امتِ مسلمہ کی مظلومیت اور مسٹر ویلنٹائن
آج چودہ فروری ہے، موبائل فون پر بے شمار پیغامات وصول ہو رہے ہیں
ISLAMABAD:
آج چودہ فروری ہے، موبائل فون پر بے شمار پیغامات وصول ہو رہے ہیں، تحائف اور ہوٹلوں میں بکنگ کے حوالے سے اہل دل کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، دکانیں دلفریب و دیدہ زیب چیزوں سے لد گئی ہیں، کارڈ بھی زینت میں اضافے کا باعث ہیں اور گاہکوں کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال بھی ویلنٹائن ڈے دھوم دھام سے منایا جائے گا، گزشتہ اور پیوستہ سال کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اس نکتے پر کوئی غور نہیں کرتا ہے کہ ہماری عمر کا خزانہ تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے، جس کا ہمیں اندازہ نہیں، ہم تو سرپٹ گھوڑے کی باگیں تھامیں گزرتے صبح و شام کی طرح دوڑتے چلے جا رہے ہیں، بنا سوچے سمجھے اس خس و خاشاک جیسی دنیا کی لذتیں اور رونقیں لوٹنے میں مگن ہیں، خرد افروزیوں کا دور دور پتہ نہیں، علم و آگہی کے چراغوں کی روشنی مدھم ہوگئی ہے، اندھیرا بڑھ رہا ہے، آنکھوں کے سامنے آنے والے ملگجے اندھیرے کو دیکھ کر بھی عقل سلیم سے بغل گیر ہونے کا ارادہ نہیں ہے۔
پھر یہ نادانی نہیں تو اور کیا ہے، ایک طرف ہمارے بچوں کو، قوم کے معماروں کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے، آرمی اسکول پشاور کا سانحہ، باچاخان یونیورسٹی میں کربلا کا منظر، یاد نہیں ہے کیا؟ کیا وہ مصنوعی آنسو تھے یا دکھاوے کا غم تھا، دشمن کی چال کو بھلا کر ایک بار پھر قوم کے سپوت مغرب کے اس جال کی طرف دوڑ رہے ہیں جو اس نے ہم سب کے لیے بچھایا تھا، یہ تو حال ہی کے دردناک واقعات ہیں۔ ورنہ تو ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا رہا ہے، صلیبی جنگوں اور گذشتہ و موجودہ صدی میں بھی عیسائیوں کا سلوک نفرت اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں سے جارحانہ رہا ہے۔
گزرے برسوں میں بوسنیا کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تھی، ہزاروں مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔ نسل کشی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ عراق، افغانستان، شام میں بھی دشمن قوت نے طاقت کی بنا پر ستم پر ستم ڈھائے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری مسلمانوں کے لیے شکاریوں کی جماعت تشکیل دیتے ہیں اور آپس میں ہی لڑانے کے نت نئے طریقوں کی ایجاد بھی ان کا ہی شغل ہے۔ القاعدہ کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دشمن بنایا گیا اور جب القاعدہ شکست خوردہ جماعت بن کر رہ گئی ہے تو امریکا نے ایک نئی چال چلی اور داعش جیسی جماعت کو بناکر میدان میں اتار دیا۔ جو مسلمانوں کے سر قلم کرنے اور انھیں ان کے ہی خون میں نہلانے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔
اب یہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے کہ تمام علمائے دین مذہب اسلام کی ترویج کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، دنیا بھر کے اسلامی ممالک اپنے آنیوالے ''کل'' سے بے خبر رہے اور ہیں، اسی وجہ سے ہمارا دشمن درندے کی طرح منہ کھولے آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، وہ مسلمانوں کو کسی قیمت میں پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے اسلامی دنیا کے حکمران محض اپنے فائدے اور تعیش زندگی کے لیے اقدام کرتے ہیں، گویا انھوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے۔
وہ یہ حدیث بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ مسلمان کے جسم کے اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو اس کا احساس دوسرے مسلمان کو ہوگا، اگر وہ سچا مسلمان ہے تو۔ لیکن حالات برعکس ہیں، پوری دنیا کے مسلمان مدد اکے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کو آواز دے رہے ہیں، لیکن ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں، اگر اتحاد پارہ پارہ نہ ہوتا تو سعودی عرب میں خودکش حملے ہرگز نہ ہوتے۔
امریکا کی دشمن مخالف پالیسیاں سب کے سامنے ہیں، اس کے مذموم مقاصد کی تکمیل نے امت مسلمہ کے رہنے کے لیے زمین تنگ کردی ہے اور مزید تیاریاں جاری ہیں، امریکا نے ''داعش'' کی جماعت تیار کرکے ایک نئی چال چلی ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کی تنظیم بنائی جو یورپ اور امریکا کے مظالم سے دل برداشتہ تھے اور وہ بے روزگار بھی تھے، گویا کوئی خاص کام کرنے کو نہ تھا، جب کہ ضروریات زندگی کے لیے سہولتیں موجود تھیں لہٰذا اسی قسم کے لوگوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔
داعش کی جماعت کا ایک نوجوان جس نے اپنے گھر والوں سے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پاس کام کرنے کو کچھ نہ تھا۔ لیکن جماعت میں شامل ہونے کے بعد وہ کام کر رہا ہے، اور وہ کام اسلام کے خلاف ہے۔ لیکن امریکا اور مغرب کے مفاد میں ہے۔ مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی تھوڑی بہت اور بچی کچھی طاقت کو کمزور کرنا ہے، مسلمانوں کو اذیت پہنچانا اور امریکا دشمن طاقتوں کو سزا دینا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا داعش کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی نئی سرحد بندی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، حزب اللہ کو کمزور اور روس کا اثر ختم کرنے کا بھی متمنی ہے۔صراط مستقیم سے بھٹکنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے، ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم'' محض ڈالروں کے حصول کے لیے اپنوں کا گلا بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ کوئی تو ہوتا مسلم و متکلم جو انھیں درس دیتا، پاکستان سے دینی جماعتیں تبلیغ کے لیے دور دراز ملکوں کا سفر کرتی ہیں تو کیا وہ حق کی آواز پہنچانے میں ناکام رہی ہیں، حکومت تو ہے ہی ناکام، ملک کے کسی بھی ادارے میں انسانیت پھلتی پھولتی نظر نہیں آتی ہے۔
اسی وجہ سے آج حوروں کی تلاش اور ان سے شوق ملاقات کے لیے ننھے بچوں اور نوجوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، اگر ان کے والدین کو تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ ہوتی اور جنت کے خواب دکھانے والوں میں ذرہ برابر دینی شعور ہوتا تو وہ دشمن کے آلہ کار نہ بنتے اور نہ بے قصور بمبار موت کی وادی میں اتر کے اور ہزاروں لوگوں کے گھروں میں قیامت کا منظر نظر نہ آتا۔ ویلنٹائن ڈے منانیوالے ذرا غور کریں کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جنھوں نے ننھے بچوں تک پر رحم نہیں کھایا ہے۔
لاکھوں بچے دربدر ہیں۔ مسلم ممالک پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس سے کوئی بھی اہل نظر غافل نہیں ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کو کمزور کیا گیا ہے، عراق کو منصوبہ بندی کے تحت تقسیم کردیا گیا ہے، شام خون آشام ہوچکا ہے، ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمان شہید ہوگئے ہیں اور 40 لاکھ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ حالات مزید خراب ہوں گے اور عالمی جنگ کا ہونا یقینی اور ناگزیر نظر آرہا ہے۔
ہمارا ملک پاکستان اور اس کے حکمران صاحب اقتدار اور اس میں بسنے والے حالات سے بے خبر ہیں شاید، اور جنھیں خبر ہے وہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور مثبت کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ تیسری عالمی جنگ کے آثار نظر آنے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو تبدیل کیا جائے اور میڈیا کی اس آزادی کو ختم کیا جائے جس کے تحت وہ فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہے۔چند دن پہلے مجھے کئی ای میل موصول ہوئیں، ان ہی میں ثناء کی بھی میل شامل تھی۔
جس نے خصوصی توجہ مبذول کرائی تھی کہ اس شخص اور اس دن کے بارے میں ضرور لکھوں، جس کا نام ویلنٹائن ہے اور اس عیسائی راہب کے نام سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتاہے، تمام مسلمان بچے، بچیاں، نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جیسے یہ کارِخیر ہو۔ تحفے، تحائف، پھولوں کے گلدستوں، پرفیوم اور کارڈز کی تقسیم ایک دن پہلے ہی سے شروع ہوجاتی ہے اور مذکورہ دن کے تو کیا کہنے۔ ویلنٹائن ڈے منانیوالے پارکوں اور باغات کو رونق بخشتے ہیں۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے نازک موقع پر پولیس کو اپنا فرض یاد آجاتا ہے اور فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان کی جیب گرم ہوجاتی ہے اور ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ اور جب کسی ایک لڑکی کی عزت کو سر راہ اچھالا جائے تو اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔
اس نکتے پر غور اور فحاشی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ حکمران بھی تو مسلم ہیں کیا وہ اس بات کو پسند کریں گے بذریعہ چینل ان کے اپنے بچے بے حیائی کے مناظر کو دیکھیں اور ویلنٹائن ڈے کو منائیں؟ اگر خوشیوں کو کشید کرنا ہے تو ہماری تاریخ بھی بڑے لوگوں کے کارناموں سے جگمگا رہی ہے۔
