کیسا ویلنٹائن ڈے اور کیسا اظہار محبت

فروری کا مہینہ اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طرف تو بہار کے موسم کا آغاز ہوجاتا ہے


محمد عارف شاہ February 15, 2016

کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ''نوع انسانی کی بقاء اورانسانی تمدن کا قیام اس بات پر منحصر ہے کہ عورت اور مرد کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی ہو۔'' اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی۔ کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے نشوونما کے لیے کئی برس کی دردمندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بارکو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتی، جب تک وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے، جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو، اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن برقرار نہیں رہ سکتا۔

تمدن کی پیدائش ہی ایک مرد اور عورت کے مل کر رہنے، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔ اگر مرد اور عورت گھر اور خاندان سے قطع نظر کرکے آزادانہ طور پر ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں گے اور اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے گی، وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے گی جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت اٹھی ہے۔

عورت اور مرد کے تعلق کی بنیاد باہمی حسن ظن پر قائم ہے اور اس تعلق کو نباہنے کے لیے بھی چند اصول وضع کیے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھسا جائے۔ ایک دوسرے کو گھورنے اور تاک جھانک سے پرہیز کیا جائے۔ عورتیں اپنے گھروں میں سینہ اور سر ڈھانپ کر رکھیں۔ غیر محرم رشتے داروں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ باہر نکلیں تو نہ صرف اپنے بناؤ سنگھار کو چھپاکر نکلیں بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔ معاشرے میں عورتوں اور مردوں میں بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور قحبہ گیری کو ممنوع کیا گیا ہے، جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائے اور معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں وہ قابل گرفت ہیں۔ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک اس کے گناہ گار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔

فروری کا مہینہ اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ ایک طرف تو بہار کے موسم کا آغاز ہوجاتا ہے اور دوسری جانب ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے سرخ رنگ کے پہناوے اور سرخ گلاب ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔

یہ جو ویلنٹائن ڈے کی بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ایک سینٹ ویلن ٹائین نامی یہودی نے ایک ناجائز تعلق کو جائز قرار دیا تھا اور موت کے منہ میں چلا گیا۔ یہ اس وقت کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں تھی اور اسے ایک دن کے طور پر منانے والے بھی وہی ہیں جن کی نہ کوئی تہذیب ہے اور نہ تمدن۔ ایک بگڑی ہوئی قوم ہے جس کی خباثت کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں ان کے ماتھے پر لکھی ہوئی ہیں اور یہ بات آج کے لوگوں کو بہت کم سمجھ میں آتی ہے۔

معاشرے کا بگاڑ کب شروع ہوا، اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ہے۔ ایک معاشرہ مصر کا معاشرہ تھا، مہذب مصر میں بالعموم اور اس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو فائز پارہے ہیں۔ ایک عیب دار آدمی دنیا کے سامنے اپنے عیب چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس کی تشہیر فیشن ایبل یا اچھی چیز کے طور پر اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال تو وہ ہے جس کی گواہی معتبر کتاب نے دی ہے کہ

''شہرکی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اسے بے قابو کررکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کررہی ہے، اس نے جو ان کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو ان کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ رہی تھیں) اس نے یوسف (علیہ السلام) کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں، یہ شخص انسان نہیں ہے یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ عزیز کی بیوی نے کیا، دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں، بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ بچ نکلا۔''

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت مصر کے اونچے طبقے کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہوگا وہ امراء، رؤسا اور بڑے بڑے عہدیداروں کے گھر کی بیگمات ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھاکر انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر شریف گھرانے کی اس بھری محفل میں معزز میزبان کو اعلانیہ اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہش نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہوا تو وہ اسے جیل بھجوادے گی۔

یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ، امریکا اور ان کے مشرقی مقلدین آج جس آزادی اور بے باکی کو اس صدی کی ترقیات کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں، بہت پرانی چیز ہے۔

یہ جو آج ہر شو میں عورت کو روایتی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے جس میں ایک عورت، جو رجھانے اور لبھانے کی خاطر ناچتی ہے اور یہ انداز جو فحاشی کی حدوں کو چھوتا ہے کیا اس کی کڑیاں ماضی کی تہذیب سے نہیں ملتیں؟ یہ جو معاشرے میں ہر سیکنڈ میں جرم ہوتا ہے، طلاقوں کا رجحان ساٹھ فیصد سے زیادہ ہوگیا ہے، ہر شخص اپنے گھر کے اندر بھی عدم تحفظ کا شکار ہوگیا ہے، کیا اس کی وجہ اس طرح کے نام نہاد دن نہیں جنھیں منانے کے لیے ہم ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں؟

غیر محرم کو پیغام محبت دینا اور ویلنٹائن ڈے کے نام پر پھول دینا بے حیائی ہے اور یورپ اس آزاد روی کی بھاری قیمت ادا کرکے اب خاندانی نظام کی طرف واپس آرہا ہے جب کہ ہمارا مغرب پرست طبقہ اور میڈیا نسل نو کو اس طرف دھکیل رہے ہیں۔ جب پوری قوم اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے کہ پاکستان کا موجودہ آئین اسلامی ہے اور یہاں جو بھی قانون بنے گا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہی بنے گا تو پھر کیسا ویلنٹائن ڈے اور کیسا محبت کا اظہار۔

کچھ لوگوں کے پاس اب یہ منطق بھی موجود ہیں کہ جمہوریت میں سب کو حق حاصل ہے کہ جو دل چاہے وہ کرے لیکن ایسے حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ اگر یہ آزادی واقعی حاصل ہے تو کبھی اس محبت کے اظہار کے لیے خفیہ مقام کا سہارا نہ لیا جائے، اہل و عیال کے کسی فرد (ابو، امی، بہن، بھائی) کو ضرور شامل کریں اگر آپ کو پذیرائی ملے تو آپ کی اس منطق پر سر تسلیم خم کرلیا جائے گا۔ یہ مختصر بات بھی کسی کی سمجھ میں تو آنی چاہیے کہ جو لڑکی سر اٹھاکر چلتی ہے اس کے والدین سر جھکاکر چلتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