کچھ نہ کچھ کالا ہے
دال میں کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ کالا شامل ہو رہا ہے۔
دال میں کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ کالا شامل ہو رہا ہے۔
عام انتخابات یقینی بھی نظر آتے ہیں اور کچھ ایسے واقعات یا فیصلے بھی ہو رہے ہیں جو تمام اندازوں کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ پچھلے چند روز تک مسلم لیگ (ن) قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ الیکشن اگلے برس مئی کے شروع ہی میں ہوں۔ وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے بہت سے ترقیاتی کام مئی سے پہلے مکمل نہیں ہو سکیں گے اور مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ پنجاب میں اپنی انتخابی مہم پر ان منصوبوں کے سہرے باندھ کر نکلے۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کوئی باضابطہ فیصلہ تو نہیں آیا تاہم پارٹی کے اہم عہدیدار مشاہد اﷲ خان نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ الیکشن جلد کرائے جائیں۔ جلد کا مطلب یہ ہے کہ حکومت آج کل میں انتخابی شیڈول کا اعلان کر دے تو یہ انتخابات فروری میں ہو جانے چاہئیں یا شیڈول کا اعلان اس سے کچھ آگے بڑھا دیا جائے تو مارچ میں ہو سکتے ہیں۔
مارچ اور مئی میں صرف دو مہینوں کا فرق ہے۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار کے لیے اچانک اتنی بے چین نہیں ہو سکتی کہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا مطالبہ شروع کر دے۔ جلد انتخابات کے مطالبے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حالات کے حوالے سے کچھ اندیشے لاحق ہو گئے ہیں کہ اگر مزید انتظار کیا گیا تو سسٹم خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتنے پر یقین ہیں کہ انھوں نے پچھلے چند ہفتوں میں غالباً چار پانچ بار یہ بات کہی اور کل پھر دہرائی ہے کہ اب آئین کو ماننے والے ہی حکومت کریں گے اور مارشل لا کا دروازہ ہمیشہ کیلیے بند ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی سوچ وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان سے جھلکتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات نہیں کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے پہلے توڑ دی جائیں۔ یعنی اسمبلیاں مدت پوری کریں گی اور الیکشن مئی میں ہوں گے۔ ان کے بیان سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ انھیں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ کو کیا خدشہ ہے؟ نظام خطرے میں پڑنے کا مفہوم تو کچھ بدل گیا ہے۔ اب یہ اندیشہ تو واقعی برائے نام ہے کہ مارشل لا لگ سکتا ہے لیکن ٹیکنو کریٹ یا احتسابی حکومت کے جو شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، ان کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مارشل لا لگائے بغیر بھی نظام کی شکل بدلی جا سکتی ہے۔
نظام جمہوری اور آئینی ہی رہے گا لیکن انتخابات ہوں گے نہ اسمبلیاں، یعنی یہ ایسا نظام ہو گا جس میں عدلیہ بھی ہو گی، آئین بھی برقرار رہے گا' حکومت بھی اوپر سے لے کر نیچے تک سول عناصر کی ہو گی، بس ایک پارلیمنٹ نہیں ہو گی۔ یعنی جمہوریت میں پارلیمنٹ منفی ہو جائے گی۔ یہ نظام، شوشہ چھوڑنے والوں کے مطابق، ایک یا دو بلکہ تین سال تک بھی رہ سکتا ہے اور اس عرصے میں کرپٹ سیاستدانوں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، کا بھرپور احتساب کیا جا سکتا ہے۔
