جوان سے جنرل تک
آج کی کہانی جنرل موسیٰ کی کہانی ہے۔ یہ نام سن کر بزرگوں کو اپنا بچپن یاد آگیا ہوگا
سیڑھی کے پہلے پائیدان سے سفر شروع کرنے والا اگر اونچائی پر پہنچ جائے تو یہ لمحہ اس کی زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ ہوتا ہے، کلرک سے افسری کا اعلیٰ مقام ہو یا سول جج سے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ہو یا کوئی چھابڑی والا گروپ آف انڈسٹریز کا چیئرمین بن جائے یا کوئی جوان سے فور اسٹار جنرل بن کر فوج کی قیادت کرے تو یہ خوشی بھی ہوگی اور اعزاز بھی۔
آج کی کہانی جنرل موسیٰ کی کہانی ہے۔ یہ نام سن کر بزرگوں کو اپنا بچپن یاد آگیا ہوگا۔ یزدان بخش کے بیٹے نے بطور ایک فوجی جوان کے برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کی اور ایوب خان کے صدر بنتے ہی جنرل موسیٰ پاکستان کی بری فوج کے کمانڈر ان چیف بن گئے۔ ان کی کتاب Jawan To General میں عوامی اور تاریخی دلچسپی کے علاوہ دو سبق بھی پوشیدہ ہیں، سیاسی اتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ کی کتاب زندگی کی عمدہ کہانی اور پھر دو خوب صورت سبق۔
آج کی لبرل اور ماڈرن خواتین کے لیے خوشی اور غم لیے ہوئے یہ قصہ محمد موسیٰ کی فوجی زندگی کے پاکستانی دور کا قصہ ہے۔ پہلے ہم تحریک پاکستان کے حوالے سے مصنف کا پیش کردہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ پھر خواتین کی طرف آتے ہیں۔ لیڈیزفرسٹ تو ہونا چاہیے لیکن کیا کریں کہ ترتیب میں مردانہ واقعہ پہلے آرہاہے۔ اکتوبر 46 میں ہمارے کالم کے ہیرو کو نئی دہلی بھجوایا گیا۔ میجر موسیٰ کو اس کمیٹی کا نائب سیکریٹری بنایا گیا جسے برٹش فوج کو رپورٹ دینی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما نواب محمد اسماعیل خان اس کمیٹی کے سویلین ممبر تھے۔ مصنف کہتے ہیں کہ کمیٹی کی سفارشات مسلمانوں کے مفادات کے خلاف جارہی تھیں۔ سینئر موسٹ مسلم افسر بریگیڈیئر محمد اکبر خان تھے جو سن پچاس میں بطور میجر جنرل کے ریٹائرڈ ہوئے، ''میں نواب اسماعیل سے دو دفعہ ہوٹل میں ملاکہ سینئر مسلم افسران بہتر مواقع سے محروم نہ رہیں'' ہماری قومی تاریخ نواب محمد اسماعیل خان سے انصاف کررہی ہے؟
جولائی 48 میں محمد موسیٰ کو پاکستان نیشنل گارڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انفینٹری بریگیڈ کی کمان نہ ملنے پر وہ خوش نہ تھے۔ گارڈ کا دوسرا حصہ خواتین پر مشتمل ہونا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی اس معاملے میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ میں اس عہدے پر خوش نہ تھا کہ میرا خاندان قبائلی روایات کا امین ہے، کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ''ویمن نیشنل گارڈ میں آپ کے گھرانے کی خواتین نہیں تو آپ دوسروں کو شمولیت کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟'' اس دوران تین سو خواتین کی پریڈ ہوئی۔ میں نے ان سے کہاکہ شادی شدہ خواتین کو اپنے خاندان، خاوند اور بچوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ خدا پاکستان کو محفوظ رکھے۔ ہماری مین پاور اس وطن کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم نے پنڈی کا دورہ کیا، ان کے ساتھ جنرل گریسی بھی تھے۔ انھوں نے اسٹیج پر اطلاع دی کہ مجھے کوئٹہ میں بریگیڈیئر کے طور پر بھیجا جارہاہے۔
