تھر سچ تو یہ ہے۔۔۔۔
فراہمی آب سے بچوں کی صحت تک ۔۔۔حقائق کیا ہیں؟
تھر کا نام آتے ہی ہر کسی کے ذہن میں قحط سالی، بنجر زمین، بھوک، افلاس اور موت کا رقص جیسے الفاظ گھومنے لگتے ہیں۔ پاکستان کونسل آف ویمن میڈیا نے جب خاتون صحافیوں کے لیے تین روزہ خصوصی تھرپارکر فیلڈ ٹرپ منعقد کروایا تو سب کے ذہن اسی طرح کے مناظر کے لیے تیار تھے، لیکن تھر پہنچ کر جو مناظر سب نے دیکھے وہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ کھلی سڑکیں، آر او پلانٹ کی صورت میں صاف پانی، گھروں میں سولر پینل کچھ اور ہی داستان بیان کررہے تھے۔
پہلے روز ہمارے قیام کا بندوبست تھرپارکر کے شہر مٹھی میں کیا گیا۔ شام کے وقت ہمیں مٹھی میں واقع گھڈی بھٹ کے مقام پر لے جایا گیا، گھڈی بھٹ کو مٹھی کا کشمیر پوائنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوںکہ وہاں سے پورے شہر کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مقام پر کچھ بچے کھیل رہے تھے جب کہ کچھ سائیکلیں چلارہے تھے۔
ان میں ایک11 سالہ گلبہار بھی تھا، جو چوتھی جماعت میں زیرتعلیم ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہرروز شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اس جگہ آتا ہے۔ ''اسکول میں پڑھتا بھی ہوں اور ابا کے ساتھ دکان پر بھی بیٹھتا ہوں، مجھے ٹی وی دیکھنا بہت پسند ہے۔'' جب گلبہار نے ٹی وی کا نام لیا تو مجھے لگا میں نے شاید کچھ غلط سن لیا ہے۔
اس سے دوبارہ پوچھا تو اس نے کہا آپ ٹی وی نہیں جانتیں باجی ؟ جس پر ڈرامے اور فلمیں آتی ہیں۔ تھوڑا عجیب لگا کہ تھر جیسی جگہ پر ٹی وی بھی موجود ہے جہاں میڈیا ہر وقت چیختا چلاتا رہتا ہے کہ بنیادی سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں یہ دورہ کروانے کا مقصد تھرپارکر کے موجودہ حالات سے آگاہی دینا تھا جس کا مقصد کسی حد تک پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ اسی لیے شاید سیانے کہہ گئے ہیں کہ جب تک خود نہ دیکھ لو کسی بات کو مت مانو۔
تھرپارکر پہنچنے کے دوسرے روز ہمیں تنازعات میں گردش کرنے والے ریورس اوسموسس پلانٹس کا دورہ کروایا گیا، جہاں زونل ایڈمنسٹریٹر میجر سعد نے تھرپارکر میں موجود صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کے لیے نصب کردہ چار شمسی توانائی سے چلنے والے ریورس اوسموس پلانٹس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی کمپنی تھر میں بہترین آلات اور اسٹاف کا استعمال کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو پانی کی وافر مقدار فراہم کر رہی ہے۔
اس موقع پر صحافیوں کو ایشیا کے سب سے بڑے شمسی توانائی سے چلنے والے تھرپارکر میں نصب ریورس اوسموس پلانٹ مٹھی کا دورہ بھی کروایا گیا، جو کہ 3500 سولر پینلز پر 20 اسکڈ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں 10000 پلانٹس موجود ہیں۔ سندھ کول اتھارٹی آراو پلانٹ تھرپارکر روزانہ 2 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تھرپارکر میں 2500 رجسٹرڈ گاؤں ہیں اور اب تک 850 دیہات کو ریورس اوسموس پلانٹس کے ذریعے پانی تک رسائی مل چکی ہے۔ سجانی بھیل پلانٹ 15000 گیلن پانی 5 گاؤں اور گودھیار میں موجود پلانٹ 75000 گیلن روزانہ 6 گاؤں کو پانی فراہم کررہا ہے۔ نمائندہ آر او پلانٹ نے بتایا کہ ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں صاف پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک بچھانے کی اشد ضرورت ہے، اس سسٹم کو وسیع کرنے میں ٹی ایم اے کی بھرپور مدد کی جارہی ہے۔
کراچی سے تھر کی جانب روانگی کے وقت ذہن میں بار بار یہی بات تھی کہ بند آر او پلانٹس کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر بھی چلائیں گے اور اخبار پر بھی شائع کریں گے لیکن وہاں تو صورت حال بلکل مختلف تھی۔