اس عمل میں جب قومی خزانہ لبالب بھر جائے گا تو صاف شفاف امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی اور منفی کی گئی پارلیمنٹ دوبارہ نظام میں جمع ہو جائے گی۔ شوشے چھوڑنے والے یہ نہیں بتاتے کہ منفی پارلیمنٹ والے جمہوری نظام کی آئینی گنجائش کیسے نکلے گی اور کون نکالے گا لیکن اطلاعات دینے والے حضرات کا کہنا ہے کہ ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا جا چکا ہے۔ آئینی گنجائش پیدا کرنے کا راز وقت پر کھلے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر سارے آئینی راستے بند ہونے کے باوجود تین سالہ احتسابی حکومت کی ''خبریں'' دینے والے حضرات اپنی خبروں کی صحت پر مصر ہیں تو شاید کچھ نہ کچھ پس پردہ چل ہی رہا ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو یکایک اندیشے لاحق کیوں ہو گئے۔
جبکہ یہ خبریں پہلے سے چل رہی ہیں اور مسلم لیگ ن بظاہر اب تک مطمئن بھی نظر آ رہی تھی۔ اندازہ یہی ہے کہ پہلے بلوچستان اور اب سندھ کی بدامنی کے کیس جس تیز رفتاری سے آگے بڑھے ہیں اور عدالت کے ریمارکس نے جو فضا پیدا کی ہے' مسلم لیگ ن انہی کی وجہ سے اندیشوں میں مبتلا ہوئی ہے۔ بلوچستان حکومت کا قصہ تو سب کے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ عملاً اسے کالعدم قرار دے چکی ہے اور اب تو اس کا سوال محض یہ ہے کہ جب یہ حکومت کالعدم ہو چکی ہے تو کام کیوں کر رہی ہے؟ اس نے گیند وفاقی حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی خطرے کا احساس ہو چکا ہے اور بلوچستان کے سیاسی سیٹ اپ کے اندر ہی اپ سیٹ کرنے والے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ اسپیکر کا موقف سب کے سامنے آ گیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کو متنازع سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے بعد سندھ حکومت کو بھی امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے نااہل کہا جا چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بدنیت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ صرف ریمارکس ہی نہیں' کراچی میں تمام مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن کا حکم بھی دیا جا چکا ہے۔ اب گروہوں میں جہاں طالبان اور دوسرے غیر سیاسی دہشت گرد یا جرائم پیشہ افراد شامل ہیں، وہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں کچھ مسلح گروہوں کا تعلق حکومتی اتحاد سے بھی ہو سکتا ہے۔ اب سندھ حکومت یا وفاق، کراچی میں آپریشن کرنے کا پابند ہے۔
آپریشن ہوتا ہے تو نہ صرف سیاسی الجھنیں پیدا ہوں گی بلکہ بدامنی کی ایک جو ابی لہر سارے سیاسی نظام کیلیے بھی خطرہ بن سکتی ہے اور اگر آپریشن نہیں کیا جاتا تو عدلیہ اور حکومت میں محاذ آرائی کا ایک نیا منظر نامہ سامنے آ سکتا ہے۔ چنانچہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس صورتحال کو خطر ناک سمجھ رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر کے اس الجھی ہوئی صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے یا اسے ٹالا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت کیا سمجھتی ہے' ابھی واضح نہیں۔ اس لیے کہ وزیراطلاعات کے بیان سے اس کا صرف اطمینان ظاہر ہوتا ہے جو بہر حال محض دکھاوے کا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ صورتحال سے خوف کا اظہار اپوزیشن تو کر سکتی ہے' حکومت نہیں کر سکتی۔ ممکن ہے وہ بھی خدشات کو سمجھ رہی ہو لیکن معاملہ اپنے انداز سے حل کرنا چاہتی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جلد ہی انتخابات کا اعلان کر دے لیکن جب تک وہ ایسا اعلان نہیں کرتی' یہی کہتی رہے گی کہ الیکشن وقت پر ہوں گے۔
صورتحال ایک اور حوالے سے بھی سنگین ہے۔ بلوچ رہنما طلال اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچ مسئلہ حل نہ ہوا تو اگلے سال پاکستان کے لیے بری خبر آ سکتی ہے۔ یعنی بری خبر سے بچنے کے لیے پاکستان کے پاس سال نہیں صرف چند مہینے ہیں۔ منظرنامہ تشویشناک ہے اور اطمینان کی بات صرف اتنی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے نازک وقت میں کھلی جنگ کی صورتحال نہیں، شاید یہی بات واحد اچھا شگون ہو!
