اوباما کی تقریر نے امریکی مسلمانوں کو حوصلہ دیا
گزشتہ کالم کو، جس کا موضوع یورپ امریکا میں رہنے والے مسلمان تھے
www.facebook.com/shah Naqvi
گزشتہ کالم کو، جس کا موضوع یورپ امریکا میں رہنے والے مسلمان تھے، بہت پسند کیا گیا۔ اندرون اور خاص طور پر بیرون ملک امریکا اور یورپ سے بہت ٹیلیفون آئے جس میں اس مسئلے پر حقیقت پسندانہ روشنی ڈالنے پر شکریہ ادا کیا گیا۔ میں خود کیونکہ ایک طویل عرصہ مغرب میں رہا ہوں تو ان مسلمانوں کے مسئلے کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں جو اب وہاں کے شہری بننے کے باوجود دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ ایک طرف ان کی مادر وطن سے محبت ان کو اپنی طرف کھینچتی ہے تو دوسری طرف یورپ امریکا کی آسائشیں سہولتیں ان کی واپسی میں رکاوٹ ہیں۔
اپنے وطن میں اگر ان کی اکثریت ہر طرح کے معاشی، سیاسی، سماجی اور مذہبی عدم تحفظ کا شکار ہے، یہاں تک کہ وہ بعض صورتوں میں اپنے گھروں میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ حقیقت میں جو مذہبی حقوق انھیں امریکا یورپ میں حاصل ہیں وہ حقوق انھیں اپنے آبائی مسلمان ملکوں میں بھی حاصل نہیں لیکن یہ صورت حال اب بہت تیزی سے بدل رہی ہے جب سے یورپ امریکا میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ وہاں بھی مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گئے ہیں۔
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد مقامی آبادی کی نگاہوں میں ان کے خلاف نفرت حقارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں مقیم مسلمان گھروں سے باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں کہ ان کے سوالوں کا جواب کیسے دیں گے۔ دہشت گردی چند ایک مٹھی بھر افراد کرتے ہیں لیکن مقامی آبادی کی نظر میں مسلمانوں کی اکثریت اس کی قصوروار ٹھہرتی ہے کیونکہ ان کے درمیان موجود دہشت گردوں سے ان کی لاعلمی ان کا جرم بن جاتی ہے۔ اسی حقیقت کی صدر اوباما نے بھی نشان دہی کی جب انھوں نے پہلی مرتبہ اپنے دور صدارت میں کسی امریکی مسجد کا دورہ کیا جو بالٹی مور میں واقعہ ہے۔
اس دورے میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات پر اسلام کی غلط تصویر پیش کی گئی حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہی انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا مسلمان امریکی معاشرے کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کو مسترد کر دینا چاہیے۔ اس موقعہ پر مسلم کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ مسلم کمیونٹی امریکی فیملی کا حصہ ہے۔
ہماری خوشیاں اور تکالیف مشترکہ ہیں۔ اسلام امن کا مذہب اور ہمیشہ سے امریکا کا حصہ ہے۔ داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو مذہب کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں اسلام کا غلط تصویر پیش کر رہی ہیں۔ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے میں نہیں آنا چاہیے۔ ایک مذہب پر حملہ تمام مذاہب پر حملہ ہے۔ صدر اوباما کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکا میں جو متعصب لوگ اسلام پر بلاجواز حملہ کر رہے ہیں دراصل وہ عیسائیت یہودیت سمیت دنیا کے تمام مذاہب پر حملہ کر رہے ہیں۔
اوباما نے کہا کہ امریکی معاشرے میں تعصب کی کوئی گنجائش نہیں۔ امریکا کی ترقی میں مسلم کمیونٹی کا اہم کردار ہے۔ مسلمان امریکا میں بطور ڈاکٹر، استاد اور سائنسدان کے علاوہ پولیس، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں سمیت مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ صدر اوباما نے اس بات پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مذاہب کا تحفظ اور احترام امریکا کے آئین میں شامل ہے۔ ان کے دورے کا مقصد مسلمانوں اور دوسری کمیونٹیوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
امریکا کو متحد رکھنے کے کردار پر انھوں نے امریکی مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا مساجد نے بھی ملک کی خدمت کی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کو مسترد کر دینا چاہیے۔ ان کا اشارہ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف تھا جو مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلا کر دائیں بازو کے انتہا پسند امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت کی بی جے پی ہو یا امریکی انتہا پسند دونوں کے طریقہ کار میں حیرت انگیز مماثلت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ووٹ حاصل کیے جائیں۔ امریکی مسلمانوں کے معاشرے میں مثبت کردار پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ صدر اوباما کو اس خطاب کی دعوت ریاست اوہائیو کی تیرہ سالہ سیاہ فام مسلمان طالبہ صبا نے دی۔ خطاب سے پہلے صدر اوباما نے امریکی مسلمان رہنماؤں کے ساتھ ایک راؤنڈ ٹیبل گفتگو میں حصہ لیا۔
صدر اوباما کی تقریر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے خاص طور پر اس موقع پر کہ جب کہ امریکی مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں ان کی اس تقریر نے ان کو بڑا حوصلہ دیا ہے۔ میرے سامنے وہ تصویر ہے جس میں اوباما امریکی مسلمان عورتوں مردوں بچوں اور بچیوں سے مخاطب ہیں۔ ان کی نگاہوں میں اوباما کے لیے تحسین و آفریں تشکر ہے کہ اس برے وقت میں ایک ایسے شخص کی حمایت جو امریکی صدر ہے ایک انتہائی غیر معمولی تاریخی بات ہے لیکن یہ اوباما کی مدت صدارت کا آخری سال ہے۔
جیسے جیسے یہ سال گزرتا جائے گا ان کی طاقت کم ہوتی جائے گی۔ نہ ہی یہ ہو گا کہ ان کی تقریر سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کم ہو جائے گا۔ تعصب کا تو یہ عالم ہے کہ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 61 فیصد امریکی اوباما کو مسلمان اور غیر امریکی سمجھتے ہیں جو امریکا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ بارک حسین اوباما، جس کا پس منظر مسلمان اور سیاہ فام بھی ہو، امریکی صدر منتخب ہو جانا امریکی مذہبی انتہا پسندوں کی موجودگی میں' معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ معجزہ صرف امریکا میں ہی ہو سکتا تھا' کہیں اور نہیں۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ایک سیاہ فام کو جس کا باپ مسلمان تھا امریکی صدر بننے دیا کیونکہ اس سے پہلے بش سینئر اور جونیئر کی جنگ جویانہ پالیسیوں سے دنیا میں امریکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ اس کی تلافی کے لیے اوباما کو استعمال کیا گیا۔ اس ساکھ کی بحالی ہی تھی جس کے لیے اوباما کو مصر کی تاریخی درسگاہ جامعہ ازہر میں خطاب کرنا پڑا۔
فروری کے آخر اور مارچ کے شروع سے موجودہ سیاست کے لیے اہم وقت شروع ہو جائے گا۔