محبت کا عالمی دن

گزشتہ طویل برسوں سے دنیا بھر میں محبت کا عالمی دن "VALENTINE DAY" منایا جارہا ہے


شاہد سردار February 14, 2016

RAWALPINDI: عالمی منظرنامے پر توجہ مبذول کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی ذات اور اس کی پرابلم کے حوالے سے کسی ایک دن کو اس تناظر یا حوالے سے منایا جاتا ہے مثلاً مدرز ڈے، فادرز ڈے، لیبر ڈے، چائلڈ ڈے، ویمن ڈے حتیٰ کہ خطرناک یا موذی بیماریوں کے دن بھی عالمی سطح پر منائے جاتے ہیں اور ان کی سدھار، تعمیر اور علاج کی بابت بتایا جاتا ہے۔

گزشتہ طویل برسوں سے دنیا بھر میں محبت کا عالمی دن "VALENTINE DAY" منایا جارہا ہے اور نئی نسل ویلنٹائن ڈے کی تیاری بڑی شدومد سے کرتی ہے۔ یہ دن ایک نوجوان راہب ویلنٹائن کی یاد میں منایا جاتا ہے جس نے روم کے شہنشاہ گلاڈئیس کے ظلم و جبر اور ملک میں عائد شادی بیاہ پر پابندی کے خلاف آواز حق بلند کی تو سزا کے طور پر اسے قتل کروا دیا گیا۔ ابتدا میں یہ دن منانے کی روایت محض مغرب ہی تک محدود تھی لیکن رفتہ رفتہ اس نے مشرق میں بھی پر پھیلائے۔ بالخصوص نوجوان نسل کے لیے تو یہ دن ہرگزرتے دن کے ساتھ اہمیت اور توجہ اختیار کرتا جارہا ہے۔

14 فروری 496ء سے اس دن کو باقاعدہ منانے کی رسم کا آغاز ہوا جو تادم تحریر زبردست جوش و خروش سے جاری و ساری ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی ہر سال 14 فروری کو محبت کے حوالے سے یہ خصوصی دن نئی نسل میں بڑی شدومد سے منانے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس موقع پر شہروں، بازاروں میں خصوصی اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ سرخ گلابوں کا گلدستہ،تہنیتی کارڈ چاکلیٹ اور سرخ رنگ کا کوئی شوپیس ان اسٹالوں پر نمایاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

بیشتر لڑکے اور لڑکیوں میں سرخ رنگ کے ملبوسات پہننے کا چلن بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ الغرض یہ کہ محبت کے اس ''عالمی دن'' کو محبت کرنیوالے اپنے اپنے ''دائرہ اختیار'' میں رہ کر مناتے ہیں اور یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ اس کے خلاف ہیں اور بہت سے اس کے حامی ہیں۔ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اچھی خاصی تعداد میں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کو برا کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا بگاڑا ہے بے چارے ویلنٹائن نے کسی کا؟ اگر کسی کو ویلنٹائن ڈے اچھا نہیں لگتا تو وہ مجنوں کا دن منالے، فرہاد کا دن منالے، مہینوال کا دن منالے، رومیو کا دن منالے، کسی نے کسی کو روکا ہے یا روک سکتا ہے؟

ہمارے ایک واقف کار ہیں، اچھے خاصے عمر رسیدہ ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ویلنٹائن ڈے کے زبردست حمایتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تو میں بوڑھا، دوسرے آثار قدیمہ سے مشابہ، پرانی روایتوں سے چمٹا رہتا تھا، اگلے وقتوں کی باتیں کرتا تھا، لوگ مجھے غریب سمجھنے کے ساتھ ساتھ دقیانوسی سمجھنے لگے، میری عزت بہت کرتے تھے۔

خدا بھلا کرے ''مسٹر ویلنٹائن ڈے'' کا جب سے میں نے ویلنٹائن ڈے منانا شروع کیا ہے لوگ مجھے پڑھا لکھا روشن خیال اور پچیس سال کے نوجوان کا سینے میں دل رکھنے والا پچھتر سالہ بوڑھا سمجھتے ہیں اور میری عزت کرتے ہیں۔ عشق کے معاملے میں، میں مجنوں کا رشتے دار ضرور لگتا ہوں مگر میں مجنوں کا نہیں مسٹر ویلنٹائن کا دن مناتا ہوں، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ویلنٹائن عاشق نہیں تھا، اس کی زندگی میں کوئی جولیٹ نہیں تھی۔

کوئی لیلیٰ نہیں تھی، ویلنٹائن کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوا تھا، وہ کسی سے عشق نہیں کرتا تھا۔ دراصل وہ پریمی جوڑوں کو FACILITATE کرتا تھا، دنیا والوں سے چھپ کر چند لمحے کی مدد اور ان کی خوب خدمت کرتا تھا۔ مصیبتوں کا آسمان ویلنٹائن پر تب ٹوٹا جب اس نے شاہی خاندانوں کے لڑکے لڑکیوں کو بھی ایسے ہی مواقع دینا شروع کیے۔ پکڑا گیا اور ماراگیا۔ پریمی جوڑوں کو دھچکا لگا، وہ چھپ چھپا کر ویلنٹائن کی برسیاں مناتے رہے، دو تین صدیوں تک یورپ میں ویلنٹائن کی برسی منانے پر بندش رہی، تین چار دہائیاں پہلے یورپ نے ویلنٹائن ڈے منانے سے پابندیاں اٹھالیں۔