مشرقی پاکستان میں میجر جنرل موسیٰ کو ترقی دے کر بھیجا گیا، اس دوران میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی بات ہورہی تھی۔ اخبارات جارحانہ خبریں شایع کرتے کہ بنگال کی حکومت نے مغربی پاکستان کے سپاہیوں کو فری ہینڈ دیا ہے۔ میں نے اخبارات کے مدیروں کو چائے پر بلایا۔ انھیں پیشکش کی کہ اگر فوج کے کسی جوان یا افسر نے زیادتی کی تو ہم اس کو سزا دیںگے۔ اس ملاقات کا اثر یہ ہوا کہ اب اخبارات ہمیں فرشتہ بناکر پیش کرتے۔ میں نے اسٹاف کے ذریعے اخبارات کو تجویز دی کہ وہ حقیقت بیان کریں۔ ڈھاکا یونیورسٹی کو حکومت مخالف تقریروں کے لیے استعمال کیا جاتا۔
کمیونسٹوں کا شایع شدہ مواد کلکتہ سے آتا۔ فروری 52 میں میکل کالج کے احاطے میں طلبہ شہید ہوئے تھے۔ ہجوم یادگار پر آتا اور مسلم وغیر مسلم طلبہ وطالبات وہاں دعائیں مانگتے۔ تخریب کار اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کرنل آفریدی نے رات کے وقت وہ یادگار ہٹا دی۔ یوں حکومت کو دردسری سے نجات ملی، نور الامین انتظامیہ کی سفارش پر مرکزی حکومت نے پاکستان کو دو قومی زبانوں کا ملک قرار دیا۔ بنگالیوں کی پاک فوج میں شمولیت کی حوصلہ افزائی اور بھارت کو پٹ سن کی اسمگلنگ پر بھی مصنف نے گفتگو کی ہے۔
گورنر جنرل غلام محمد اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے بارے میں بھی جنرل موسیٰ نے پورا ایک باب تحریر کیا ہے، ان دنوں وہ ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ آئین ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کم کردیے تھے۔ محمد علی بوگرہ نے جنرل موسیٰ کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کو آج صبح کی اہم پیش رفت کا علم ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا، وزیراعظم نے مجھے گزٹ آف پاکستان کی کاپی دی۔ میں نے کہاکہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ پاک آرمی کیا سوچ رہی ہے۔ میرے لیے یہ عجیب صورت حال تھی۔ سربراہ مملکت اور وزیراعظم کے جھگڑے سے فوج کا کیا تعلق؟ بعد میں ایوب خان نے میرے اس جواب کو سراہا۔ بوگرہ کو خطرہ تھا کہ غیر ملکی دورے سے واپسی پر انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ مجھے ان کے ملٹری سیکریٹری نے مطلع کیا۔ ایوب خان اور اسکندر مرزا کی ہدایت پر تحفظ کا انتظام کیا گیا۔
اسکندر مرزا قائم مقام گورنر جنرل بن گئے۔ تقریب حلف برداری کے دوران قائد حزب اختلاف حسین شہید سہروردی نے مجھ سے کہاکہ ملکی معاملات پر فوج کی گرفت بڑھتی جارہی ہے۔ سہروردی جیسے بڑے سیاست دان سے مجھے یہ توقع نہ تھی۔ مارچ 57 میں جنرل موسیٰ کو چیف آف اسٹاف کے عہدے پر ترقی دی گئی کچھ مہینوں بعد افغانستان کا دورہ کیا۔ وہاں کے بادشاہ ظاہر شاہ اور وزیراعظم سردار داؤد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اچھے تعلقات قائم کرنے کی بات کی تو سردار داؤد نے کہاکہ ''جب دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تنازعہ طے ہوجائے'' ان کا اشارہ ڈیورنڈ لائن کی طرف تھا۔ ایک سال بعد اسکندر مرزا نے سیاسی پارٹیوں کے اختلاف کو جواز بناکر مارشل لاء لگادیا۔
ایوب خان بھی گلگت سے پنڈی اور پھر کراچی آگئے۔ ان کے ساتھ میجر جنرل یحییٰ خان اور عبدالحمید تھے۔ میں پنڈی میں 25 اکتوبر تک رہا اور مارشل لاء کے ان دنوں کے معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگلے دن ایوب خان نے ملنے کا پیغام دیا۔ مجھے کمانڈر ان چیف بنانے کا فیصلہ کیا گیا دو دن بعد اسکندر مرزا کو کوئٹہ بھیج دیاگیا اور ایوب نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے۔
جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ ''اﷲ کی مہربانی سے پیشہ ورانہ سیڑھی کی اونچائی تک پہنچا'' وہ آٹھ سال تک آرمی کے کمانڈر ان چیف رہے اس دوران جنگ ستمبر بھی ہوئی جس پر ان کی کتاب ''مائی ویژن'' ہے۔ یحییٰ خان کو لیفٹیننٹ جنرل بناکر گجرات بھیجا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وہ اگلے چھ ماہ بعد پاک فوج کے کمانڈر ان چیف ہوںگے۔
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کی جگہ جنرل (ر) محمد موسیٰ کو مغربی پاکستان کا گورنر بنایاگیا۔ وہ ایوب دور کے ''عشرہ اصلاحات'' کے خلاف تھے۔ ایک سال کے پروپیگنڈے سے لوگ بور ہوجائیںگے جب کہ ترقی کے حوالے سے وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ ایوب کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 25 مارچ 69 کو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا جنرل موسیٰ نے یہ خبر ریڈیو پر سنی کہ پانچ دن قبل ان کی جگہ یوسف ہارون نے لی تھی۔ مصنف ان واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ وہ اپنی کتاب میں ستر (70) کے انتخابات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں انھیں بلوچستان کا گورنر بنایاگیا۔
دو سبق کیا ہیں؟ تقریر اور تدبیر کا خوب صورت امتزاج ہو تو انسان سیڑھی کے پہلے پائیدان سے آخر تک پہنچتا ہے، ان میں خرابی پیدا ہوجائے تو سانپ کے ڈسنے پر نیچے آجاتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جنرل موسیٰ ایک پروفیشنل سولجر تھے، خالصتاً پیشہ ور سپاہی وہ انتہائی عزت کے ساتھ ایک خوب صورت زندگی گزار کر رخصت ہوئے، جنرل یحییٰ خان ان کے نقش قدم پر چلتے تو پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی، ڈھائی سو صفحات کی کتاب کے سمندر کو کالم کے کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے نہ جانے اس کتاب کا اردو ترجمہ ہوا بھی ہے؟ کوشش کی ہے کہ ایسے واقعات چنے جائیں جن میں عوام کی دلچسپی ہو اور وہ اہل علم کی بڑی تعداد سے پوشیدہ ہوں، افواج پاکستان کے ہر افسر کی لائبریری میں ہونی چاہیے جنرل محمد موسیٰ کی کتاب Jawan To General۔
آج کی کہانی جنرل موسیٰ کی کہانی ہے۔ یہ نام سن کر بزرگوں کو اپنا بچپن یاد آگیا ہوگا۔ یزدان بخش کے بیٹے نے بطور ایک فوجی جوان کے برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کی اور ایوب خان کے صدر بنتے ہی جنرل موسیٰ پاکستان کی بری فوج کے کمانڈر ان چیف بن گئے۔ ان کی کتاب Jawan To General میں عوامی اور تاریخی دلچسپی کے علاوہ دو سبق بھی پوشیدہ ہیں، سیاسی اتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ کی کتاب زندگی کی عمدہ کہانی اور پھر دو خوب صورت سبق۔
آج کی لبرل اور ماڈرن خواتین کے لیے خوشی اور غم لیے ہوئے یہ قصہ محمد موسیٰ کی فوجی زندگی کے پاکستانی دور کا قصہ ہے۔ پہلے ہم تحریک پاکستان کے حوالے سے مصنف کا پیش کردہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ پھر خواتین کی طرف آتے ہیں۔ لیڈیزفرسٹ تو ہونا چاہیے لیکن کیا کریں کہ ترتیب میں مردانہ واقعہ پہلے آرہاہے۔ اکتوبر 46 میں ہمارے کالم کے ہیرو کو نئی دہلی بھجوایا گیا۔ میجر موسیٰ کو اس کمیٹی کا نائب سیکریٹری بنایا گیا جسے برٹش فوج کو رپورٹ دینی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما نواب محمد اسماعیل خان اس کمیٹی کے سویلین ممبر تھے۔ مصنف کہتے ہیں کہ کمیٹی کی سفارشات مسلمانوں کے مفادات کے خلاف جارہی تھیں۔ سینئر موسٹ مسلم افسر بریگیڈیئر محمد اکبر خان تھے جو سن پچاس میں بطور میجر جنرل کے ریٹائرڈ ہوئے، ''میں نواب اسماعیل سے دو دفعہ ہوٹل میں ملاکہ سینئر مسلم افسران بہتر مواقع سے محروم نہ رہیں'' ہماری قومی تاریخ نواب محمد اسماعیل خان سے انصاف کررہی ہے؟
