پاکستان سپر لیگ ملکی کرکٹ میں بہتری کا نیا راستہ کھل گیا
پی سی بی نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم لوگ توقع کر رہے تھے۔
لاہور:
ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر بتا رہا تھاکہ دیکھ لینا، پاکستان سپر لیگ کا انعقاد کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوگا،ماضی کی طرح پی سی بی کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑے گی۔
پھر وہ لیگ نہ ہونے کی وجوہات بتانے کی کوشش کرتا رہا، کچھ عرصہ قبل یہ صرف اس ٹیسٹ کرکٹر ہی کی سوچ نہیں تھی بلکہ تقریباً 20 کروڑ کی آبادی کے اس ملک کے بیشتر شہریوں کی بھی یہی رائے تھی جو خود تو مایوسیوں اور تاریکیوں کے گھپ اندھیروں میں گھرے رہتے ہیں اور اسی مایوسی کے عالم میں کسی کے مثبت کام میں بھی کیڑے نکالنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں لیکن پی سی بی نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم لوگ توقع کر رہے تھے۔
راقم کو لاہور کے مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں وہ تقریب بھی یاد ہے کہ جب پی ایس ایل کے روح رواں نجم سیٹھی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ لیگ کے انعقاد میں ہمیں بے پناہ مسائل کا سامنا تھا لیکن ہم نے تہیہ کر رکھا تھا کہ منصوبے کے انعقاد کو ہر حال میں ممکن بنانا ہے، نجم سیٹھی جب تقریب کے شرکاء سے اپنے دل کی یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت مجھے باراک اوبامہ کی 12 منٹ کی وہ'' یس وئی کین' تقریر یاد آ گئی جس نے انہیں راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور وہ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب رہے۔
تاریخ کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا، اس دنیا میں وہی شخصیات زندہ رہتی ہیں جن کے پاس کارنامے ہوتے ہیں، پاکستان کی ابتدائی سپر لیگ کا جب بھی ذکر ہوگا اس میں نجم سیٹھی کا نام سرفہرست ہوگا۔ متحدہ عرب امارات میں سجے پاکستان سپر لیگ کے میلے سے قبل اس کے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ سپر لیگ کا آئیڈیا کس کا تھا، کون، کون اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے اور وہ کیا عوامل تھے جو اس لیگ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کی مقبولیت نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تقریبا تمام ہی ممالک کو اس بات پر مجبور کر رکھا ہے کہ وہ تجارتی بنیادوں پر لیگز منعقد کرائیں تاہم ان میں صرف آئی پی ایل ہی وہ واحد لیگ ہے جو متعدد نوعیت کے مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود ابھی تک قدم جمائے ہوئے ہے۔
سری لنکن لیگ صرف ایک بار منعقد ہونے کے بعد ہی کرپشن کی بھینٹ چڑھ گئی، بنگلہ دیش نے اس سال اپنی لیگ ضرور کرائی لیکن ماضی میں میچ فکسنگ کے سبب اس کا دامن بھی صاف نہیں رہا، ان حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کے کرتا دھرتاؤں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ وہ پاکستان کی اس پہلی لیگ کو کسی بھی طرح متنازعہ نہ بننے دیں کیونکہ پاکستانی کرکٹ اب کرپشن کے کسی بھی تنازعے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
پاکستان سپر لیگ کا ابتدائی آئیڈیا پی سی بی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف کی اختراع تھا، انہوں نے لیگ کے انعقاد کیلیے بھر پور کوششیں بھی کیں لیکن منصوبے کوپایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، ان کے بعد آنے والے بورڈ سربراہ ذکاء اشرف کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لیگ کا انعقاد ممکن نہ بنا سکے۔ شہریارخان چیئرمین پی سی بی بنے توانہوں نے نجم سیٹھی کو پاکستان سپر لیگ کی ذمہ داری سونپ دی۔
جنہوں نے منصوبے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور پھر لیگ کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اس دوران انہیں ایونٹ کی لیے وینیو سمیت متعدد مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، ماسٹرز لیگ میں شامل برائن لارا، کیلس، ایڈم گلکرسٹ، مرلی دھرن اور سنگا کارا سمیت متعدد کرکٹرز کی موجودگی میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں شامل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
پاکستانی لیگ کو ناکام بنانے کے لیے ایم سی ایل کا بھی وہی شیڈول رکھا گیا جو پی ایس ایل کا تھا، ان تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کو ممکن بنایا گیا اوراب لیگ کی 5 ٹیموں میں پاکستانی کرکٹرز کے علاوہ 30 غیر ملکی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں انگلینڈ کے کیون پیٹرسن، آسٹریلیا کے شین واٹسن اور شان ٹیٹ، ویسٹ انڈیز کے کرس گیل، لینڈل سمنز، ڈوین براوو اور ڈیرن سیمی، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، مشفیق الرحیم اور تمیم اقبال، زمبابوے کے ایلٹن چگمبرا اور افغانستان کے محمد نبی قابل ذکر ہیں۔
