شام کے بحران پر عالمی طاقتوں کا ناکام اجلاس

شام کے مسئلے پر جنیوا میں امن مذاکرات دوبارہ سے شروع کیے جائیں گے جو 25 فروری سے شروع ہوں گے


Editorial February 14, 2016
شام کے مسئلے پر امریکا اور روس میں اختلافات موجود ہیں اور دونوں کی پالیسی کی سمت ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور ہجرتوں کے بعد عالمی طاقتوں نے شام کے بحران کو حل کرانے کے لیے باہمی صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔ اس حوالے سے جرمنی کے شہر میونخ میں دنیا کے سترہ اہم ممالک کا اجلاس ہوا جس کی صدارت امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کی اور بعد ازاں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ہمراہ مشترکہ پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے جان کیری کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں نے شام میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے تاہم جنگ بندی کا اطلاق داعش اور النصرہ فرنٹ کے لیے نہیں ہوگا۔

جان کیری کے اس بیان سے اس امر کی تصدیق ہو گئی ہے کہ شام کا بحران پیدا ہی ان عالمی طاقتوں نے کیا تھا ورنہ چند سال پہلے تک شام دنیا کا ایک پر امن ملک تھا۔ جب اپنے ملک سے جان بچانے کے لیے بھاگنے والے خاندانوںکی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے کی تصویری خبریں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلنے لگیں تو بڑی طاقتوں کے ضمیر کو بھی کچوکا لگا۔ میونخ میں ہونے والا اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شام میں ہونے والی پر تشدد کارروائیوں کو بند کر کے شام کے متاثرہ علاقوں میں بھوک سے ہونے والی ہلاکتیں بچانے کے لیے وہاں امدادی سامان پہنچایا جانا چاہیے۔

تاہم جان کیری کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام میں جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت ابھی صرف تحریری طور پر موجود ہے، اصل امتحان تو اس وقت شروع ہو گا جب تمام فریقین اس پر عمل درآمد کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شام میں انسانی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے جسے روکنے کے لیے فوری طور پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ شام کے مسئلے پر جنیوا میں امن مذاکرات دوبارہ سے شروع کیے جائیں گے جو 25 فروری سے شروع ہوں گے۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ کا کہنا تھا کہ اگر روس پیش قدمی کرتی ہوئی شامی فورسز کی مدد میں کیے جانے والے فضائی حملے روک دے تو اسی صورت میں لڑائی کو بھی روکا جا سکتا ہے۔

ادھر امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان بریننن نے دعوی کیا کہ داعش کیمیائی ہتھیار نہ صرف حاصل کر چکا ہے بلکہ ان کا استعمال بھی کیا گیا ہے جب کہ فرانس کے وزیر اعظم مانوئیل والس کا کہنا تھا کہ داعش کو صرف زمینی آپریشن کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے لیکن روسی وزیر اعظم دمتری مدیدیف نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی ملک نے شام میں زمینی فوج بھیجی تو عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

شام کے مسئلے پر امریکا اور روس میں اختلافات موجود ہیں اور دونوں کی پالیسی کی سمت ایک دوسرے سے متضاد ہے بالخصوص بشار الاسد کے بارے میں ان کی پالیسی یکسر مختلف ہے ایسی صورت میں شام سپورٹ گروپ کے ممالک کی کوششوں میں کامیابی کا امکان معدوم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