مندرجات اور ایجنڈے کا حصہ بنا رہا ہے ؟
اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2014ء کے مطابق دنیا کے120 ممالک( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) کی معاشی غربت کے حوالے سے مرتب کردہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان46 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں جلد از جلد عملی کو ششوں کا آغاز بڑے پیمانے پر کیا جائے۔ اور یہ کام میڈیا کا ہے کہ وہ اس صورتحال میں استاد، پالیسی ساز اور چوکیدار کا کردار ادا کرے تاکہ انسانی ترقی کی صورتحال کو بہتر کیا جاسکے کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔
جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2015 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد,پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔ ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی ضروریات کی کم تر سہولیات کے باعث ہے۔ لیکن میڈیا کے ایجنڈے میں یہ موضوع بھی جگہ نہیں پا رہا۔
غرض ملک میں انسانی ترقی سے وابستہ ایسے بے شمار موضوعات ہیں جن پر ہمارامیڈیا مکمل توجہ نہیں دے رہا۔ وقتی کوریج تو سب موضوعات، مسائل، بیانات اور تقاریب کی ہوتی ہے لیکن ان کے Fallow up پر کام نہیں کیا جاتا۔کیونکہ ہمارے پرائیویٹ میڈیا کی ترجیح زیادہ تر سیاسی موضوعات اور تنازعات سے بھرے چٹخارے دار موضوعات ہیں۔
یہ حقیقت انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ نامی ادارے کی ایک تحقیق میں بتائی گئی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ میڈیا دیکھتا، سناتا اور پڑھاتا وہی کچھ ہے جو لوگ چاہتے ہیں۔ لیکن افراد کی چوائس کون بناتا ہے؟ میڈیا کا کردار اس سے مبرا نہیں۔کیونکہ میڈیا کی کئی ایک تھیوریز اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ میڈیا اپنے ایجنڈے کی مدد سے لوگوں کے ذوق کی نمو کرتا ہے۔
اس تمام بحث کا ہرگز مقصد اس تاثر کو فروغ دینا نہیں کہ ہمارا میڈیا اپنے فرائض صحیح طور پر ادا نہیں کر رہا ۔ بلکہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ پرائیویٹ وسرکاری میڈیا کے مندرجات اور ایجنڈا میں انسانی ترقی اور سماجی بہبود کے موضوعات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی دوسرے موضوعات کو دی جاتی ہے۔ اور حکومت ایسی میڈیا پالیسی مرتب کرے جو میڈیا ( سرکاری اور پرائیویٹ) کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ پبلک براڈ کاسٹنگ کو اپنے مندرجات اور ایجنڈے کا مستقل حصہ بنائیں۔ تاکہ میڈیا کی موجودہ ترقی انسانی ترقی اور بہبود کا بھی باعث بنے۔
اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق اب تک ملک میں الیکٹرانک میڈیا ( ریڈیو اسٹیشنز اور ٹیلی ویژن چینلز)کی تعداد میں 4114 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس پرنٹ میڈیا ( روزنامہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامہ، سہ ماہی اور دیگر)کی تعداد میں108 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر میڈیا کے آؤٹ لیٹس کی تعداد 182 فیصدبڑھ گئی ہے۔
آزادی کے وقت ملک میں تین سرکاری ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے تھے جبکہ اب سرکاری شعبے میں کام کرنے والے ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد 33 ہے۔ ( جو 40 ایف ایم چینلز اور 22 میڈیم ویو چینلزکے سیٹ اپ پر مشتمل ہیں) 1995 ء میں ملک میں پہلے پرائیویٹ کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نے کا م کا آغاز کیا اور یہ تعداد 2015 تک بڑھ کر 129 ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں 2003 میں پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پاکستان کا پہلا نان کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا اور آج اس طرح کے ریڈیو اسٹیشنز کی ملک گیر تعداد 39 ہے۔