آر او پلانٹس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے سسٹم عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں، مگر دورے کے موقع پر چلتے آر او پلانٹس نے ذہن سے یہ کشمکش دور کردی، لیکن پھر بھی تھر کے باسیوں سے گفتگو کرکے تصدیق کرنا ضروری سمجھا۔ اسلام کوٹ میں واقع گودھیار کا باسی 27 سالہ رمیش نے بتایا کہ ان پلانٹس کی تکمیل سے پہلے ہماری عورتیں دور دراز کے علاقوں کنویں کا پانی بھر کر چار چار مٹکے سر پر اٹھا کر، اونٹوں اور خچروں پر کین لاد کر لایا کرتی تھیں۔
لیکن جب سے یہ پلانٹس لگے ہیں، مفت اور شفاف پانی کی رسائی آسان ہوگئی ہے اور بیماریوں میں بھی کمی آئی ہے۔ رمیش ، کراچی میں کلفٹن کے ایک ہوٹل میں بیرے کی 9000 کی نوکری کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب تھر بنجر صحرا تھا، لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسی سڑکیں میرے تھر کی ہیں ایسی کراچی میں بھی نہیں۔
رمیش کی گفتگو نے ذہن کی تمام کشمکش دور کردی، کیوںکہ آنکھوں دیکھا سچ تو ذہن بھی مانتا ہے اور دل بھی۔ آر او پلانٹ کے نمائندے نے بتایا کہ یہ پلانٹس شمسی توانائی کی بدولت بہ آسانی چلتے ہیں اور صرف تیکنیکی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لیے مختصر مدت کے لیے بند کیے جاتے ہیں، جن علاقوں میں آراو پلانٹس نصب کیے گئے ہیں وہاں صاف پانی کے سبب بیماریوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔
آر او پلانٹس کے بعد دوسرا مرحلہ تھر کے اسپتالوں کا دورہ کرنا تھا، تاکہ آئے دن میڈیا میں آنے والی موت کا رقص والی خبروں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ذہن میں یہی تھا کہ اسپتال میں داخل ہوتے ہی روتے بلکتے بچوں کو موت سے لڑتا دیکھیں گے، لیکن یہاں بھی مناظر ایک الگ داستان پیش کررہے تھے۔ ہم نے اسلام کوٹ کے سرکاری اسپتال کا دورہ کیا جہاں میڈیکل اسٹاف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے اسپتال میں غذائی قلت کے سبب صرف ایک بچے کی موت دسمبر 2015 میں ہوئی۔
اس کے بعد سے وہاں موجود ہینڈز کی ٹیم بچوں کی غذائیت کے پلان پر کام کررہی ہے۔ تھر میں گذشتہ برسوں میں جن بچوں کی اموات اب تک ہوئیں ان میں زیادہ تر بچے پری میچور زچگی کے باعث فوت ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ کم عمری میں کی جانے والی شادیاں، ماؤں کی کم زور صحت اور فیملی پلاننگ کا فقدان تھر میں بچوں کی اموات بڑی وجوہات ہیں۔
میڈیا کی طرف سے آئے دن اٹھانے والے ابتر صحت کے معاملات سراسر بے بنیاد ثابت ہوئے کیوںکہ اصل وجوہات پر میڈیا نے کبھی روشنی ہی نہیں ڈالی۔ تھر کے خاندانوں میں دو سال میں دو دو بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ اس کے لیے انہیں فیملی پلاننگ کی آگاہی دی جاتی ہے، مگر لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ہم نے سنت نیٹورام آشرم کا بھی دورہ کیا اور لوگوں سے آشرم کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آشرم میں رہنے والے 26 سالہ نیریش نے بتایا کہ دو ماہ قبل ہمارے آشرم میں چوری ہوگئی تھی تو ہمارے ساتھ مسلمان بہن بھائیوں نے تین روز تک احتجاج کیا، جب تک چور پکڑے نہیں گئے، آخر کار ہم سب کو رہنا تو ساتھ ہی ہے۔
وہ ہمارے تہوار مناتے ہیں اور ہم ان کے۔ تھرپارکر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی فضا دیکھنے کو ملی لیکن ان سب مثبت پہلوؤں میں تھر میں موجود مسائل بھی آنکھوں کے سامنے رہے، جیسے تعلیم کے شعبے میں تھر میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔
دورے کے تیسرے روز تھرپارکر کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت سمیٹے خوب صورت و مسحور کن مقامات کا دورہ کیا، جن میں نگرپارکر جو کہ بھارتی سرحد سے تقریباً 132 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ، میں موجود تاریخی مسجد بھوڈیسر اور قدیم جین مندر شامل ہیں۔ مسجد بھوڈیسر کے پیش امام نے بتایا کہ اس مسجد پر سونا چڑھا ہوا تھا لیکن اس کا اب کوئی اتاپتا نہیں۔ سندھ کا صحرائی علاقہ تھر کسی دور میں جین دھرم کے لوگوں کا بڑا مسکن ہوا کرتا تھا۔
تھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی سے تقریباً سوا سو کلومیٹر دور موجودہ ویرا واہ شہر اور سابق پاری نگر، بھوڈیسر اور ننگر پارکر شہر میں موجود جین دھرم کے ان مندروں کا شمار اس خطے کے قدیم مندروں میں ہوتا ہے۔
تقریباً چھے سو سال قبل مسیح میں مہاویر نامی شخص نے جین دھرم کی بنیاد رکھی تھی۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ جین ہندو دھرم کی ایک شاخ ہے، تاہم کئی محققین کے مطابق یہ بدھ مذہب کے زیادہ قریب ہے۔ حکومت پاکستان نے جین دھرم کے ان مندروں کو قومی ورثہ قرار دیا ہے، مگر ان مندروں کے باہر نصب ہدایت نامے کے علاوہ ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں کے جین مت کے ماننے والے اپنی مورتیاں لے کر یہاں سے چلے گئے تھے۔
پاکستان میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باوجود تھر کا خطہ ابھی تک پُرامن ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں جب بہتری آتی ہے تو بھارت میں رہنے والے جینی ان مندروں کی زیارت کے لیے آتے ہیں مگر اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات نظر نہیں آتے۔ مندر مساجد کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں، مندر موجود ہیں مگر ان میں سے مورتیاں غائب ہیں، دنیا بھر میں قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ کررہے ہیں۔
عمر کوٹ میں ماروی کا کنواں دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، جو کہ اب ماروی کلچرل کمپلیکس کا حصہ ہے۔ اس کنوئیں کی گہرائی 150 فٹ ہے۔ کمپلیکس کے آفیسر الطاف راجپر نے بتایا کہ یہ کمپلیکس 2013 میں مکمل کرلیا گیا تھا اور عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پورے سال سیاح آتے ہیں، لیکن اگست کے ماہ میں رش زیادہ ہوتا ہے۔
اس کمپلیکس میں عمر ماروی کا مجسمہ اور دیگر اشیاء موجود ہیں، تاکہ لوگوں کو تفریح کے ساتھ معلومات بھی فراہم کرسکیں۔ اس جگہ کے لان میں خوب رونق کا سما تھا ، موسیقار و گلوکار فقیر علی ڈنو، فقیرعبداﷲ ڈھول کی تھاپ اور ہارمونیم پر تھر کی لوک موسیقی کے ذریعے عمر ماروی کی داستان آنے والوں کو سنا رہے تھے۔
ان کی مسحور کن آواز دور دور سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی۔ عمر ماروی کی لازوال داستان بھی تھر کے خطے سے منسوب ہے اور اس کا ذکر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے کلام میں بھی ملتا ہے۔ فقیراﷲ ڈنو نے بتایا کہ وہ کئی بار بڑے شہروں میں بھی پرفارم کرنے گئے ہیں لیکن جو مزہ تھر کی سرزمین پر موسیقی کا ہے وہ کہیں اور نہیں، یہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہوائیں بھی ہمارے سنگ تال ملا رہی ہیں۔
آر او پلانٹس کے ذریعے میٹھے اور صاف پانی کی دست یابی کے بعد تھر میں ہونے والی سبزیوں اور خصوصی طور پر مرچوں کی کاشت نے تو حیران ہی کردیا۔ کراچی سمیت ملک بھر کے بیوپاری تھرپارکر کے علاقے کنری سے مرچی خریدنے کے لیے جمع ہوتے ہیں جہاں کروڑوں روپے کی فصلوں کے سودے کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ تھر میں تیار ہونے والی سڑکیں لاہور اور اسلام آباد کے موٹر وے کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔ خوب صورت اور نئی سڑکوں کی وجہ سے تھرپارکر کے باسیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات دست یاب ہوچکی ہیں۔ تھرپارکر کے ایک باسی مراد نے بتایا کہ پہلے مٹھی میں پلاٹوں کی قیمتیں بڑھ کر 10 سے 12 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہیں۔
