قلم نہیں اسلحہ
جس وقت ڈاکٹر عبدالوہاب جامعہ کراچی میں بطور شیخ الجامعہ مقرر ہوئے تو ان کے سامنے کئی ایک بڑے مسائل تھے
جس وقت ڈاکٹر عبدالوہاب جامعہ کراچی میں بطور شیخ الجامعہ مقرر ہوئے تو ان کے سامنے کئی ایک بڑے مسائل تھے، ان مسائل میں ایک خطرناک اور بڑا مسئلہ ہاسٹل میں مقیم طلبا کا تھا کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ ناقابل حل تصور کیا جانے لگا تھا۔ یہ مسئلہ ان کی قوت کا تھا جس کا ناجائز استعمال جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو چیلنج کررہا ہے۔ یقیناً ہاسٹل میں مقیم طلبا کی ایک بڑی تعداد پرامن اور پڑھنے والی ہوتی ہے مگر مٹھی بھر طلبا بھی کسی مافیا کی شکل اختیار کرلیں تو ان سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی کچھ حال جامعہ کراچی کے ہاسٹل میں مقیم طلبا کے حوالے سے ہوچکا تھا۔ جہاں اسلحہ اور منشیات کا ہونا کوئی انہونی بات نہ تھی۔
یوں یہ مسئلہ ہاسٹل میں مقیم پرامن اور پڑھنے کی جستجو رکھنے والے طلبا کے لیے بھی اور انتظامیہ کے لیے بھی تکلیف کا باعث تھا مگر اس کو حل کرنا آسان نہ تھا، بہرکیف جب ڈاکٹر عبدالوہاب شیخ الجامعہ بن گئے تو انھوں نے ہاسٹل میں مقیم طلبا کے خلاف سخت ایکشن لیا اور فوراً ہاسٹل خالی کراکر ہی دم لیا۔ نتیجے میں کچھ طلبا کو جامعہ کراچی کے باہر سڑک پر رات بھی گزارنا پڑی لیکن اس سخت ایکشن کی وجہ سے جامعہ کراچی کے ہاسٹل ایک بڑی مافیا اور برائی سے پاک ہوگئے۔ جامعہ کراچی کے بعض ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالوہاب اس وقت یہ قدم نہ اٹھاتے تو آج ہمارے اساتذہ اور پرامن طلبا کی عزتیں بھی محفوظ نہ ہوتیں۔
بہرکیف یہ سہرا ڈاکٹر عبدالوہاب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ کو ہاسٹل مافیا سے نجات دلاکر اسلحے سے پاک کردیا۔ یہ ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ ہم نے آج تک تمام ہی بزرگوں سے سنا ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں قلم ہونا چاہیے۔ یہی قلم ہماری قوم کی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔
جہاں تک راقم کی یادداشت کا تعلق ہے اس کے مطابق ہمارے ہاں کئی سیاسی جماعتیں بھی یہ نعرہ لگاتی رہی ہیں کہ ''اسلحہ نہیں قلم'' اکبر الٰہ آبادی بھی ہمیں توپ کے مقابلے میں کتاب کی تلقین کرگئے۔ بلاشبہ کتاب اور قلم کی ضرورت ہمارے معاشرے میں اب پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے، خصوصاً افغانستان میں روسی مداخلت اور امریکا کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو تبدیلی آئی اس کا ایک خاص حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اسلحہ باآسانی پھیل گیا اور قانون پر عمل نہ ہونے کے باعث طالب علموں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں بھی آگیا۔
اتنی طویل تمہید باندھنے کی وجہ صوبہ پختونخوا میں انتظامیہ کی جانب سے ایک خطرناک فیصلے کی جانب توجہ دلانا مقصود تھا۔ معلوم ہوا کہ چارسدہ میں جامعہ پر حملے کے بعد ایک اعلیٰ پولیس افسر نے طلبا کو بھی اسلحہ رکھنے کی تلقین کی اور انھیں بغیر لائسنس کا اسلحہ فراہم کرنے کی پالیسی بھی بیان کر ڈالی۔
اگر سطحی نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ بظاہر بہت اچھا ہے کہ جب کوئی آپ کو مارنے آئے گا تو آپ بھی جواباً فائر کرکے اسے ڈرا کر بھگا سکتے ہیں یا مار سکتے ہیں لیکن کیا ہم نے غور کیا کہ ہم کن لوگوں سے بچنے کے لیے یہ پالیسی اپنا رہے ہیں اور یہ پالیسی کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