اگر ہم وطن عزیز میں ٹی وی چینلز کی ترقی پر نظر ڈالیں تو 1964 میں ملک کے پہلے سرکاری ٹی وی چینل کے آغاز سے اب تک سرکاری ٹی وی چینلز کی تعداد بڑھ کر 8 ہو چکی ہے ۔ جبکہ 1990 میں پرائیویٹ شعبے میں شروع ہونے والے پہلے نجی ٹی وی چینل کی تعداد 2015 تک بڑھ کر 86 تک آ چکی ہے۔ پر نٹ میڈیا کی تعداد جو 1953 میں ( وفاقی ادرہ شماریات کے ریکارڈ کے مطابق)370 تھی2011 تک کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 769 تک پہنچ چکی ہے۔
ملک میں میڈیا کا اتنا پھیلاؤ یقیناً خوش آئند ہے لیکن یہ پھیلاؤ عوام کے کس کا م کا؟ یہ سوال آج ملک میں میڈیا کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ایک نقطہ نظر اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ یہ پھیلاؤ دراصل Audience اور مارکیٹ کا زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کرنے کی دوڑ ہے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر لوگوں کی ابلاغی ضروریات کی تکمیل کے حوالے سے ملک میں موجود ابلاغی خلیج (Communication Gap ) کو کم کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے فروغ سے تعبیر ہے۔
لیکن یہ دونوں نقطہ نظر جس ایک مشترکہ پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں وہ میڈیا کی ذمہ داری کے نظریہ سے وابستہ ہے۔ کیا ہمارا میڈیا اپنی پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی ذمہ داری پوری کر رہا ہے؟ کیا انسانی ترقی کے موضوعات اس کے ایجنڈا کا حصہ ہیں؟ کیا اس کے مندرجات (Content ) حقیقی عوامی ضروریات، مسائل اور ثقافت سے ہم آہنگ ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج پاکستان میں میڈیا کے تیز تر پھیلاؤکے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اگر چہ میڈیا کا بنیادی کام کسی بھی معاشرے میں اطلاعات، معلومات اور تفریح فراہم کرنا ہے۔ لیکن ان سوالات کے جواب کے لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں میڈیا کے کردار کی دیگرمختلف جہتوںکو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ ماہر ابلاغیات (Wilbur Schramm) ترقی پذیر ممالک میں تبدیلی اور جدت کے لئے میڈیا کے تین بنیادی کرداروں کی بات کر تے ہیں۔
میڈیا بطور چوکیدار (Watchdogs)، پالیسی ساز (Policymakers) اور استاد (Teachers) کے۔ اُن کے مطابق میڈیا چوکیدار کے طور پر ملک کے پبلک اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور کسی بھی ایسی بے قاعدگی جو ترقی کے عمل کو متاثر کرتی ہو اُسے اجاگر کرے۔
پالیسی ساز کے طور پر میڈیا صرف غلط کو ہی اجاگر نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح بھی تجویز کرے جو حکومتوں کو پالیسیوں کے بنانے اور اس کے عملدر آمد میں معاون ہوتی ہے۔ استاد کے طور پر میڈیا لوگوں کو یہ سیکھائے کہ وہ کس طرح تبدیلی، جدت اور ترقی کے لئے متحرک ہو سکتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں علم اور مہارتیں منتقل کی جائیں تاکہ وہ اپنا نیا کرداراور ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔
میڈیا کا یہ کردار دراصل میڈیا کی اہمیت، اس کے فوری اور دیرپا اثر کی بدولت ہے۔ جس کی وضاحت میڈیا کی مختلف تھیوریز کے ذریعے کی گئی ہے۔ مثلاً میڈیا لوگوں کے ادراک (perception ) پر اثر انداز ہو تا ہے اور اس کے استعمال سے لوگوں کے خیالات کو ایک خاص سمت میں مو ڑا جا سکتا ہے اور یہ لوگوں کے طرز عمل ، رویہ اور عقائد کو تبدیل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے نکلنے والاہر پیغام ایک گولی کی مانند اپنے آڈینس کو لگتا ہے اور اثر کرتا ہے۔