پہلے روز ہمارے قیام کا بندوبست تھرپارکر کے شہر مٹھی میں کیا گیا۔ شام کے وقت ہمیں مٹھی میں واقع گھڈی بھٹ کے مقام پر لے جایا گیا، گھڈی بھٹ کو مٹھی کا کشمیر پوائنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوںکہ وہاں سے پورے شہر کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مقام پر کچھ بچے کھیل رہے تھے جب کہ کچھ سائیکلیں چلارہے تھے۔
ان میں ایک11 سالہ گلبہار بھی تھا، جو چوتھی جماعت میں زیرتعلیم ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہرروز شام کو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اس جگہ آتا ہے۔ ''اسکول میں پڑھتا بھی ہوں اور ابا کے ساتھ دکان پر بھی بیٹھتا ہوں، مجھے ٹی وی دیکھنا بہت پسند ہے۔'' جب گلبہار نے ٹی وی کا نام لیا تو مجھے لگا میں نے شاید کچھ غلط سن لیا ہے۔
اس سے دوبارہ پوچھا تو اس نے کہا آپ ٹی وی نہیں جانتیں باجی ؟ جس پر ڈرامے اور فلمیں آتی ہیں۔ تھوڑا عجیب لگا کہ تھر جیسی جگہ پر ٹی وی بھی موجود ہے جہاں میڈیا ہر وقت چیختا چلاتا رہتا ہے کہ بنیادی سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں یہ دورہ کروانے کا مقصد تھرپارکر کے موجودہ حالات سے آگاہی دینا تھا جس کا مقصد کسی حد تک پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ اسی لیے شاید سیانے کہہ گئے ہیں کہ جب تک خود نہ دیکھ لو کسی بات کو مت مانو۔
تھرپارکر پہنچنے کے دوسرے روز ہمیں تنازعات میں گردش کرنے والے ریورس اوسموسس پلانٹس کا دورہ کروایا گیا، جہاں زونل ایڈمنسٹریٹر میجر سعد نے تھرپارکر میں موجود صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کے لیے نصب کردہ چار شمسی توانائی سے چلنے والے ریورس اوسموس پلانٹس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی کمپنی تھر میں بہترین آلات اور اسٹاف کا استعمال کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو پانی کی وافر مقدار فراہم کر رہی ہے۔
اس موقع پر صحافیوں کو ایشیا کے سب سے بڑے شمسی توانائی سے چلنے والے تھرپارکر میں نصب ریورس اوسموس پلانٹ مٹھی کا دورہ بھی کروایا گیا، جو کہ 3500 سولر پینلز پر 20 اسکڈ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں 10000 پلانٹس موجود ہیں۔ سندھ کول اتھارٹی آراو پلانٹ تھرپارکر روزانہ 2 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تھرپارکر میں 2500 رجسٹرڈ گاؤں ہیں اور اب تک 850 دیہات کو ریورس اوسموس پلانٹس کے ذریعے پانی تک رسائی مل چکی ہے۔ سجانی بھیل پلانٹ 15000 گیلن پانی 5 گاؤں اور گودھیار میں موجود پلانٹ 75000 گیلن روزانہ 6 گاؤں کو پانی فراہم کررہا ہے۔ نمائندہ آر او پلانٹ نے بتایا کہ ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں صاف پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک بچھانے کی اشد ضرورت ہے، اس سسٹم کو وسیع کرنے میں ٹی ایم اے کی بھرپور مدد کی جارہی ہے۔
کراچی سے تھر کی جانب روانگی کے وقت ذہن میں بار بار یہی بات تھی کہ بند آر او پلانٹس کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر بھی چلائیں گے اور اخبار پر بھی شائع کریں گے لیکن وہاں تو صورت حال بلکل مختلف تھی۔