ایسے حالات میں جب سپریم کورٹ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو ''لہولہان'' کر چکی ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ایک ڈیڑھ ہفتہ پرانے اس بیان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ صرف ایک حکومت نہیں جائے گی، دوسری حکومتوں کو بھی جانا ہو گا۔ ماضی میں یہ اختیار پاکستان آرمی کے پاس تھا کہ وہ مارشل لا لگاتی ہے اور عدلیہ اس کے حق حکمرانی کی تائید کر دیا کرتی تھی۔ نئے کھیل میں عدلیہ فرنٹ لائن پر ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے تازہ ترین بیان سے ظاہر ہے کہ فوج کسی ایک یا دوسرے ادارے کو اپنا اپنا آئین نافذ کرنے کی مزاحمت کرے گی۔
عام انتخابات یقینی بھی نظر آتے ہیں اور کچھ ایسے واقعات یا فیصلے بھی ہو رہے ہیں جو تمام اندازوں کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ پچھلے چند روز تک مسلم لیگ (ن) قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ الیکشن اگلے برس مئی کے شروع ہی میں ہوں۔ وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے بہت سے ترقیاتی کام مئی سے پہلے مکمل نہیں ہو سکیں گے اور مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ پنجاب میں اپنی انتخابی مہم پر ان منصوبوں کے سہرے باندھ کر نکلے۔ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے کوئی باضابطہ فیصلہ تو نہیں آیا تاہم پارٹی کے اہم عہدیدار مشاہد اﷲ خان نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ الیکشن جلد کرائے جائیں۔ جلد کا مطلب یہ ہے کہ حکومت آج کل میں انتخابی شیڈول کا اعلان کر دے تو یہ انتخابات فروری میں ہو جانے چاہئیں یا شیڈول کا اعلان اس سے کچھ آگے بڑھا دیا جائے تو مارچ میں ہو سکتے ہیں۔
مارچ اور مئی میں صرف دو مہینوں کا فرق ہے۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار کے لیے اچانک اتنی بے چین نہیں ہو سکتی کہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا مطالبہ شروع کر دے۔ جلد انتخابات کے مطالبے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حالات کے حوالے سے کچھ اندیشے لاحق ہو گئے ہیں کہ اگر مزید انتظار کیا گیا تو سسٹم خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتنے پر یقین ہیں کہ انھوں نے پچھلے چند ہفتوں میں غالباً چار پانچ بار یہ بات کہی اور کل پھر دہرائی ہے کہ اب آئین کو ماننے والے ہی حکومت کریں گے اور مارشل لا کا دروازہ ہمیشہ کیلیے بند ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی سوچ وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان سے جھلکتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات نہیں کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے پہلے توڑ دی جائیں۔ یعنی اسمبلیاں مدت پوری کریں گی اور الیکشن مئی میں ہوں گے۔ ان کے بیان سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ انھیں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ کو کیا خدشہ ہے؟ نظام خطرے میں پڑنے کا مفہوم تو کچھ بدل گیا ہے۔ اب یہ اندیشہ تو واقعی برائے نام ہے کہ مارشل لا لگ سکتا ہے لیکن ٹیکنو کریٹ یا احتسابی حکومت کے جو شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، ان کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مارشل لا لگائے بغیر بھی نظام کی شکل بدلی جا سکتی ہے۔
نظام جمہوری اور آئینی ہی رہے گا لیکن انتخابات ہوں گے نہ اسمبلیاں، یعنی یہ ایسا نظام ہو گا جس میں عدلیہ بھی ہو گی، آئین بھی برقرار رہے گا' حکومت بھی اوپر سے لے کر نیچے تک سول عناصر کی ہو گی، بس ایک پارلیمنٹ نہیں ہو گی۔ یعنی جمہوریت میں پارلیمنٹ منفی ہو جائے گی۔ یہ نظام، شوشہ چھوڑنے والوں کے مطابق، ایک یا دو بلکہ تین سال تک بھی رہ سکتا ہے اور اس عرصے میں کرپٹ سیاستدانوں ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، کا بھرپور احتساب کیا جا سکتا ہے۔
اس عمل میں جب قومی خزانہ لبالب بھر جائے گا تو صاف شفاف امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی اور منفی کی گئی پارلیمنٹ دوبارہ نظام میں جمع ہو جائے گی۔ شوشے چھوڑنے والے یہ نہیں بتاتے کہ منفی پارلیمنٹ والے جمہوری نظام کی آئینی گنجائش کیسے نکلے گی اور کون نکالے گا لیکن اطلاعات دینے والے حضرات کا کہنا ہے کہ ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا جا چکا ہے۔ آئینی گنجائش پیدا کرنے کا راز وقت پر کھلے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر سارے آئینی راستے بند ہونے کے باوجود تین سالہ احتسابی حکومت کی ''خبریں'' دینے والے حضرات اپنی خبروں کی صحت پر مصر ہیں تو شاید کچھ نہ کچھ پس پردہ چل ہی رہا ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو یکایک اندیشے لاحق کیوں ہو گئے۔