جولائی 48 میں محمد موسیٰ کو پاکستان نیشنل گارڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انفینٹری بریگیڈ کی کمان نہ ملنے پر وہ خوش نہ تھے۔ گارڈ کا دوسرا حصہ خواتین پر مشتمل ہونا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی اس معاملے میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ میں اس عہدے پر خوش نہ تھا کہ میرا خاندان قبائلی روایات کا امین ہے، کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ''ویمن نیشنل گارڈ میں آپ کے گھرانے کی خواتین نہیں تو آپ دوسروں کو شمولیت کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟'' اس دوران تین سو خواتین کی پریڈ ہوئی۔ میں نے ان سے کہاکہ شادی شدہ خواتین کو اپنے خاندان، خاوند اور بچوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ خدا پاکستان کو محفوظ رکھے۔ ہماری مین پاور اس وطن کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم نے پنڈی کا دورہ کیا، ان کے ساتھ جنرل گریسی بھی تھے۔ انھوں نے اسٹیج پر اطلاع دی کہ مجھے کوئٹہ میں بریگیڈیئر کے طور پر بھیجا جارہاہے۔
مشرقی پاکستان میں میجر جنرل موسیٰ کو ترقی دے کر بھیجا گیا، اس دوران میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی بات ہورہی تھی۔ اخبارات جارحانہ خبریں شایع کرتے کہ بنگال کی حکومت نے مغربی پاکستان کے سپاہیوں کو فری ہینڈ دیا ہے۔ میں نے اخبارات کے مدیروں کو چائے پر بلایا۔ انھیں پیشکش کی کہ اگر فوج کے کسی جوان یا افسر نے زیادتی کی تو ہم اس کو سزا دیںگے۔ اس ملاقات کا اثر یہ ہوا کہ اب اخبارات ہمیں فرشتہ بناکر پیش کرتے۔ میں نے اسٹاف کے ذریعے اخبارات کو تجویز دی کہ وہ حقیقت بیان کریں۔ ڈھاکا یونیورسٹی کو حکومت مخالف تقریروں کے لیے استعمال کیا جاتا۔
کمیونسٹوں کا شایع شدہ مواد کلکتہ سے آتا۔ فروری 52 میں میکل کالج کے احاطے میں طلبہ شہید ہوئے تھے۔ ہجوم یادگار پر آتا اور مسلم وغیر مسلم طلبہ وطالبات وہاں دعائیں مانگتے۔ تخریب کار اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کرنل آفریدی نے رات کے وقت وہ یادگار ہٹا دی۔ یوں حکومت کو دردسری سے نجات ملی، نور الامین انتظامیہ کی سفارش پر مرکزی حکومت نے پاکستان کو دو قومی زبانوں کا ملک قرار دیا۔ بنگالیوں کی پاک فوج میں شمولیت کی حوصلہ افزائی اور بھارت کو پٹ سن کی اسمگلنگ پر بھی مصنف نے گفتگو کی ہے۔
گورنر جنرل غلام محمد اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے بارے میں بھی جنرل موسیٰ نے پورا ایک باب تحریر کیا ہے، ان دنوں وہ ڈپٹی چیف آف اسٹاف تھے۔ آئین ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کم کردیے تھے۔ محمد علی بوگرہ نے جنرل موسیٰ کو بلایا اور پوچھا کہ آپ کو آج صبح کی اہم پیش رفت کا علم ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا، وزیراعظم نے مجھے گزٹ آف پاکستان کی کاپی دی۔ میں نے کہاکہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ پاک آرمی کیا سوچ رہی ہے۔ میرے لیے یہ عجیب صورت حال تھی۔ سربراہ مملکت اور وزیراعظم کے جھگڑے سے فوج کا کیا تعلق؟ بعد میں ایوب خان نے میرے اس جواب کو سراہا۔ بوگرہ کو خطرہ تھا کہ غیر ملکی دورے سے واپسی پر انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ مجھے ان کے ملٹری سیکریٹری نے مطلع کیا۔ ایوب خان اور اسکندر مرزا کی ہدایت پر تحفظ کا انتظام کیا گیا۔