آر او پلانٹس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے سسٹم عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں، مگر دورے کے موقع پر چلتے آر او پلانٹس نے ذہن سے یہ کشمکش دور کردی، لیکن پھر بھی تھر کے باسیوں سے گفتگو کرکے تصدیق کرنا ضروری سمجھا۔ اسلام کوٹ میں واقع گودھیار کا باسی 27 سالہ رمیش نے بتایا کہ ان پلانٹس کی تکمیل سے پہلے ہماری عورتیں دور دراز کے علاقوں کنویں کا پانی بھر کر چار چار مٹکے سر پر اٹھا کر، اونٹوں اور خچروں پر کین لاد کر لایا کرتی تھیں۔
لیکن جب سے یہ پلانٹس لگے ہیں، مفت اور شفاف پانی کی رسائی آسان ہوگئی ہے اور بیماریوں میں بھی کمی آئی ہے۔ رمیش ، کراچی میں کلفٹن کے ایک ہوٹل میں بیرے کی 9000 کی نوکری کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب تھر بنجر صحرا تھا، لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسی سڑکیں میرے تھر کی ہیں ایسی کراچی میں بھی نہیں۔
رمیش کی گفتگو نے ذہن کی تمام کشمکش دور کردی، کیوںکہ آنکھوں دیکھا سچ تو ذہن بھی مانتا ہے اور دل بھی۔ آر او پلانٹ کے نمائندے نے بتایا کہ یہ پلانٹس شمسی توانائی کی بدولت بہ آسانی چلتے ہیں اور صرف تیکنیکی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لیے مختصر مدت کے لیے بند کیے جاتے ہیں، جن علاقوں میں آراو پلانٹس نصب کیے گئے ہیں وہاں صاف پانی کے سبب بیماریوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔
آر او پلانٹس کے بعد دوسرا مرحلہ تھر کے اسپتالوں کا دورہ کرنا تھا، تاکہ آئے دن میڈیا میں آنے والی موت کا رقص والی خبروں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ذہن میں یہی تھا کہ اسپتال میں داخل ہوتے ہی روتے بلکتے بچوں کو موت سے لڑتا دیکھیں گے، لیکن یہاں بھی مناظر ایک الگ داستان پیش کررہے تھے۔ ہم نے اسلام کوٹ کے سرکاری اسپتال کا دورہ کیا جہاں میڈیکل اسٹاف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے اسپتال میں غذائی قلت کے سبب صرف ایک بچے کی موت دسمبر 2015 میں ہوئی۔
اس کے بعد سے وہاں موجود ہینڈز کی ٹیم بچوں کی غذائیت کے پلان پر کام کررہی ہے۔ تھر میں گذشتہ برسوں میں جن بچوں کی اموات اب تک ہوئیں ان میں زیادہ تر بچے پری میچور زچگی کے باعث فوت ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ کم عمری میں کی جانے والی شادیاں، ماؤں کی کم زور صحت اور فیملی پلاننگ کا فقدان تھر میں بچوں کی اموات بڑی وجوہات ہیں۔
میڈیا کی طرف سے آئے دن اٹھانے والے ابتر صحت کے معاملات سراسر بے بنیاد ثابت ہوئے کیوںکہ اصل وجوہات پر میڈیا نے کبھی روشنی ہی نہیں ڈالی۔ تھر کے خاندانوں میں دو سال میں دو دو بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ اس کے لیے انہیں فیملی پلاننگ کی آگاہی دی جاتی ہے، مگر لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ہم نے سنت نیٹورام آشرم کا بھی دورہ کیا اور لوگوں سے آشرم کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آشرم میں رہنے والے 26 سالہ نیریش نے بتایا کہ دو ماہ قبل ہمارے آشرم میں چوری ہوگئی تھی تو ہمارے ساتھ مسلمان بہن بھائیوں نے تین روز تک احتجاج کیا، جب تک چور پکڑے نہیں گئے، آخر کار ہم سب کو رہنا تو ساتھ ہی ہے۔
وہ ہمارے تہوار مناتے ہیں اور ہم ان کے۔ تھرپارکر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی فضا دیکھنے کو ملی لیکن ان سب مثبت پہلوؤں میں تھر میں موجود مسائل بھی آنکھوں کے سامنے رہے، جیسے تعلیم کے شعبے میں تھر میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔
دورے کے تیسرے روز تھرپارکر کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت سمیٹے خوب صورت و مسحور کن مقامات کا دورہ کیا، جن میں نگرپارکر جو کہ بھارتی سرحد سے تقریباً 132 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ، میں موجود تاریخی مسجد بھوڈیسر اور قدیم جین مندر شامل ہیں۔ مسجد بھوڈیسر کے پیش امام نے بتایا کہ اس مسجد پر سونا چڑھا ہوا تھا لیکن اس کا اب کوئی اتاپتا نہیں۔ سندھ کا صحرائی علاقہ تھر کسی دور میں جین دھرم کے لوگوں کا بڑا مسکن ہوا کرتا تھا۔
تھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی سے تقریباً سوا سو کلومیٹر دور موجودہ ویرا واہ شہر اور سابق پاری نگر، بھوڈیسر اور ننگر پارکر شہر میں موجود جین دھرم کے ان مندروں کا شمار اس خطے کے قدیم مندروں میں ہوتا ہے۔
تقریباً چھے سو سال قبل مسیح میں مہاویر نامی شخص نے جین دھرم کی بنیاد رکھی تھی۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ جین ہندو دھرم کی ایک شاخ ہے، تاہم کئی محققین کے مطابق یہ بدھ مذہب کے زیادہ قریب ہے۔ حکومت پاکستان نے جین دھرم کے ان مندروں کو قومی ورثہ قرار دیا ہے، مگر ان مندروں کے باہر نصب ہدایت نامے کے علاوہ ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں کے جین مت کے ماننے والے اپنی مورتیاں لے کر یہاں سے چلے گئے تھے۔
پاکستان میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باوجود تھر کا خطہ ابھی تک پُرامن ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں جب بہتری آتی ہے تو بھارت میں رہنے والے جینی ان مندروں کی زیارت کے لیے آتے ہیں مگر اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات نظر نہیں آتے۔ مندر مساجد کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں، مندر موجود ہیں مگر ان میں سے مورتیاں غائب ہیں، دنیا بھر میں قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ کررہے ہیں۔
عمر کوٹ میں ماروی کا کنواں دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، جو کہ اب ماروی کلچرل کمپلیکس کا حصہ ہے۔ اس کنوئیں کی گہرائی 150 فٹ ہے۔ کمپلیکس کے آفیسر الطاف راجپر نے بتایا کہ یہ کمپلیکس 2013 میں مکمل کرلیا گیا تھا اور عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پورے سال سیاح آتے ہیں، لیکن اگست کے ماہ میں رش زیادہ ہوتا ہے۔
اس کمپلیکس میں عمر ماروی کا مجسمہ اور دیگر اشیاء موجود ہیں، تاکہ لوگوں کو تفریح کے ساتھ معلومات بھی فراہم کرسکیں۔ اس جگہ کے لان میں خوب رونق کا سما تھا ، موسیقار و گلوکار فقیر علی ڈنو، فقیرعبداﷲ ڈھول کی تھاپ اور ہارمونیم پر تھر کی لوک موسیقی کے ذریعے عمر ماروی کی داستان آنے والوں کو سنا رہے تھے۔
ان کی مسحور کن آواز دور دور سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کررہی تھی۔ عمر ماروی کی لازوال داستان بھی تھر کے خطے سے منسوب ہے اور اس کا ذکر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے کلام میں بھی ملتا ہے۔ فقیراﷲ ڈنو نے بتایا کہ وہ کئی بار بڑے شہروں میں بھی پرفارم کرنے گئے ہیں لیکن جو مزہ تھر کی سرزمین پر موسیقی کا ہے وہ کہیں اور نہیں، یہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہوائیں بھی ہمارے سنگ تال ملا رہی ہیں۔
آر او پلانٹس کے ذریعے میٹھے اور صاف پانی کی دست یابی کے بعد تھر میں ہونے والی سبزیوں اور خصوصی طور پر مرچوں کی کاشت نے تو حیران ہی کردیا۔ کراچی سمیت ملک بھر کے بیوپاری تھرپارکر کے علاقے کنری سے مرچی خریدنے کے لیے جمع ہوتے ہیں جہاں کروڑوں روپے کی فصلوں کے سودے کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ تھر میں تیار ہونے والی سڑکیں لاہور اور اسلام آباد کے موٹر وے کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔ خوب صورت اور نئی سڑکوں کی وجہ سے تھرپارکر کے باسیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات دست یاب ہوچکی ہیں۔ تھرپارکر کے ایک باسی مراد نے بتایا کہ پہلے مٹھی میں پلاٹوں کی قیمتیں بڑھ کر 10 سے 12 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہیں۔