معروف موسیقار روبن گھوش کا انتقال
روبن گھوش نے فلم چکوری کی موسیقی ترتیب دینے کے بعد ملک گیر شہرت حاصل کی
پاکستانی فلم انڈسٹری کے اپنے دور کے نامور موسیقار روبن گھوش طویل علالت کے بعد گزشتہ روز ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 76 برس تھی۔ وہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں پاکستانی فلموں کے مقبول ترین موسیقار تھے۔ انھوں نے متحدہ پاکستان میں 1962ء میں فلم چندا کی موسیقی دے کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ آنجہانی روبن گھوش نے پاکستانی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ شبنم کے ساتھ شادی کی۔ یہ جوڑی فلمی دنیا کی کامیاب جوڑیوں میں شامل تھی۔
روبن گھوش نے فلم چکوری کی موسیقی ترتیب دینے کے بعد ملک گیر شہرت حاصل کی۔ اس وقت ماسٹر غلام حیدر، فیروز نظامی، خورشید انور، رشید عطرے، بابا چشتی جیسی شخصیات آسمان موسیقی پر چھائی ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلم 'تلاش' میں سب کو پیچھے چھوڑ کر سال کے بہترین موسیقار کا ایوارڈ حاصل کر لیا۔ روبن گھوش کی موسیقی میں ایک خاص قسم کی ندرت اور جدت تھی موسیقی کا ٹیمپو اور ردھم ایک نرالی شوخی لیے ہوتا، جو فوراً اپنی شناخت کروا دیتا کہ اسے روبن گھوش نے تخلیق کیا ہے۔
اس کی ایک مثال اخلاق احمد کا گایا ہوا نغمہ 'سونا نہ چاندی نہ کوئی محل' ہے۔ اس کے بول قافیہ ردیف کے استعمال سے مبرا، آزاد نظم نما ہیں، اور بظاہر اسے کمپوز کرنا مشکل کام نظر آتا ہے، لیکن روبن گھوش نے فنکارانہ چابکدستی سے ان بولوں کو میلوڈی بنا دیا۔ روبن گھوش کے کیریئر کی معراج 1977ء کی فلم 'آئینہ' ہے۔
اس فلم کے یہ گانے موسیقی کے ہر شائق کے لبوں پر ہیں: 'کبھی میں سوچتا ہوں،' (مہدی حسن)، 'مجھے دل سے نہ بھلانا،' (مہدی حسن، مہناز)، 'روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا' (نیرہ نور)، 'وعدہ کرو ساجنا' (عالمگیر، مہناز)، 'حسین وادیوں سے پوچھو' (مہناز، اخلاق احمد)۔ روبن گھوش کے کچھ اور مقبول گیت آج بھی ریڈیو پر گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔
ان میں 'کبھی تو تم کو یاد آئیں گے' (احمد رشدی)، 'مجھے تلاش تھی جس کی' (احمد رشدی)، 'ساون آئے ساون جائے' (اخلاق احمد)، 'دیکھو یہ کون آ گیا،' (اخلاق احمد) اور 'اچھا اچھا لاگے رے' (نیرہ نور) وغیرہ شامل ہیں۔ رابن گھوش اگرچہ بنگالی تھے لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کئی برس تک روبن گھوش اور شبنم پاکستان میں رہے۔ بعد ازاں میاں بیوی نے اپنے آبائی وطن منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا تاہم اپنے وطن میں ان کی ویسی پذیرائی نہ ہوئی ۔ ان کی شناخت آج بھی پاکستانی فلم انڈسڑی ہی ہے۔
روبن گھوش نے فلم چکوری کی موسیقی ترتیب دینے کے بعد ملک گیر شہرت حاصل کی۔ اس وقت ماسٹر غلام حیدر، فیروز نظامی، خورشید انور، رشید عطرے، بابا چشتی جیسی شخصیات آسمان موسیقی پر چھائی ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلم 'تلاش' میں سب کو پیچھے چھوڑ کر سال کے بہترین موسیقار کا ایوارڈ حاصل کر لیا۔ روبن گھوش کی موسیقی میں ایک خاص قسم کی ندرت اور جدت تھی موسیقی کا ٹیمپو اور ردھم ایک نرالی شوخی لیے ہوتا، جو فوراً اپنی شناخت کروا دیتا کہ اسے روبن گھوش نے تخلیق کیا ہے۔
اس کی ایک مثال اخلاق احمد کا گایا ہوا نغمہ 'سونا نہ چاندی نہ کوئی محل' ہے۔ اس کے بول قافیہ ردیف کے استعمال سے مبرا، آزاد نظم نما ہیں، اور بظاہر اسے کمپوز کرنا مشکل کام نظر آتا ہے، لیکن روبن گھوش نے فنکارانہ چابکدستی سے ان بولوں کو میلوڈی بنا دیا۔ روبن گھوش کے کیریئر کی معراج 1977ء کی فلم 'آئینہ' ہے۔
اس فلم کے یہ گانے موسیقی کے ہر شائق کے لبوں پر ہیں: 'کبھی میں سوچتا ہوں،' (مہدی حسن)، 'مجھے دل سے نہ بھلانا،' (مہدی حسن، مہناز)، 'روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا' (نیرہ نور)، 'وعدہ کرو ساجنا' (عالمگیر، مہناز)، 'حسین وادیوں سے پوچھو' (مہناز، اخلاق احمد)۔ روبن گھوش کے کچھ اور مقبول گیت آج بھی ریڈیو پر گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔
ان میں 'کبھی تو تم کو یاد آئیں گے' (احمد رشدی)، 'مجھے تلاش تھی جس کی' (احمد رشدی)، 'ساون آئے ساون جائے' (اخلاق احمد)، 'دیکھو یہ کون آ گیا،' (اخلاق احمد) اور 'اچھا اچھا لاگے رے' (نیرہ نور) وغیرہ شامل ہیں۔ رابن گھوش اگرچہ بنگالی تھے لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کئی برس تک روبن گھوش اور شبنم پاکستان میں رہے۔ بعد ازاں میاں بیوی نے اپنے آبائی وطن منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا تاہم اپنے وطن میں ان کی ویسی پذیرائی نہ ہوئی ۔ ان کی شناخت آج بھی پاکستانی فلم انڈسڑی ہی ہے۔