کمیونٹی پولیسنگ اعلانات تک محدود تاجروں کو دھمکیاں اور بھتے کی پرچیاں ملنے کا سلسلہ جاری

شہریوں کےپیسوں سےکمیونٹی پولیسنگ سینٹرزکےقیام کےباوجودپولیس بھتہ خوروں کی سرگرمیوں پرقابو پانےمیں بری طرح ناکام ہوگئی

بھتہ خوروں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائی کیلیے پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے صرف دعوے کیے گئے۔ فوٹو : ایکسپریس

تاجروں کو بھتہ خوروں کی جانب سے دھمکیاں اور پرچیاں ملنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

پولیس افسران کی جانب سے کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دینے کے بلند و بانگ دعوؤں اور شہریوں کے پیسوں سے قائم کی جانے والی کمیونٹی پولیسنگ سینٹرز کے قیام کے باوجود پولیس بھتہ خوروں کی سرگرمیوں پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوگئی جس کا واضح ثبوت تاجروںکی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال اوراعلیٰ ایوانوںکے باہر دھرنے کے اعلانات تھے جو اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت پر موخر کر دیا گیا جبکہ تاجروں کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ اولڈ سٹی ایریا میں اضافی نفری اورکمیونٹی پولیسنگ کے تحت چوکیاں قائم کی جائیں گی۔

تفتیشی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کی اضافی نفری اور پولیس چوکیوںکے قیام کے اعلانات محض ڈرامہ ہیں اور ایسے ڈرامے اس سے قبل بھی پولیس کی جانب سے شہر میںکیے جا چکے ہیں جیسے کہ اس سے قبل سابق آئی جی سندھ واجد درانی نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دینے اور جرائم پر قابو پانے کیلیے تھانوں کی سطح پر پولیس کمیونٹی سینٹرز قائم کرنے کا حکم دیا تھا ہر تھانے کی حدود میں 2 سے 4 پولیس کمیونٹی سینٹرز قائم کیے جائیں اور وہاں پر علیحدہ سے نفری کو تعینات کیا جائے۔


تاہم پولیس کی جانب سے ان کمیونٹی سینٹرز کو قائم کرنے کے لیے کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے اور ہر تھانیدار نے اپنے تھانے کے بیٹر (سرکاری بھتہ خور ) کو حکم دیا تھا کہ وہ رقم کا بندوبست کر کے فوری طور پر چوکیوں کا قیام عمل میں لائے جس کے بعد شہر بھر میںتھانوںکی سطح پر کمیونٹی پولیس سینٹرز کے قیام کا عمل شروع کر دیا جو کہ خالصتاً دکانداروں، تاجروں، فیکٹری مالکان، ٹھیلے والوں ، بلڈروں ، ٹیوشن سینٹرز ، پتھارے والوں اور علاقوں میں رہائش پذیر صاحب حیثیت افراد سے حاصل کی گئی بھاری رقم سے تیار کیے گئے تھے۔

جس میں سے کچھ تو مکمل تیار کرلیے گئے اور کچھ پولیس کمیونٹی سینٹرز کو چار دیواری بنا کر چھوڑ دیا گیا کہ اگر کوئی پوچھے گا تو فنڈر کی کمی کا بہانہ بنا دیا جائے گا ، تفتیشی افسر نے بتایا کہ عوام کی رقوم سے تیار کیے گئے پولیس کمیونٹی سینٹرز آج زبوں حالی کا شکار ہیں اور جس مقصد کے لیے قائم کی گئیں تھیں اس کا براہ راست نہ تو شہریوں کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی تاجروں کو ،ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایک بار پھر کمیونٹی پولیسنگ کا پرچار کرتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہے اولڈ سٹی ایریاز کو خصوصی توجہ دی جائے گی۔

واضح رہے کہ واجد درانی کے اس حکم نامے سے قبل سا بق آئی جی سندھ ضیاالحسن نے بھی تھانوں میں رپورٹنگ سینٹر کے قیام کے لیے ایک حکم جاری کیا تھا کہ تمام تھانوں میں ویل ڈیکوریٹ رپورٹنگ سینٹر جس میں اسپلٹ یونٹ (اے سی) ، شیشے والی میزیں اور آرام دہ کرسیاں اور صوفہ سیٹ موجود ہوں قائم کیا جائے تاکہ تھانوں میں اپنی شکایات لے کر آنے والے شہریوں پر پولیس کا اچھا تاثر ملے اور انھیں یہ پتہ نہ چلے کہ وہ کس تھانے میں آئے ہیں اس حکم پر بھی تمام تھانیداروں نے لبیک کہتے ہوئے اپنے اپنے تھانوں میں تزئین آرائش کے ساتھ رپورٹنگ سینٹر قائم کیے تھے اور وہ تمام سینٹرز بھی عوام، علاقے کے دکانداروں اور صاحب حیثیت افراد اسے رقم مانگ کر رپورٹنگ سینٹرز قائم کیے گئے تھے تاہم آج اگر ان رپورٹنگ سینٹرز کا دورہ کیا جائے انکی زبوں حالی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story