آیئے مذکورہ بالا تین سوالوں کے جوابات پر غور کریں۔
(1) جن حملہ آوروںسے بچنے کے لیے طلبا کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے وہ خودکش حملہ آور ہیں یعنی صرف مارنے کے لیے ہی نہیں آتے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیاری کرکے آتے ہیں، لہٰذا کوئی طالب علم کسی آنے والے خودکش حملہ آور کو پستول تان کر للکارے گا تو کیا وہ بھاگ جائے گا؟
(2) دوسرا سوال یہ کہ ہم کن حملہ آوروں سے بچنا چاہ رہے ہیں؟ وہ جن پر طالبان نام کا لیبل لگا ہے اور وہ جو سرحد پار سے آتے ہیں؟ اور وہ جو بھارت، افغانستان وغیرہ کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں؟ اگر ان حملہ آوروں کو روکنا ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ طلبا کو پستول دینے سے مسئلہ حل نہ ہوگا بلکہ ان قوتوں سے بات چیت کرنا ہوگی جو بات چیت سے نہ مانے ان سے سیاسی حکمت عملی کے تحت نمٹنا ہوگا۔ (مثلاً بھارت نے بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے تعاون سے سکھوں کی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا) پھر جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خودکش حملہ آوروں کو سرحد پار سے بھی کنٹرول کیا جارہا ہے تو آخر سرحد پر باڑ لگانے کے لیے افغانستان اور امریکا پر بھرپور زور کیوں نہیں ڈالتے جب کہ ہم سمجھتے بھی ہیں کہ باڑ لگنے کے بعد بہت حد تک غیر قانونی اور چوری چھپے سرحد پار سے آنے والوں کی روک تھام ہوسکے گی۔
تیسرا اہم ترین سوال مستقبل کے حوالے سے جنم لیتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی طلبا کے ہاتھوں میں اسلحہ دے دیا تو ہم اسے صرف خودکش حملہ آوروں کے خلاف استعمال کرنے سے کس حد تک روک سکیںگے؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اسلحہ کے بغیر ہی طلبا تنظیموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھمسان کی جنگ شروع ہوجاتی ہے اور انتہائی وحشیانہ طریقوں سے طلبا ایک دوسرے پر تشدد کرتے ہیں۔ راقم کا آنکھوں دیکھا منظر ہے کہ جب ایک طالب علم ایک بڑی سی لکڑی سے دوسرے طالب علم کو نشانہ بنارہا تھا اور یہ بات کوئی راز نہیں کہ اس قسم کی لکڑیوں میں یہ طلبا بڑی بڑی نوکیلی کیلیں لگا کر رکھتے ہیں کہ جب مخالف طلبا کے جسم پر ضرب لگے تو نوکیلی کیل کئی انچ ان کے جسم میں گھس جائے اور مار کھانے والے کو زیادہ تکلیف ہو۔
تھوڑی دیر کو تصور کیجیے ایسے طلبا کے ہاتھوں میں جب اسلحہ آئے گا تو پھر کیا ہوگا؟ پچھلی دہائی میں جامعہ کراچی کا وہ واقعہ ذرا تازہ کیجیے کہ جب چند طالب علموں پر فائرنگ کرکے ان کے بھیجے اڑا دیے گئے تھے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب طالب علموں کے ہاتھوں میں اسلحہ ہوگا تو ایک استاد سارا سال خوف کے ماحول کا یرغمال رہے گا، کس استاد کی ہمت ہوگی کہ وہ کسی طالب علم کو فیل ہونے کے باوجود فیل قرار دے دے؟ یا ان کی اخلاقی تربیت کی کوشش بھی کرے۔ ایسے ماحول میں تو ایک استاد کے لیے اپنی عزت بچالینا بھی بڑا مسئلہ ہوگا۔ کیا ہم طلبا میں اسلحہ تقسیم کرکے پرامن پڑھنے والے طلبا، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے پرامن ماحول کو آتش فشاں بنانے کی طرف قدم نہیں بڑھا رہے؟ کیا ہم نے اپنے برسوں کا نظریہ ''اسلحہ نہیں قلم'' محض چند دہشت گردوں کے باعث بدل دیا ہے؟ کیا اب ہم نئی نسل کو یہ نعرہ دیںگے ''قلم نہیں اسلحہ؟'' آیئے غور کریں!