جبکہ یہ خبریں پہلے سے چل رہی ہیں اور مسلم لیگ ن بظاہر اب تک مطمئن بھی نظر آ رہی تھی۔ اندازہ یہی ہے کہ پہلے بلوچستان اور اب سندھ کی بدامنی کے کیس جس تیز رفتاری سے آگے بڑھے ہیں اور عدالت کے ریمارکس نے جو فضا پیدا کی ہے' مسلم لیگ ن انہی کی وجہ سے اندیشوں میں مبتلا ہوئی ہے۔ بلوچستان حکومت کا قصہ تو سب کے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ عملاً اسے کالعدم قرار دے چکی ہے اور اب تو اس کا سوال محض یہ ہے کہ جب یہ حکومت کالعدم ہو چکی ہے تو کام کیوں کر رہی ہے؟ اس نے گیند وفاقی حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی خطرے کا احساس ہو چکا ہے اور بلوچستان کے سیاسی سیٹ اپ کے اندر ہی اپ سیٹ کرنے والے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ اسپیکر کا موقف سب کے سامنے آ گیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کو متنازع سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے بعد سندھ حکومت کو بھی امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے نااہل کہا جا چکا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بدنیت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ صرف ریمارکس ہی نہیں' کراچی میں تمام مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن کا حکم بھی دیا جا چکا ہے۔ اب گروہوں میں جہاں طالبان اور دوسرے غیر سیاسی دہشت گرد یا جرائم پیشہ افراد شامل ہیں، وہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں کچھ مسلح گروہوں کا تعلق حکومتی اتحاد سے بھی ہو سکتا ہے۔ اب سندھ حکومت یا وفاق، کراچی میں آپریشن کرنے کا پابند ہے۔
آپریشن ہوتا ہے تو نہ صرف سیاسی الجھنیں پیدا ہوں گی بلکہ بدامنی کی ایک جو ابی لہر سارے سیاسی نظام کیلیے بھی خطرہ بن سکتی ہے اور اگر آپریشن نہیں کیا جاتا تو عدلیہ اور حکومت میں محاذ آرائی کا ایک نیا منظر نامہ سامنے آ سکتا ہے۔ چنانچہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس صورتحال کو خطر ناک سمجھ رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر کے اس الجھی ہوئی صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے یا اسے ٹالا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت کیا سمجھتی ہے' ابھی واضح نہیں۔ اس لیے کہ وزیراطلاعات کے بیان سے اس کا صرف اطمینان ظاہر ہوتا ہے جو بہر حال محض دکھاوے کا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ صورتحال سے خوف کا اظہار اپوزیشن تو کر سکتی ہے' حکومت نہیں کر سکتی۔ ممکن ہے وہ بھی خدشات کو سمجھ رہی ہو لیکن معاملہ اپنے انداز سے حل کرنا چاہتی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جلد ہی انتخابات کا اعلان کر دے لیکن جب تک وہ ایسا اعلان نہیں کرتی' یہی کہتی رہے گی کہ الیکشن وقت پر ہوں گے۔
صورتحال ایک اور حوالے سے بھی سنگین ہے۔ بلوچ رہنما طلال اکبر بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچ مسئلہ حل نہ ہوا تو اگلے سال پاکستان کے لیے بری خبر آ سکتی ہے۔ یعنی بری خبر سے بچنے کے لیے پاکستان کے پاس سال نہیں صرف چند مہینے ہیں۔ منظرنامہ تشویشناک ہے اور اطمینان کی بات صرف اتنی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے نازک وقت میں کھلی جنگ کی صورتحال نہیں، شاید یہی بات واحد اچھا شگون ہو!
ایسے حالات میں جب سپریم کورٹ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو ''لہولہان'' کر چکی ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ایک ڈیڑھ ہفتہ پرانے اس بیان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ صرف ایک حکومت نہیں جائے گی، دوسری حکومتوں کو بھی جانا ہو گا۔ ماضی میں یہ اختیار پاکستان آرمی کے پاس تھا کہ وہ مارشل لا لگاتی ہے اور عدلیہ اس کے حق حکمرانی کی تائید کر دیا کرتی تھی۔ نئے کھیل میں عدلیہ فرنٹ لائن پر ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے تازہ ترین بیان سے ظاہر ہے کہ فوج کسی ایک یا دوسرے ادارے کو اپنا اپنا آئین نافذ کرنے کی مزاحمت کرے گی۔