یعنی میڈیا لوگوں کی ترقیاتی عمل کے حوالے سے رائے کی تشکیل اور تبدیل کرنے کا ایک اہم محرک ہے۔ جبکہ ایک اور تھیوری کے مطابق میڈیا لو گوں کی کسی خاص مسئلہ کے بارے میں رائے کو تبدیل کرنے کی بجائے کسی مسئلہ کی اہمیت کے حوالے سے ان کی رائے بناتا ہے۔ جدید تحقیق کاروں کے مطابق اگر کوئی مسئلہ عوامی توجہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر لازماً حکومتی پا لیسیوں پر اثر انداز ہو تا ہے۔
ان تمام خوبیوں کی روشنی میں اگر ہمارا میڈیا چوکیدار، پالیسی ساز اور استاد کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہو اور اُس کا یجنڈا واقعی عوامی مسائل پر بھی مبنی ہو تو پھر ملک کی انسانی ترقی کی صورتحال بہت بہتر ہونی چاہیئے۔لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ سرکاری میڈیا تو پبلک سروس براڈکاسٹنگ کے حوالے سے متحرک ہے ۔ لیکن پرائیویٹ میڈیا جس کا ملک میں ایک سیلاب امڈ آیا ہے، پبلک براڈ کاسٹنگ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیںکر رہا۔
کیونکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ2015ء میںموجود ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس کے مطابق پاکستان دنیا کے 188ممالک میں انسانی ترقی کے اعتبار سے 147ویں نمبر پر ہے اور اس کا شمار دنیا کے کم انسانی ترقی کے حامل ممالک کی کیٹگری میں ہو تا ہے۔ پاکستان کی یہ رینکنگ اس تکلیف دہ حقیقت کو سامنے لا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے صرف افغانستان سے بہتر پوزیشن پر ہے جو171 ویں نمبر پر ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی سماجی ترقی کے اور بہت سے اشاریئے ہمارے میڈیا کی پبلک سروس براڈکاسٹنگ کی ذمہ داری کی صورتحال کی حقیقت کو عیاں کرتے ہیں۔ آبادی ہی کو لے لیں اگر یہ موضوع میڈیا کے مندرجات اور ایجنڈے کا حصہ ہوتا تو پھر کیا ہم جو 1950ء میں دنیا میں زیادہ آبادی کے حوالے سے 13 ویں نمبر پرتھے یوایس سینسیز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعداد وشمار کے مطابق 2015 ء تک دنیا کی چھٹی سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک بنتے؟ اور 2019 تک اسے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کی پیشن گوئی ہوتی؟
اسی طرح دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں کی دوسری بڑی تعداد اور ناخواندہ بالغ افراد کی تیسری بڑی تعداد پاکستانیوں پر مشتمل ہوتی؟۔ اور ملک میں شرح خواندگی 2013-14 تک صرف 58 فیصد تک پہنچ پاتی؟۔ ملک کی خواندگی کی یہ صورتحال ہمارے میڈیا کو بہت کچھ سوچنے اور کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔
صحت کے شعبے کی کارکردگی میڈیا کے مندرجات میں مناسب جگہ نہ پانے کی وجہ سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر لاپروائی کی بہت سی واضح مثالیں نظر آتی ہیں مثلاً بطور والدین ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بیماریوںاور معذوری سے بچانے کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات نا صرف لگوائیں بلکہ اُس کا کورس بھی مکمل کروائیں۔
لیکن کہیں بطور والدین ہم لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہیں متعلقہ ادارے سستی اور نااہلی کی مجسم صورت بن جاتے ہیں۔ اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں ریکارڈ کی بنیاد پر مرتب شدہ اعدادوشمارکی روشنی میں 12 سے23 ماہ تک کی عمرکے صرف 58 فیصد بچوںکو حفاظتی ٹیکہ جات لگوائے جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کی عالمی درجہ بندی میں 23 ویں نمبر پر ہے۔اور ہر سال 3 لاکھ 94 ہزار پاکستانی نو نہال اپنی پانچویں سالگرہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور دنیا سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34 فیصد بچوں کا پیدائشی اندراج ہوتا ہے۔