یوں یہ مسئلہ ہاسٹل میں مقیم پرامن اور پڑھنے کی جستجو رکھنے والے طلبا کے لیے بھی اور انتظامیہ کے لیے بھی تکلیف کا باعث تھا مگر اس کو حل کرنا آسان نہ تھا، بہرکیف جب ڈاکٹر عبدالوہاب شیخ الجامعہ بن گئے تو انھوں نے ہاسٹل میں مقیم طلبا کے خلاف سخت ایکشن لیا اور فوراً ہاسٹل خالی کراکر ہی دم لیا۔ نتیجے میں کچھ طلبا کو جامعہ کراچی کے باہر سڑک پر رات بھی گزارنا پڑی لیکن اس سخت ایکشن کی وجہ سے جامعہ کراچی کے ہاسٹل ایک بڑی مافیا اور برائی سے پاک ہوگئے۔ جامعہ کراچی کے بعض ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالوہاب اس وقت یہ قدم نہ اٹھاتے تو آج ہمارے اساتذہ اور پرامن طلبا کی عزتیں بھی محفوظ نہ ہوتیں۔
بہرکیف یہ سہرا ڈاکٹر عبدالوہاب کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ کو ہاسٹل مافیا سے نجات دلاکر اسلحے سے پاک کردیا۔ یہ ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ ہم نے آج تک تمام ہی بزرگوں سے سنا ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں قلم ہونا چاہیے۔ یہی قلم ہماری قوم کی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔
جہاں تک راقم کی یادداشت کا تعلق ہے اس کے مطابق ہمارے ہاں کئی سیاسی جماعتیں بھی یہ نعرہ لگاتی رہی ہیں کہ ''اسلحہ نہیں قلم'' اکبر الٰہ آبادی بھی ہمیں توپ کے مقابلے میں کتاب کی تلقین کرگئے۔ بلاشبہ کتاب اور قلم کی ضرورت ہمارے معاشرے میں اب پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے، خصوصاً افغانستان میں روسی مداخلت اور امریکا کی پالیسیوں کے نتیجے میں جو تبدیلی آئی اس کا ایک خاص حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اسلحہ باآسانی پھیل گیا اور قانون پر عمل نہ ہونے کے باعث طالب علموں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں بھی آگیا۔
اتنی طویل تمہید باندھنے کی وجہ صوبہ پختونخوا میں انتظامیہ کی جانب سے ایک خطرناک فیصلے کی جانب توجہ دلانا مقصود تھا۔ معلوم ہوا کہ چارسدہ میں جامعہ پر حملے کے بعد ایک اعلیٰ پولیس افسر نے طلبا کو بھی اسلحہ رکھنے کی تلقین کی اور انھیں بغیر لائسنس کا اسلحہ فراہم کرنے کی پالیسی بھی بیان کر ڈالی۔
اگر سطحی نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ بظاہر بہت اچھا ہے کہ جب کوئی آپ کو مارنے آئے گا تو آپ بھی جواباً فائر کرکے اسے ڈرا کر بھگا سکتے ہیں یا مار سکتے ہیں لیکن کیا ہم نے غور کیا کہ ہم کن لوگوں سے بچنے کے لیے یہ پالیسی اپنا رہے ہیں اور یہ پالیسی کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
آیئے مذکورہ بالا تین سوالوں کے جوابات پر غور کریں۔
(1) جن حملہ آوروںسے بچنے کے لیے طلبا کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے وہ خودکش حملہ آور ہیں یعنی صرف مارنے کے لیے ہی نہیں آتے بلکہ مرنے کے لیے بھی تیاری کرکے آتے ہیں، لہٰذا کوئی طالب علم کسی آنے والے خودکش حملہ آور کو پستول تان کر للکارے گا تو کیا وہ بھاگ جائے گا؟
(2) دوسرا سوال یہ کہ ہم کن حملہ آوروں سے بچنا چاہ رہے ہیں؟ وہ جن پر طالبان نام کا لیبل لگا ہے اور وہ جو سرحد پار سے آتے ہیں؟ اور وہ جو بھارت، افغانستان وغیرہ کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں؟ اگر ان حملہ آوروں کو روکنا ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ طلبا کو پستول دینے سے مسئلہ حل نہ ہوگا بلکہ ان قوتوں سے بات چیت کرنا ہوگی جو بات چیت سے نہ مانے ان سے سیاسی حکمت عملی کے تحت نمٹنا ہوگا۔ (مثلاً بھارت نے بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے تعاون سے سکھوں کی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا) پھر جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خودکش حملہ آوروں کو سرحد پار سے بھی کنٹرول کیا جارہا ہے تو آخر سرحد پر باڑ لگانے کے لیے افغانستان اور امریکا پر بھرپور زور کیوں نہیں ڈالتے جب کہ ہم سمجھتے بھی ہیں کہ باڑ لگنے کے بعد بہت حد تک غیر قانونی اور چوری چھپے سرحد پار سے آنے والوں کی روک تھام ہوسکے گی۔
تیسرا اہم ترین سوال مستقبل کے حوالے سے جنم لیتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی طلبا کے ہاتھوں میں اسلحہ دے دیا تو ہم اسے صرف خودکش حملہ آوروں کے خلاف استعمال کرنے سے کس حد تک روک سکیںگے؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اسلحہ کے بغیر ہی طلبا تنظیموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھمسان کی جنگ شروع ہوجاتی ہے اور انتہائی وحشیانہ طریقوں سے طلبا ایک دوسرے پر تشدد کرتے ہیں۔ راقم کا آنکھوں دیکھا منظر ہے کہ جب ایک طالب علم ایک بڑی سی لکڑی سے دوسرے طالب علم کو نشانہ بنارہا تھا اور یہ بات کوئی راز نہیں کہ اس قسم کی لکڑیوں میں یہ طلبا بڑی بڑی نوکیلی کیلیں لگا کر رکھتے ہیں کہ جب مخالف طلبا کے جسم پر ضرب لگے تو نوکیلی کیل کئی انچ ان کے جسم میں گھس جائے اور مار کھانے والے کو زیادہ تکلیف ہو۔
تھوڑی دیر کو تصور کیجیے ایسے طلبا کے ہاتھوں میں جب اسلحہ آئے گا تو پھر کیا ہوگا؟ پچھلی دہائی میں جامعہ کراچی کا وہ واقعہ ذرا تازہ کیجیے کہ جب چند طالب علموں پر فائرنگ کرکے ان کے بھیجے اڑا دیے گئے تھے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب طالب علموں کے ہاتھوں میں اسلحہ ہوگا تو ایک استاد سارا سال خوف کے ماحول کا یرغمال رہے گا، کس استاد کی ہمت ہوگی کہ وہ کسی طالب علم کو فیل ہونے کے باوجود فیل قرار دے دے؟ یا ان کی اخلاقی تربیت کی کوشش بھی کرے۔ ایسے ماحول میں تو ایک استاد کے لیے اپنی عزت بچالینا بھی بڑا مسئلہ ہوگا۔ کیا ہم طلبا میں اسلحہ تقسیم کرکے پرامن پڑھنے والے طلبا، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے پرامن ماحول کو آتش فشاں بنانے کی طرف قدم نہیں بڑھا رہے؟ کیا ہم نے اپنے برسوں کا نظریہ ''اسلحہ نہیں قلم'' محض چند دہشت گردوں کے باعث بدل دیا ہے؟ کیا اب ہم نئی نسل کو یہ نعرہ دیںگے ''قلم نہیں اسلحہ؟'' آیئے غور کریں!