بھارت سے کوئلہ درآمد کرنیکی اطلاعات پر قائم علی شاہ کا شدید احتجاج
جامشور میں بجلی کی پیداوار کیلیے تھر کے بجائے بھارت سے کوئلہ منگوانے کیلیے طاقتور بیورو کریسی سرگرم ہوگئی ہے
سندھ حکومت نے جامشورو میں بجلی کی پیداوار کیلیے تھرکا کوئلہ بطور ایندھن استعمال کرنے کے بجائے کوئلہ درآمد کرنے کی اطلاعات پرشدید احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم کو اس سلسلے میں فوری کردار اداکرنے کیلیے خط تحریر کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جمعہ کو وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں واضع مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تھرکے کوئلے سے جامشورو بجلی گھر کو شروع کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے اور ہولڈنگ کمپنی جینکو کو حکم دیا جائے کہ فوری طور پر اس ضمن میں سندھ حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جائیں، تاخیری حربے استعمال کرنے سے نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، ذرائع کے مطابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی منگل (آج) کو کراچی آمد کے موقع پر بھی وزیراعلیٰ سندھ جینکو کے کردار پرشدید احتجاج کریںگے ۔ ذرائع کے مطابق ملکی معیشت کو درآمدی تیل کے بوجھ تلے دباکر رکھنے کے لیے تیل کے درآمد کنندگان اور ان کے معاون بیورکریٹس کی مضبوط لابی تھر کول منصوبے کے خلاف سرگرم ہوگئی ہے۔
جس کی وجہ سے ملک کی قسمت پلٹ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے ۔ تھرکے6کروڑ سال سے زائد پرانے قدرتی ذخائر دریافت ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کے بعض بیورو کریٹس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں رکاوٹ بن گئے ہیں اور اس منصوبے کا دورہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور تھر کول اینڈ انرجی بورڈ کے اراکین تھر کے صحرا سے اسلا م آباد تک دائرے میں گردش پر مجبور ہیں ۔ تھرکے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے اس پروجیکٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف3ماہ کے درآمدی فرنس آئل کے خرچ کے ذریعے ملک کو10سال تک گیس کی قلت سے نجات مل سکتی ہے اس پروجیکٹ میں64 اسکوائر کلو میٹر رقبے پر زیر زمین گیس تیار کرکے35 سال تک 10ہزار میگا واٹ بجلی بھی مہیا کی جاسکتی ہے ۔
تاہم جینکو کی بیوروکریسی کے طاقتور پنجے اس پروجیکٹ کے گرد تنگ ہو رہے ہیں جس سے پاکستان کو کئی100سال تک توانائی کی فکر سے نجات دلانے کی امیدیں کم ہو رہی ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے کے خلاف منظم طریقے سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔ اور انڈین کوئلے کے ذریعے جامشورو کے بجلی گھر کو شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے وزیراعظم کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرکے جامشورو کے بجلی گھر کو تھر کے کوئلے سے شروع کرانے کی منظوری حاصل کرلی تھی لیکن جینکو کے ذمہ داران نے وزیراعظم کے احکامات پر بھی عملدرآمد کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کردیے ہیں تاکہ انڈیا سے کوئلہ حاصل کرکے بڑے پیمانے پر مبینہ رشوت حاصل کی جاسکے ۔
ذرائع کے مطابق تھر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور سندھ حکومت نے وفاقی حکومت پر واضح کیا تھا کہ جامشورو کا بجلی گھر کو تھر کوئلے سے چلایا گیا تو پوری دنیا تھر کے کوئلے میں خود بخود سرمایہ کاری شروع کردیگی ۔ سندھ حکومت نے یہ بھی لکھ کر دیا ہے کہ جامشورو بجلی گھر کو تھر کے کوئلے سے شروع کیا جائے اور بروقت اگر کوئلا مطلوبہ تعداد میں فراہم نہیں کیا گیا تو سندھ حکومت جرمانہ ادا کرنے کو بھی تیار ہے لیکن اس کے باوجود جینکو معاہدہ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہی ہے.
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جمعہ کو وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں واضع مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تھرکے کوئلے سے جامشورو بجلی گھر کو شروع کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے اور ہولڈنگ کمپنی جینکو کو حکم دیا جائے کہ فوری طور پر اس ضمن میں سندھ حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جائیں، تاخیری حربے استعمال کرنے سے نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، ذرائع کے مطابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی منگل (آج) کو کراچی آمد کے موقع پر بھی وزیراعلیٰ سندھ جینکو کے کردار پرشدید احتجاج کریںگے ۔ ذرائع کے مطابق ملکی معیشت کو درآمدی تیل کے بوجھ تلے دباکر رکھنے کے لیے تیل کے درآمد کنندگان اور ان کے معاون بیورکریٹس کی مضبوط لابی تھر کول منصوبے کے خلاف سرگرم ہوگئی ہے۔
جس کی وجہ سے ملک کی قسمت پلٹ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے ۔ تھرکے6کروڑ سال سے زائد پرانے قدرتی ذخائر دریافت ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کے بعض بیورو کریٹس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں رکاوٹ بن گئے ہیں اور اس منصوبے کا دورہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور تھر کول اینڈ انرجی بورڈ کے اراکین تھر کے صحرا سے اسلا م آباد تک دائرے میں گردش پر مجبور ہیں ۔ تھرکے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے اس پروجیکٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف3ماہ کے درآمدی فرنس آئل کے خرچ کے ذریعے ملک کو10سال تک گیس کی قلت سے نجات مل سکتی ہے اس پروجیکٹ میں64 اسکوائر کلو میٹر رقبے پر زیر زمین گیس تیار کرکے35 سال تک 10ہزار میگا واٹ بجلی بھی مہیا کی جاسکتی ہے ۔
تاہم جینکو کی بیوروکریسی کے طاقتور پنجے اس پروجیکٹ کے گرد تنگ ہو رہے ہیں جس سے پاکستان کو کئی100سال تک توانائی کی فکر سے نجات دلانے کی امیدیں کم ہو رہی ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے کے خلاف منظم طریقے سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔ اور انڈین کوئلے کے ذریعے جامشورو کے بجلی گھر کو شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے وزیراعظم کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرکے جامشورو کے بجلی گھر کو تھر کے کوئلے سے شروع کرانے کی منظوری حاصل کرلی تھی لیکن جینکو کے ذمہ داران نے وزیراعظم کے احکامات پر بھی عملدرآمد کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کردیے ہیں تاکہ انڈیا سے کوئلہ حاصل کرکے بڑے پیمانے پر مبینہ رشوت حاصل کی جاسکے ۔
ذرائع کے مطابق تھر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور سندھ حکومت نے وفاقی حکومت پر واضح کیا تھا کہ جامشورو کا بجلی گھر کو تھر کوئلے سے چلایا گیا تو پوری دنیا تھر کے کوئلے میں خود بخود سرمایہ کاری شروع کردیگی ۔ سندھ حکومت نے یہ بھی لکھ کر دیا ہے کہ جامشورو بجلی گھر کو تھر کے کوئلے سے شروع کیا جائے اور بروقت اگر کوئلا مطلوبہ تعداد میں فراہم نہیں کیا گیا تو سندھ حکومت جرمانہ ادا کرنے کو بھی تیار ہے لیکن اس کے باوجود جینکو معاہدہ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہی ہے.