پاکستان میں اگر صحت کی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو جو منظر نامہ سامنے آتا ہے اُس کا ذکر کرتے ہوئے اکنامک سروے آف پاکستان 2014-15 بتاتاہے کہ ملک میں ایک ہزار 73 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر، 12 ہزار 4 سو 47 افراد کے لئے ایک ڈینٹسٹ اور 15 سو 93 افراد کے لئے کسی بھی طبی سہولت میں موجود ایک بستر ہے۔ یہ صورتحال ایک طرف تو ملک میں صحت کی سہولیات میں اضافہ کی طالب ہے تو دوسری جانب صحت کے شعبے پر خرچ کی جانے والی رقم کا تناسب ملکی جی ڈی پی کے حوالے سے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے لیکن میڈیا کی مناسب توجہ شاید اس جانب نہیں ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان دنیا میں بھارت اور انڈونیشیا کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی چار کروڑ افراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ پاکستا ن کے 17 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیںہے۔ اس بنیادی انسانی ضرورت سے محرومی ملک کی صحت اور صفائی پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے یہ موضوع بھی میڈیا کی نظر سے اخفا ء ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 ملک میں لوگوں کی غذائی حیثیت کی یوں منظر کشی کرتا ہے کہ '' پاکستان کی 60 فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکارہے، گزشتہ عشرے میں لوگوں کی غذائیت کی حیثیت(Nutritional Status) میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور ایف اے او کی رپورٹ '' دی اسٹیٹ آف فوڈ ان سکیورٹی ان دی ورلڈ 2015 '' کے مطابق پاکستان کی 22 فیصد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ کیا ہمارے میڈیا نے اس جانب توجہ کی؟
ملک میں خواتین اور مردوںکے درمیان مساویانہ حقوق کی فراہمی کے حوالے سے بھی ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ2014 ء میں پاکستان کو 142 ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ جہاں صحت، تعلیم، معیشت اور سیاست میں صنفی تفاوت کی وسیع خلیج موجود ہے۔
اس کے علاوہ خواتین پر تشدد کی حوصلہ شکنی اور اس کے مضمرات سے معاشرے کو آگاہ کرنے کے لئے میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے لیکن پاکستان ڈیمو گرا فک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 ملک میںخواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق ملک میں 15 سے 49سال کی عمر کی 32.2 فیصدشادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔
جبکہ 38.5 فیصداپنے شوہروں کے ہاتھوںجسمانی یا جذباتی تشدد سہتی ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا یا اُن کی نفسیاتی طور پر تذلیل کرنا شہروںکی نسبت زیادہ ہے۔ پاکستان کے دیہہ میں41.6 اور شہروں میں 32.2 فیصد بیاہی خواتین پُر تشدد واقعات کا سامنا کرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ اَن گنت کیسز سامنے ہی نہیں آتے اور گھروں کی چاردیواری کے اندر ہی دبا دیئے جاتے ہیں۔
چاہے وہ خواتین پر جسمانی تشدد ہو، نفسیاتی یا پھر معاشی خواتین خود بھی اس کے بارے میں کم ہی زبان کھولتی ہیں۔اور ایسا صرف آگہی کی کمی کی وجہ سے ہے جو میڈیا کی پبلک سروس کا ایک بنیادی کام ہے۔
لیکن اس حوالے سے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے اعداد و شمار جو منظر نامہ پیش کررہے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ملک میں15 سے 49 سال کی عمر کی جسمانی تشدد کا شکارشادی شدہ خواتین کا 51.3 فیصد تشدد کے وقت نہ ہی مدد کے لئے کسی کو پکار تی ہیں اور نہ ہی کسی سے اُس کا ذکر کرتی ہیں۔خاموشی کی ان زنجیروں میں سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ کی خواتین جکڑی ہوئی ہیںجہاں جسمانی تشدد کا شکار 66.8 فیصد خواتین اس حوالے سے چپ اختیار کرلیتی ہیں۔
پاکستان کے لئے نوجوانوں کے اثاثہ کی اہمیت بھی دوچند ہے کیونکہ اس وقت دنیامیں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعدادکے حامل ملک کا نام پاکستان ہے۔
اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔Age Group چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے۔
اس کے علاوہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کی مقرر کردہ Age Group کے مطابق دنیا میں 15 ویں نمبرپر ہے اور ملک کی 21.5 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دولتِ مشترکہ کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب 30.7 فیصد ہے اور پاکستان اس تناسب کے حوالے سے دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ کیا میڈیا ہمارے اس قومی اثاثہ کی فلاح و بہبود اور تربیت کو اپنے مندرجات اور ایجنڈے کا حصہ بنا رہا ہے ؟
اسی طرح ورلڈ بنک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2014ء کے مطابق دنیا کے120 ممالک( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) کی معاشی غربت کے حوالے سے مرتب کردہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان46 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں جلد از جلد عملی کو ششوں کا آغاز بڑے پیمانے پر کیا جائے۔ اور یہ کام میڈیا کا ہے کہ وہ اس صورتحال میں استاد، پالیسی ساز اور چوکیدار کا کردار ادا کرے تاکہ انسانی ترقی کی صورتحال کو بہتر کیا جاسکے کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔
جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2015 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 44.2فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 70.6 فیصد آبادی، خیبرپختونخوا کی 50.1 فیصد، سندھ کی 53.2 فیصد,پنجاب کی 36.6 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی46.9 اور اسلام آباد کی 9.2 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔ ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی ضروریات کی کم تر سہولیات کے باعث ہے۔ لیکن میڈیا کے ایجنڈے میں یہ موضوع بھی جگہ نہیں پا رہا۔
غرض ملک میں انسانی ترقی سے وابستہ ایسے بے شمار موضوعات ہیں جن پر ہمارامیڈیا مکمل توجہ نہیں دے رہا۔ وقتی کوریج تو سب موضوعات، مسائل، بیانات اور تقاریب کی ہوتی ہے لیکن ان کے Fallow up پر کام نہیں کیا جاتا۔کیونکہ ہمارے پرائیویٹ میڈیا کی ترجیح زیادہ تر سیاسی موضوعات اور تنازعات سے بھرے چٹخارے دار موضوعات ہیں۔
یہ حقیقت انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ نامی ادارے کی ایک تحقیق میں بتائی گئی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ میڈیا دیکھتا، سناتا اور پڑھاتا وہی کچھ ہے جو لوگ چاہتے ہیں۔ لیکن افراد کی چوائس کون بناتا ہے؟ میڈیا کا کردار اس سے مبرا نہیں۔کیونکہ میڈیا کی کئی ایک تھیوریز اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ میڈیا اپنے ایجنڈے کی مدد سے لوگوں کے ذوق کی نمو کرتا ہے۔
اس تمام بحث کا ہرگز مقصد اس تاثر کو فروغ دینا نہیں کہ ہمارا میڈیا اپنے فرائض صحیح طور پر ادا نہیں کر رہا ۔ بلکہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ پرائیویٹ وسرکاری میڈیا کے مندرجات اور ایجنڈا میں انسانی ترقی اور سماجی بہبود کے موضوعات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی دوسرے موضوعات کو دی جاتی ہے۔ اور حکومت ایسی میڈیا پالیسی مرتب کرے جو میڈیا ( سرکاری اور پرائیویٹ) کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ پبلک براڈ کاسٹنگ کو اپنے مندرجات اور ایجنڈے کا مستقل حصہ بنائیں۔ تاکہ میڈیا کی موجودہ ترقی انسانی ترقی اور بہبود کا بھی باعث بنے۔