اسکندر مرزا قائم مقام گورنر جنرل بن گئے۔ تقریب حلف برداری کے دوران قائد حزب اختلاف حسین شہید سہروردی نے مجھ سے کہاکہ ملکی معاملات پر فوج کی گرفت بڑھتی جارہی ہے۔ سہروردی جیسے بڑے سیاست دان سے مجھے یہ توقع نہ تھی۔ مارچ 57 میں جنرل موسیٰ کو چیف آف اسٹاف کے عہدے پر ترقی دی گئی کچھ مہینوں بعد افغانستان کا دورہ کیا۔ وہاں کے بادشاہ ظاہر شاہ اور وزیراعظم سردار داؤد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اچھے تعلقات قائم کرنے کی بات کی تو سردار داؤد نے کہاکہ ''جب دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تنازعہ طے ہوجائے'' ان کا اشارہ ڈیورنڈ لائن کی طرف تھا۔ ایک سال بعد اسکندر مرزا نے سیاسی پارٹیوں کے اختلاف کو جواز بناکر مارشل لاء لگادیا۔
ایوب خان بھی گلگت سے پنڈی اور پھر کراچی آگئے۔ ان کے ساتھ میجر جنرل یحییٰ خان اور عبدالحمید تھے۔ میں پنڈی میں 25 اکتوبر تک رہا اور مارشل لاء کے ان دنوں کے معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگلے دن ایوب خان نے ملنے کا پیغام دیا۔ مجھے کمانڈر ان چیف بنانے کا فیصلہ کیا گیا دو دن بعد اسکندر مرزا کو کوئٹہ بھیج دیاگیا اور ایوب نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے۔
جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ ''اﷲ کی مہربانی سے پیشہ ورانہ سیڑھی کی اونچائی تک پہنچا'' وہ آٹھ سال تک آرمی کے کمانڈر ان چیف رہے اس دوران جنگ ستمبر بھی ہوئی جس پر ان کی کتاب ''مائی ویژن'' ہے۔ یحییٰ خان کو لیفٹیننٹ جنرل بناکر گجرات بھیجا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وہ اگلے چھ ماہ بعد پاک فوج کے کمانڈر ان چیف ہوںگے۔
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کی جگہ جنرل (ر) محمد موسیٰ کو مغربی پاکستان کا گورنر بنایاگیا۔ وہ ایوب دور کے ''عشرہ اصلاحات'' کے خلاف تھے۔ ایک سال کے پروپیگنڈے سے لوگ بور ہوجائیںگے جب کہ ترقی کے حوالے سے وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ ایوب کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 25 مارچ 69 کو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا جنرل موسیٰ نے یہ خبر ریڈیو پر سنی کہ پانچ دن قبل ان کی جگہ یوسف ہارون نے لی تھی۔ مصنف ان واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ وہ اپنی کتاب میں ستر (70) کے انتخابات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں انھیں بلوچستان کا گورنر بنایاگیا۔
دو سبق کیا ہیں؟ تقریر اور تدبیر کا خوب صورت امتزاج ہو تو انسان سیڑھی کے پہلے پائیدان سے آخر تک پہنچتا ہے، ان میں خرابی پیدا ہوجائے تو سانپ کے ڈسنے پر نیچے آجاتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جنرل موسیٰ ایک پروفیشنل سولجر تھے، خالصتاً پیشہ ور سپاہی وہ انتہائی عزت کے ساتھ ایک خوب صورت زندگی گزار کر رخصت ہوئے، جنرل یحییٰ خان ان کے نقش قدم پر چلتے تو پاکستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی، ڈھائی سو صفحات کی کتاب کے سمندر کو کالم کے کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے نہ جانے اس کتاب کا اردو ترجمہ ہوا بھی ہے؟ کوشش کی ہے کہ ایسے واقعات چنے جائیں جن میں عوام کی دلچسپی ہو اور وہ اہل علم کی بڑی تعداد سے پوشیدہ ہوں، افواج پاکستان کے ہر افسر کی لائبریری میں ہونی چاہیے جنرل محمد موسیٰ کی کتاب Jawan To General۔