ماضی کے متعدد مشہور کرکٹرز بھی پاکستان سپر لیگ میں کوچ کی حیثیت سے ذمہ داری نبھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنے کھلاڑیوں کو مفید مشورے دینے کے لیے شہرہ آفاق ویسٹ انڈین کرکٹر سر ویوین رچرڈز کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں، ڈین جونز اور وسیم اکرم اسلام آباد کی ٹیم سے منسلک ہیں، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے سابق کوچ مکی آرتھر کراچی کنگز سے وابستہ ہیں، انگلینڈ کے اینڈی فلاور پشاور کی ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں، کوئٹہ گلیڈی ایٹرزنے معین خان کو کوچ مقررکیا ہے جبکہ جنوبی افریقہ کے پیڈی آپٹن لاہور قلندرز کے کوچ ہیں۔
دبئی اور شارجہ میں جاری پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کرکٹ بورڈ بہت خوش ہے کہ اس نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے غیر ملکی کرکٹرز کی بڑی تعداد کے ساتھ یہ میلہ سجا لیا ہے،ایونٹ کے روح رواں نجم سیٹھی کو یقین ہے کہ یہ آئی پی ایل کے بعد دوسری سب سے اہم لیگ ثابت ہوگی۔ اس لیگ کو کامیاب بنانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی اور رضا راشد کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، بورڈ کے یہ عہدیدار پاکستان بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کو ٹاس سے لے کر میچ کے اختتامی لمحات تک پل پل کی خبریں، تصویریں اور فوٹیج سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے بارے میں ہر کوئی یہی بات کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ملکی کرکٹ کی نئی سمت متعین کرے گی لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ملک سے باہر ہونے والی یہ لیگ دنیا کو پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دوبارہ شروع کرنے کے لیے قائل کرسکے گی؟
پی ایس ایل میں شامل ''ایکسپریس'' کی ٹیم پشاور زلمی نے اب تک کے مقابلوں میں فتح و کامرانی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جما رکھا ہے۔
زلمی نے شاہد آفریدی کی قیادت میں اب تک 5 میچوں میں حصہ لیا، 4 میں کامیابی حاصل کی جبکہ اسے صرف ایک میچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ''ایکسپریس'' کی ٹیم نے پشاور کے آرمی پبلک سکول کے طلبا اور عملے کے 146 اراکین کو خصوصی طیارے کے ذریعے پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب اور میچز دکھانے کا خصوصی طور پر انتظام کیا۔دوسرا نمبر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ہے جس کے بھی 8پوائنٹس ہیں تاہم بہتر اوسط کی وجہ سے پشاور زلمی کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی5 میچوں میں ایکشن میں دکھائی دی، 4 میں کامیابی اپنے نام کی، ایک میچ میں شکست کا سامنا رہا، کراچی کنگز5 میچوں میں صرف 2 مقابلوں میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے،3 میچوں میں اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا، 4 پوائنٹس کے ساتھ یہ تیسرے نمبر پر ہیں۔اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوچنگ کے فرائض وسیم اکرم انجام دے رہے ہیں لیکن عوامی توقعات کے برعکس یونائیٹڈ 6میچوں میں صرف 2میچوں میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔
4 میچوں میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لاہور قلندرز کو ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہر علی، عمر اکمل، کرس گیل، براوو، کیون کوپر سمیت متعدد مایہ ناز کھلاڑیوں کا ساتھ تھا لیکن یہ ٹیم اس ایونٹ میں سب سے ناکام ثابت ہوئی ہے اور پانچ میچوں میں صرف ایک میچ میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ 2 پوائنٹس کے ساتھ اس کا آخری نمبر پر ہے۔
پشاور زلمی ہی کے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تمیم اقبال 5 میچوں میں سب سے زیادہ 237 رنز بنا کر سرفہرست ہیں، کراچی کنگز کے بوپارا 210 رنز کے ساتھ دوسرے اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے شین واٹسن 194 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ایل جے رائٹ کی 158 رنز کے ساتھ چوتھی اور لاہور قلندرز کے عمر اکمل کی156 رنز کے ساتھ پانچویں پوزیشن ہے۔بولنگ میں کراچی کنگز کے بوپارا 10 وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، پشاور زلمی کے وہاب ریاض کی بھی پانچ میچوں میں10 ہی وکٹیں ہیں لیکن اوسط کے اعتبار سے وہاب کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
پشاور زلمی کے محمداصغر 5 میچوں میں 9 وکٹوں کے ساتھ تیسرے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز بھی9 وکٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ لاہور قلندرز کے ظفر گوہر 4میچوں میں7 وکٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔لاہور قلندرز کے عمر اکمل انفرادی اننگز میں سب سے زیادہ 94 رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
، انہوں نے یہ کارنامہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان انجام دیا تھا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے رائٹ86 رنز کے ساتھ دوسرے اور پشاور زلمی کے تمیم اقبال 80 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔کراچی کنگز کے بوپارا کو ایک اننگز میں سب سے زیادہ 6 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز اور اسی ٹیم کے ظفر گوہر 4 ، 4 وکٹوں کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
سپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ کراچی کنگز کے محمد عامر کو لیگ کی پہلی ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل ہے، پیسر کی عمدہ کارکردگی کے بعد سلمان بٹ اور محمد آصف کو بھی انٹرنیشنل مقابلوں میں دوبارہ موقع دیئے جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
لیگ میں شامل ایمرجنگ کرکٹرز میں کوئٹہ کے محمد نواز اور پشاور زلمی کے محمد اصغر اپنی پرفارمنس سے ٹاپ کلاس پلیئر نظر آ رہے ہیں، نواز ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں،ان میں اچھا آل راؤنڈر بننے کی خوبیاں بھی موجود ہیں، محمد نواز اور رومان رئیس کو تو پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کا صلہ بھی مل گیا ہے اور انہیں بھارت میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے قومی سکواڈمیں شامل کر لیا گیا ہے۔ ابھی پی ایس ایل کے 13 میچز ہوئے ہیں۔
مزید 11 میچز باقی ہیں،کھلاڑیوں کے صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع بدستور موجود ہیں۔ پی ایس ایل کے ابتدائی ایڈیشن کے چیمپئن کے لیے ''ایکسپریس'' کی پشاور زلمی اورکوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، لیگ میں شریک پانچوں ٹیموں میں سے کوئی بھی ٹیم جیتے گی توبھی یہ فتح کسی ایک ٹیم کی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملکی کرکٹ کی کامیابی ہوگی۔
ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر بتا رہا تھاکہ دیکھ لینا، پاکستان سپر لیگ کا انعقاد کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوگا،ماضی کی طرح پی سی بی کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑے گی۔
پھر وہ لیگ نہ ہونے کی وجوہات بتانے کی کوشش کرتا رہا، کچھ عرصہ قبل یہ صرف اس ٹیسٹ کرکٹر ہی کی سوچ نہیں تھی بلکہ تقریباً 20 کروڑ کی آبادی کے اس ملک کے بیشتر شہریوں کی بھی یہی رائے تھی جو خود تو مایوسیوں اور تاریکیوں کے گھپ اندھیروں میں گھرے رہتے ہیں اور اسی مایوسی کے عالم میں کسی کے مثبت کام میں بھی کیڑے نکالنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں لیکن پی سی بی نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم لوگ توقع کر رہے تھے۔
راقم کو لاہور کے مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں وہ تقریب بھی یاد ہے کہ جب پی ایس ایل کے روح رواں نجم سیٹھی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ لیگ کے انعقاد میں ہمیں بے پناہ مسائل کا سامنا تھا لیکن ہم نے تہیہ کر رکھا تھا کہ منصوبے کے انعقاد کو ہر حال میں ممکن بنانا ہے، نجم سیٹھی جب تقریب کے شرکاء سے اپنے دل کی یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت مجھے باراک اوبامہ کی 12 منٹ کی وہ'' یس وئی کین' تقریر یاد آ گئی جس نے انہیں راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور وہ دنیا کی سپر طاقت امریکہ کے صدر بننے میں کامیاب رہے۔
تاریخ کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا، اس دنیا میں وہی شخصیات زندہ رہتی ہیں جن کے پاس کارنامے ہوتے ہیں، پاکستان کی ابتدائی سپر لیگ کا جب بھی ذکر ہوگا اس میں نجم سیٹھی کا نام سرفہرست ہوگا۔ متحدہ عرب امارات میں سجے پاکستان سپر لیگ کے میلے سے قبل اس کے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ سپر لیگ کا آئیڈیا کس کا تھا، کون، کون اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے اور وہ کیا عوامل تھے جو اس لیگ کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کی مقبولیت نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تقریبا تمام ہی ممالک کو اس بات پر مجبور کر رکھا ہے کہ وہ تجارتی بنیادوں پر لیگز منعقد کرائیں تاہم ان میں صرف آئی پی ایل ہی وہ واحد لیگ ہے جو متعدد نوعیت کے مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود ابھی تک قدم جمائے ہوئے ہے۔
سری لنکن لیگ صرف ایک بار منعقد ہونے کے بعد ہی کرپشن کی بھینٹ چڑھ گئی، بنگلہ دیش نے اس سال اپنی لیگ ضرور کرائی لیکن ماضی میں میچ فکسنگ کے سبب اس کا دامن بھی صاف نہیں رہا، ان حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کے کرتا دھرتاؤں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ وہ پاکستان کی اس پہلی لیگ کو کسی بھی طرح متنازعہ نہ بننے دیں کیونکہ پاکستانی کرکٹ اب کرپشن کے کسی بھی تنازعے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
پاکستان سپر لیگ کا ابتدائی آئیڈیا پی سی بی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف کی اختراع تھا، انہوں نے لیگ کے انعقاد کیلیے بھر پور کوششیں بھی کیں لیکن منصوبے کوپایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، ان کے بعد آنے والے بورڈ سربراہ ذکاء اشرف کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود لیگ کا انعقاد ممکن نہ بنا سکے۔ شہریارخان چیئرمین پی سی بی بنے توانہوں نے نجم سیٹھی کو پاکستان سپر لیگ کی ذمہ داری سونپ دی۔
جنہوں نے منصوبے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور پھر لیگ کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اس دوران انہیں ایونٹ کی لیے وینیو سمیت متعدد مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، ماسٹرز لیگ میں شامل برائن لارا، کیلس، ایڈم گلکرسٹ، مرلی دھرن اور سنگا کارا سمیت متعدد کرکٹرز کی موجودگی میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں شامل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
پاکستانی لیگ کو ناکام بنانے کے لیے ایم سی ایل کا بھی وہی شیڈول رکھا گیا جو پی ایس ایل کا تھا، ان تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کو ممکن بنایا گیا اوراب لیگ کی 5 ٹیموں میں پاکستانی کرکٹرز کے علاوہ 30 غیر ملکی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں جن میں انگلینڈ کے کیون پیٹرسن، آسٹریلیا کے شین واٹسن اور شان ٹیٹ، ویسٹ انڈیز کے کرس گیل، لینڈل سمنز، ڈوین براوو اور ڈیرن سیمی، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن، مشفیق الرحیم اور تمیم اقبال، زمبابوے کے ایلٹن چگمبرا اور افغانستان کے محمد نبی قابل ذکر ہیں۔
ماضی کے متعدد مشہور کرکٹرز بھی پاکستان سپر لیگ میں کوچ کی حیثیت سے ذمہ داری نبھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنے کھلاڑیوں کو مفید مشورے دینے کے لیے شہرہ آفاق ویسٹ انڈین کرکٹر سر ویوین رچرڈز کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں، ڈین جونز اور وسیم اکرم اسلام آباد کی ٹیم سے منسلک ہیں، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے سابق کوچ مکی آرتھر کراچی کنگز سے وابستہ ہیں، انگلینڈ کے اینڈی فلاور پشاور کی ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں، کوئٹہ گلیڈی ایٹرزنے معین خان کو کوچ مقررکیا ہے جبکہ جنوبی افریقہ کے پیڈی آپٹن لاہور قلندرز کے کوچ ہیں۔
دبئی اور شارجہ میں جاری پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کرکٹ بورڈ بہت خوش ہے کہ اس نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے غیر ملکی کرکٹرز کی بڑی تعداد کے ساتھ یہ میلہ سجا لیا ہے،ایونٹ کے روح رواں نجم سیٹھی کو یقین ہے کہ یہ آئی پی ایل کے بعد دوسری سب سے اہم لیگ ثابت ہوگی۔ اس لیگ کو کامیاب بنانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی اور رضا راشد کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، بورڈ کے یہ عہدیدار پاکستان بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کو ٹاس سے لے کر میچ کے اختتامی لمحات تک پل پل کی خبریں، تصویریں اور فوٹیج سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے بارے میں ہر کوئی یہی بات کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ملکی کرکٹ کی نئی سمت متعین کرے گی لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ملک سے باہر ہونے والی یہ لیگ دنیا کو پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دوبارہ شروع کرنے کے لیے قائل کرسکے گی؟
پی ایس ایل میں شامل ''ایکسپریس'' کی ٹیم پشاور زلمی نے اب تک کے مقابلوں میں فتح و کامرانی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پوائنٹس ٹیبل میں پہلی پوزیشن پر قبضہ جما رکھا ہے۔
زلمی نے شاہد آفریدی کی قیادت میں اب تک 5 میچوں میں حصہ لیا، 4 میں کامیابی حاصل کی جبکہ اسے صرف ایک میچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ''ایکسپریس'' کی ٹیم نے پشاور کے آرمی پبلک سکول کے طلبا اور عملے کے 146 اراکین کو خصوصی طیارے کے ذریعے پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب اور میچز دکھانے کا خصوصی طور پر انتظام کیا۔دوسرا نمبر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ہے جس کے بھی 8پوائنٹس ہیں تاہم بہتر اوسط کی وجہ سے پشاور زلمی کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی5 میچوں میں ایکشن میں دکھائی دی، 4 میں کامیابی اپنے نام کی، ایک میچ میں شکست کا سامنا رہا، کراچی کنگز5 میچوں میں صرف 2 مقابلوں میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے،3 میچوں میں اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا، 4 پوائنٹس کے ساتھ یہ تیسرے نمبر پر ہیں۔اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوچنگ کے فرائض وسیم اکرم انجام دے رہے ہیں لیکن عوامی توقعات کے برعکس یونائیٹڈ 6میچوں میں صرف 2میچوں میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔
4 میچوں میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لاہور قلندرز کو ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہر علی، عمر اکمل، کرس گیل، براوو، کیون کوپر سمیت متعدد مایہ ناز کھلاڑیوں کا ساتھ تھا لیکن یہ ٹیم اس ایونٹ میں سب سے ناکام ثابت ہوئی ہے اور پانچ میچوں میں صرف ایک میچ میں ہی کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ 2 پوائنٹس کے ساتھ اس کا آخری نمبر پر ہے۔
پشاور زلمی ہی کے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تمیم اقبال 5 میچوں میں سب سے زیادہ 237 رنز بنا کر سرفہرست ہیں، کراچی کنگز کے بوپارا 210 رنز کے ساتھ دوسرے اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے شین واٹسن 194 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ایل جے رائٹ کی 158 رنز کے ساتھ چوتھی اور لاہور قلندرز کے عمر اکمل کی156 رنز کے ساتھ پانچویں پوزیشن ہے۔بولنگ میں کراچی کنگز کے بوپارا 10 وکٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، پشاور زلمی کے وہاب ریاض کی بھی پانچ میچوں میں10 ہی وکٹیں ہیں لیکن اوسط کے اعتبار سے وہاب کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
پشاور زلمی کے محمداصغر 5 میچوں میں 9 وکٹوں کے ساتھ تیسرے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز بھی9 وکٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ لاہور قلندرز کے ظفر گوہر 4میچوں میں7 وکٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔لاہور قلندرز کے عمر اکمل انفرادی اننگز میں سب سے زیادہ 94 رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
، انہوں نے یہ کارنامہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان انجام دیا تھا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے رائٹ86 رنز کے ساتھ دوسرے اور پشاور زلمی کے تمیم اقبال 80 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔کراچی کنگز کے بوپارا کو ایک اننگز میں سب سے زیادہ 6 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز اور اسی ٹیم کے ظفر گوہر 4 ، 4 وکٹوں کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
سپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ کراچی کنگز کے محمد عامر کو لیگ کی پہلی ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل ہے، پیسر کی عمدہ کارکردگی کے بعد سلمان بٹ اور محمد آصف کو بھی انٹرنیشنل مقابلوں میں دوبارہ موقع دیئے جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔
لیگ میں شامل ایمرجنگ کرکٹرز میں کوئٹہ کے محمد نواز اور پشاور زلمی کے محمد اصغر اپنی پرفارمنس سے ٹاپ کلاس پلیئر نظر آ رہے ہیں، نواز ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں،ان میں اچھا آل راؤنڈر بننے کی خوبیاں بھی موجود ہیں، محمد نواز اور رومان رئیس کو تو پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کا صلہ بھی مل گیا ہے اور انہیں بھارت میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے قومی سکواڈمیں شامل کر لیا گیا ہے۔ ابھی پی ایس ایل کے 13 میچز ہوئے ہیں۔
مزید 11 میچز باقی ہیں،کھلاڑیوں کے صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع بدستور موجود ہیں۔ پی ایس ایل کے ابتدائی ایڈیشن کے چیمپئن کے لیے ''ایکسپریس'' کی پشاور زلمی اورکوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، لیگ میں شریک پانچوں ٹیموں میں سے کوئی بھی ٹیم جیتے گی توبھی یہ فتح کسی ایک ٹیم کی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملکی کرکٹ کی کامیابی ہوگی۔