آج چودہ فروری ہے، موبائل فون پر بے شمار پیغامات وصول ہو رہے ہیں، تحائف اور ہوٹلوں میں بکنگ کے حوالے سے اہل دل کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، دکانیں دلفریب و دیدہ زیب چیزوں سے لد گئی ہیں، کارڈ بھی زینت میں اضافے کا باعث ہیں اور گاہکوں کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال بھی ویلنٹائن ڈے دھوم دھام سے منایا جائے گا، گزشتہ اور پیوستہ سال کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اس نکتے پر کوئی غور نہیں کرتا ہے کہ ہماری عمر کا خزانہ تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے، جس کا ہمیں اندازہ نہیں، ہم تو سرپٹ گھوڑے کی باگیں تھامیں گزرتے صبح و شام کی طرح دوڑتے چلے جا رہے ہیں، بنا سوچے سمجھے اس خس و خاشاک جیسی دنیا کی لذتیں اور رونقیں لوٹنے میں مگن ہیں، خرد افروزیوں کا دور دور پتہ نہیں، علم و آگہی کے چراغوں کی روشنی مدھم ہوگئی ہے، اندھیرا بڑھ رہا ہے، آنکھوں کے سامنے آنے والے ملگجے اندھیرے کو دیکھ کر بھی عقل سلیم سے بغل گیر ہونے کا ارادہ نہیں ہے۔
پھر یہ نادانی نہیں تو اور کیا ہے، ایک طرف ہمارے بچوں کو، قوم کے معماروں کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے، آرمی اسکول پشاور کا سانحہ، باچاخان یونیورسٹی میں کربلا کا منظر، یاد نہیں ہے کیا؟ کیا وہ مصنوعی آنسو تھے یا دکھاوے کا غم تھا، دشمن کی چال کو بھلا کر ایک بار پھر قوم کے سپوت مغرب کے اس جال کی طرف دوڑ رہے ہیں جو اس نے ہم سب کے لیے بچھایا تھا، یہ تو حال ہی کے دردناک واقعات ہیں۔ ورنہ تو ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا رہا ہے، صلیبی جنگوں اور گذشتہ و موجودہ صدی میں بھی عیسائیوں کا سلوک نفرت اور تعصب کی بنا پر مسلمانوں سے جارحانہ رہا ہے۔
گزرے برسوں میں بوسنیا کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تھی، ہزاروں مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔ نسل کشی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ عراق، افغانستان، شام میں بھی دشمن قوت نے طاقت کی بنا پر ستم پر ستم ڈھائے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری مسلمانوں کے لیے شکاریوں کی جماعت تشکیل دیتے ہیں اور آپس میں ہی لڑانے کے نت نئے طریقوں کی ایجاد بھی ان کا ہی شغل ہے۔ القاعدہ کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دشمن بنایا گیا اور جب القاعدہ شکست خوردہ جماعت بن کر رہ گئی ہے تو امریکا نے ایک نئی چال چلی اور داعش جیسی جماعت کو بناکر میدان میں اتار دیا۔ جو مسلمانوں کے سر قلم کرنے اور انھیں ان کے ہی خون میں نہلانے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔
اب یہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے کہ تمام علمائے دین مذہب اسلام کی ترویج کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، دنیا بھر کے اسلامی ممالک اپنے آنیوالے ''کل'' سے بے خبر رہے اور ہیں، اسی وجہ سے ہمارا دشمن درندے کی طرح منہ کھولے آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، وہ مسلمانوں کو کسی قیمت میں پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے اسلامی دنیا کے حکمران محض اپنے فائدے اور تعیش زندگی کے لیے اقدام کرتے ہیں، گویا انھوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے۔
وہ یہ حدیث بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ مسلمان کے جسم کے اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو اس کا احساس دوسرے مسلمان کو ہوگا، اگر وہ سچا مسلمان ہے تو۔ لیکن حالات برعکس ہیں، پوری دنیا کے مسلمان مدد اکے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کو آواز دے رہے ہیں، لیکن ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں، اگر اتحاد پارہ پارہ نہ ہوتا تو سعودی عرب میں خودکش حملے ہرگز نہ ہوتے۔
امریکا کی دشمن مخالف پالیسیاں سب کے سامنے ہیں، اس کے مذموم مقاصد کی تکمیل نے امت مسلمہ کے رہنے کے لیے زمین تنگ کردی ہے اور مزید تیاریاں جاری ہیں، امریکا نے ''داعش'' کی جماعت تیار کرکے ایک نئی چال چلی ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کی تنظیم بنائی جو یورپ اور امریکا کے مظالم سے دل برداشتہ تھے اور وہ بے روزگار بھی تھے، گویا کوئی خاص کام کرنے کو نہ تھا، جب کہ ضروریات زندگی کے لیے سہولتیں موجود تھیں لہٰذا اسی قسم کے لوگوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔
داعش کی جماعت کا ایک نوجوان جس نے اپنے گھر والوں سے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پاس کام کرنے کو کچھ نہ تھا۔ لیکن جماعت میں شامل ہونے کے بعد وہ کام کر رہا ہے، اور وہ کام اسلام کے خلاف ہے۔ لیکن امریکا اور مغرب کے مفاد میں ہے۔ مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی تھوڑی بہت اور بچی کچھی طاقت کو کمزور کرنا ہے، مسلمانوں کو اذیت پہنچانا اور امریکا دشمن طاقتوں کو سزا دینا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا داعش کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی نئی سرحد بندی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، حزب اللہ کو کمزور اور روس کا اثر ختم کرنے کا بھی متمنی ہے۔صراط مستقیم سے بھٹکنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے، ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم'' محض ڈالروں کے حصول کے لیے اپنوں کا گلا بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ کوئی تو ہوتا مسلم و متکلم جو انھیں درس دیتا، پاکستان سے دینی جماعتیں تبلیغ کے لیے دور دراز ملکوں کا سفر کرتی ہیں تو کیا وہ حق کی آواز پہنچانے میں ناکام رہی ہیں، حکومت تو ہے ہی ناکام، ملک کے کسی بھی ادارے میں انسانیت پھلتی پھولتی نظر نہیں آتی ہے۔
اسی وجہ سے آج حوروں کی تلاش اور ان سے شوق ملاقات کے لیے ننھے بچوں اور نوجوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، اگر ان کے والدین کو تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ ہوتی اور جنت کے خواب دکھانے والوں میں ذرہ برابر دینی شعور ہوتا تو وہ دشمن کے آلہ کار نہ بنتے اور نہ بے قصور بمبار موت کی وادی میں اتر کے اور ہزاروں لوگوں کے گھروں میں قیامت کا منظر نظر نہ آتا۔ ویلنٹائن ڈے منانیوالے ذرا غور کریں کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جنھوں نے ننھے بچوں تک پر رحم نہیں کھایا ہے۔
لاکھوں بچے دربدر ہیں۔ مسلم ممالک پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس سے کوئی بھی اہل نظر غافل نہیں ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کو کمزور کیا گیا ہے، عراق کو منصوبہ بندی کے تحت تقسیم کردیا گیا ہے، شام خون آشام ہوچکا ہے، ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمان شہید ہوگئے ہیں اور 40 لاکھ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ حالات مزید خراب ہوں گے اور عالمی جنگ کا ہونا یقینی اور ناگزیر نظر آرہا ہے۔
ہمارا ملک پاکستان اور اس کے حکمران صاحب اقتدار اور اس میں بسنے والے حالات سے بے خبر ہیں شاید، اور جنھیں خبر ہے وہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور مثبت کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ تیسری عالمی جنگ کے آثار نظر آنے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو تبدیل کیا جائے اور میڈیا کی اس آزادی کو ختم کیا جائے جس کے تحت وہ فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہے۔چند دن پہلے مجھے کئی ای میل موصول ہوئیں، ان ہی میں ثناء کی بھی میل شامل تھی۔
جس نے خصوصی توجہ مبذول کرائی تھی کہ اس شخص اور اس دن کے بارے میں ضرور لکھوں، جس کا نام ویلنٹائن ہے اور اس عیسائی راہب کے نام سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتاہے، تمام مسلمان بچے، بچیاں، نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جیسے یہ کارِخیر ہو۔ تحفے، تحائف، پھولوں کے گلدستوں، پرفیوم اور کارڈز کی تقسیم ایک دن پہلے ہی سے شروع ہوجاتی ہے اور مذکورہ دن کے تو کیا کہنے۔ ویلنٹائن ڈے منانیوالے پارکوں اور باغات کو رونق بخشتے ہیں۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے نازک موقع پر پولیس کو اپنا فرض یاد آجاتا ہے اور فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے ان کی جیب گرم ہوجاتی ہے اور ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ اور جب کسی ایک لڑکی کی عزت کو سر راہ اچھالا جائے تو اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔
اس نکتے پر غور اور فحاشی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ حکمران بھی تو مسلم ہیں کیا وہ اس بات کو پسند کریں گے بذریعہ چینل ان کے اپنے بچے بے حیائی کے مناظر کو دیکھیں اور ویلنٹائن ڈے کو منائیں؟ اگر خوشیوں کو کشید کرنا ہے تو ہماری تاریخ بھی بڑے لوگوں کے کارناموں سے جگمگا رہی ہے۔