یوں یورپ سے ہوتا ہوا خیر سے ہم تک پہنچا۔ ویلنٹائن ڈے منانے میں ہم یورپی ممالک سے پیچھے نہیں۔محبت بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اس کوزے میں معنی کا ایک دریا نہیں بلکہ بے انتہا وسیع، بے حد عمیق اور پراسرار سمندر بند ہے، جس میں جذبات کی طغیانی کبھی پرشور جوار بھاٹے کی کیفیت پیدا کردیتی ہے اور کبھی ایک ناقابل فہم سکوت، ایسی گہری چپ طاری کردیتی ہے کہ ہر طرف سناٹے کا پہرہ لگ جاتا ہے۔

اس سمندر کا نمک ہر مجنوں کی آنکھ سے ٹپک کر اس کے زخموں پر گرتا ہے اور انھیں ہمیشہ ہرا رکھتا ہے۔ محبت کے اسیر اس نمک پاشی کو اذیت نہیں بلکہ راحت سمجھتے ہیں اور محبت کے شکر گزار ہوتے ہیں کہ اس کی یہ ستمگری اس لازوال کسک کو جنم دیتی ہے جو محبت کا حاصل ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''وحی'' کی طرح محبت کے لیے بھی قدرت مخصوص دلوں کا انتخاب کرتی ہے جو اپنی حساسیت میں کسی بے حد نفیس اور نہایت قیمتی شیشے کی طرح نازک ہوتے ہیں مگر برداشت کے لیے ہمالیہ کا جگر رکھتے ہیں، محبت جیسے لازوال اور ہمہ گیر جذبے پر ان گنت شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور لکھاریوں نے ان گنت کتابیں، فلمیں، ڈرامے تخلیق کیے اور آج بھی یہ کام بڑی باقاعدگی سے کیا جارہاہے، برصغیر پاک و ہند میں ''جذبہ محبت'' پر تقریباً ہر دوسری فلم کا مرکزی خیال رکھا گیا ملتا ہے۔

یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ مغرب میں اب ویلنٹائن ڈے منانے کا تصور تبدیل ہوچکا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں مغرب سے آیا ہوا وہی تصور اب تک رائج ہے کہ یہ دن درحقیقت محبت کرنیوالے مرد و زن یا صنف مخالف کے درمیان تجدید وفا یا اظہار محبت کا دن ہے اور اسی تصور کی بنا پر ہمارے ہاں ویلنٹائن ڈے کی مخالفت بھی ہوتی ہے اور اسے بے حیائی کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھ کر ان لوگوں پر لعن طعن بھی کی جاتی ہے جو اس دن کی مناسبت سے کچھ محبت بھری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اسے ایک شگون یا تہوار کی طرح منانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مغرب میں اب ویلنٹائن ڈے کے تصور کو بہت وسعت دے دی گئی ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہاں اس خیال کو رواج دیا جارہا ہے کہ اس روز صرف محبوب یا محبوبہ کا ایک دوسرے کے لیے اپنے جذبات کا اظہار یا عہد وفا کی تجدید ضروری نہیں بلکہ اولاد اپنے والدین کے لیے، بھائی اپنی بہن کے لیے بھی اس عقیدت کا اظہار کرسکتا ہے۔

ایک دوست دوسرے دوست کو بھی اس دن اپنی محبت اور خلوص کا یقین دلایا جاسکتا ہے، ناراض یا روٹھے ہوئے رشتے کے حامل افراد بھی اس دن ایک دوسرے کو پھول یا تحفے دے کر اپنی محبت، اپنے خلوص، اپنی وفا کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ رشتے ناتے محبت ہی سے بنتے ہیں، ہر رشتے کی بنیاد محبت پر ہی ہو تی ہے، محبت اور خلوص ہی سے رشتے پروان چڑھتے ہیں جب محبت اور خلوص کی جگہ شکوے شکایتیں اور بدگمانیاں جنم لیتی ہیں تو رشتے ناتوں میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں، دو انسانوں کے درمیان خلیج پیدا ہونے لتی ہے۔

ہمارے خیال میں ویلنٹائن ڈے درحقیقت ایسی خلیج کو پاٹنے ور رشتے ناتوں کو مضبوط بنانے کا ایک بہت اچھا ذریعہ اور صحیح معنوں میں ایک تہوار بھی ثابت ہوسکتا ہے، جس طرح ہم اپنے تہوار ''عید'' کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس روز جب دو افراد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں تو سارے گلے دور ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ ویلنٹائن ڈے پر بھی ہم اور آپ عید کی طرح صرف اپنے دوستوں، والدین، اساتذہ، پڑوسیوں، بھائی بہنوں اور شریک حیات کو ہی اپنے محبت اور اپنے خلوص کا یقین نہ دلائیں بلکہ معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حامل افراد کو بھی کسی پیغام، کسی کارڈ کے ذریعے یا خود ان کے پاس جاکر اپنی زبان سے بھی اپنے جذبات اور اپنے خلوص سے آگاہ کرکے اس دن کو بامقصد اور بڑا دن بنا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں