پاکستانی کوششیں رنگ لے آئیں طالبان نے مثبت سگنل دے دیا
اب طالبان کے پیغام کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا وقت اورمقام طے کیاجائے گا
پاکستان کی کوششوں سے طالبان نے افغان حکومت سے باضابطہ مذاکرات کے آغاز کے لیے مثبت سگنل دے دیا ہے اور پس پردہ دونوں فریقین میں بات چیت کے آغاز کا شیڈول طے کیا جارہاہے اور توقع ہے کہ مذاکرات کا اعلان جلد کردیاجائے گا۔
مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل پس پردہ رابطوں میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیز فائز کرانے کی کوششوں کا عمل بھی آخری مراحل میں ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر حملے جلد بند کردیں گے ۔دونوں فریقین کی جانب سے سیزفائرکرنے کے مثبت اشارے مل گئے ہیں۔
سیز فائرکا اعلان مذاکراتی عمل کے باضابطہ آغاز ہونے کے بعد کردیا جائے گا۔ مذاکراتی رابطہ کاروں کی کوشش ہے کہ افغان حکومت کے طالبان سے مذاکرات طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر میں شامل ارکان کے توسط سے طالبان کے تمام گروپس کے ساتھ کیے جائیں ۔وفاقی حکومت کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے قائم چار ممالک پر مشتمل کمیٹی نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ طالبان قیادت کو باضابطہ مذاکرات کے لیے آمادہ کرے اور اس ہی درخواست پر جید علمائے کرام اور اہم رابطہ کاروں کے توسط پاکستانی حکام کے طالبان قیادت سے پس پردہ رابطے کامیاب رہے اور ان رابطوں میں طالبان قیادت نے مذاکرات کی بحالی کے لیے مثبت سگنل دیا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ اور مقام کے تعین کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اورجلد اس حوالے سے طالبان قیادت اپنے سیاسی دفتر کے توسط سے چار ملکی رابطہ گروپ کو آگاہ کردیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مذاکراتی عمل کے پہلے مرحلے میں طالبان کا سیاسی دفترافغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرے گا اوراس بات چیت کے دوران قیدیوں کے تبادلے،افغان طالبان کے اہم رہنمائوں پر مقدمات کی واپسی اورسفرپرعائد پاپندی کے خاتمے اوردیگرامورپرغورکیا جائے گا ۔افغان حکومت طالبان کو حکومتی امورمیں شامل ہونے کی دعوت بھی دے سکتی ہے۔
طالبان افغان حکومت اور رابطہ کارگروپ سے افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی کاشیڈول دینے کابھی مطالبہ کرسکتے ہیں۔ذرائع کاکہنا ہے کہ مذاکراتی عمل آگے بڑھنے کی صورت میں اگلے مرحلے میں اہم طالبان قیادت شامل ہوسکتی ہے ۔مذاکرات کے آغاز سے قبل فریقین اپنی شرائط اور مطالبات کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور بات چیت کے آغاز کے بعد ان کا تبادلہ کیا جائے گا ۔رابطہ کاروں کی کوشش ہے کہ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان بات چیت مری مذاکرات کا تسلسل ہوں۔پاکستان 4ملکی گروپ کو پیشکش کرچکا ہے کہ وہ مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔
اب طالبان کے پیغام کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا وقت اورمقام طے کیاجائے گا۔مذاکراتی عمل میں پاکستان ،امریکا اورچین کے نمائندے بھی موجود ہوں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کے دوران صرف افغان طالبان سے ہی بات چیت کرے گی اوراس مرحلے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کاافغانستان میں موجودگروپ اس عمل کا حصہ نہیں ہوگا۔
مذاکراتی عمل کے آغاز سے قبل پس پردہ رابطوں میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیز فائز کرانے کی کوششوں کا عمل بھی آخری مراحل میں ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر حملے جلد بند کردیں گے ۔دونوں فریقین کی جانب سے سیزفائرکرنے کے مثبت اشارے مل گئے ہیں۔
سیز فائرکا اعلان مذاکراتی عمل کے باضابطہ آغاز ہونے کے بعد کردیا جائے گا۔ مذاکراتی رابطہ کاروں کی کوشش ہے کہ افغان حکومت کے طالبان سے مذاکرات طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر میں شامل ارکان کے توسط سے طالبان کے تمام گروپس کے ساتھ کیے جائیں ۔وفاقی حکومت کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے قائم چار ممالک پر مشتمل کمیٹی نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ طالبان قیادت کو باضابطہ مذاکرات کے لیے آمادہ کرے اور اس ہی درخواست پر جید علمائے کرام اور اہم رابطہ کاروں کے توسط پاکستانی حکام کے طالبان قیادت سے پس پردہ رابطے کامیاب رہے اور ان رابطوں میں طالبان قیادت نے مذاکرات کی بحالی کے لیے مثبت سگنل دیا ہے ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ اور مقام کے تعین کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اورجلد اس حوالے سے طالبان قیادت اپنے سیاسی دفتر کے توسط سے چار ملکی رابطہ گروپ کو آگاہ کردیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مذاکراتی عمل کے پہلے مرحلے میں طالبان کا سیاسی دفترافغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرے گا اوراس بات چیت کے دوران قیدیوں کے تبادلے،افغان طالبان کے اہم رہنمائوں پر مقدمات کی واپسی اورسفرپرعائد پاپندی کے خاتمے اوردیگرامورپرغورکیا جائے گا ۔افغان حکومت طالبان کو حکومتی امورمیں شامل ہونے کی دعوت بھی دے سکتی ہے۔
طالبان افغان حکومت اور رابطہ کارگروپ سے افغانستان سے غیرملکی افواج کی واپسی کاشیڈول دینے کابھی مطالبہ کرسکتے ہیں۔ذرائع کاکہنا ہے کہ مذاکراتی عمل آگے بڑھنے کی صورت میں اگلے مرحلے میں اہم طالبان قیادت شامل ہوسکتی ہے ۔مذاکرات کے آغاز سے قبل فریقین اپنی شرائط اور مطالبات کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور بات چیت کے آغاز کے بعد ان کا تبادلہ کیا جائے گا ۔رابطہ کاروں کی کوشش ہے کہ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان بات چیت مری مذاکرات کا تسلسل ہوں۔پاکستان 4ملکی گروپ کو پیشکش کرچکا ہے کہ وہ مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔
اب طالبان کے پیغام کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا وقت اورمقام طے کیاجائے گا۔مذاکراتی عمل میں پاکستان ،امریکا اورچین کے نمائندے بھی موجود ہوں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کے دوران صرف افغان طالبان سے ہی بات چیت کرے گی اوراس مرحلے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کاافغانستان میں موجودگروپ اس عمل کا حصہ نہیں ہوگا۔