ساتھ رہے ہمیشہ۔۔۔
نئی زندگی میں پرانی ہم جولیاں نہ چھوڑیں
دوست بنانا انسانی فطرت میں شامل ہے، جب کہ دوستی کو محبت اور خوشی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔ زندگی میں چاہے کیسا ہی وقت آئے، ہم اپنی ہم جولیوں کو ہی اپنے قریب پاتی ہیں۔
یہ ساتھ کسی بھی نازک وقت میں نہیں چھوٹتا۔ دراصل اس موقع پر ہی صحیح دوستوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اچھے وقت میں تو سب ہی ساتھ ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی کسی دوست کو کوئی پریشانی کسی دوست کو لاحق ہوتی ہے، بہت سے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ دوستی کے نام پر ساتھ موجود بہت سے افراد بھی اس آزمائش پر پورا نہیں اتر پاتے، لیکن حقیقی دوست اس موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہتا ہے اور ہر حال میں دوستی کو نبھاتا ہے۔
جن خواتین کا حلقہ احباب وسیع ہوتا ہے، وہ اتنے ہی خوش و خرم رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کی زندگی میں ڈپریشن، مایوسی اور افسردہ رہنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ عموماً خواتین اپنے حلقہ احباب کو تو وسیع کر لیتی ہیں، لیکن صرف محفل آرائی کی حد تک۔ سہیلی ہونا اور بات ہوتی ہے۔ عام مرد وخواتین ہی نہیں، بلکہ چھوٹے بچوں کو بھی کسی نہ کسی دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے دوستوں کی بھی قدر کریں، جو آپ سے کھل کر اختلاف کرتے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو دراصل ہمارے بہترین ساتھی ہوتے ہیں، ان کی تنقید ہماری فکر کو پرواز، ذہن کو وسعت اور جستجو کو نئی تحریک دیتی ہے۔ ہمیں تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنے والا ہی ہمارا سچا دوست ہوتا ہے۔
دوست اور دوستی کے رنگ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں اور ان دوستوں سے قربت اور وابستگی کی سطح بھی مختلف ہوتی ہے، کچھ صرف دوست ہوتے ہیں، اورکچھ اچھے دوست ہوتے ہیں۔
بہت سی خواتین یہ کہتی ہیں کہ ان کی فلاں رشتے دار بہترین سہیلی ہے۔ اکثر یہ بات کسی دوست کے نہ ہونے پر، یا کسی کو خوش کرنے کے لیے کہہ دی جاتی ہے، کیوں کہ زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں، جس کا اظہار ہم ان رشتے داروں سے اس طرح کھل کر نہیں کر پاتے، جس طرح ایک اچھی سہیلی سے کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے کچھ کہنے سننے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہوتی، جب کہ رشتے دار خواتین سے کہنے کی صورت میں پہلا ڈر تو اس کے روٹھنے کا ہوتا ہے، دوسرا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے غیر دانستہ طور پر کسی طرح یہ بات کسی اور رشتے دار سے کہہ دی تو مزید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
اکثر لڑکیوں کی ہم جولیاں شادی کے بعد بہت متاثر ہوتی ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے والی سہیلیاں ساتھ رہیں۔ ہم بھی اپنی شادی اور بعض اوقات دوسری مصروفیت کی وجہ سے اپنی سہیلیوں کو فراموش ہی کر جاتی ہیں۔ ویسے بھی ایک دم سے نئے رشتوں کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔ ایسے میں بہت سی خواتین شادی کے بعد اپنے میل جول بالکل ختم ہی کر لیتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی نے بھی انہیں منع کیا ہو، بلکہ وہ نئے ماحول، نئے لوگ، نئی ذمہ داری میں الجھ کر خود ہی ان سب چیزوں سے دور ہوتی جاتی ہیں، مگر جوں ہی بچے بڑے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں اپنی اسی کمی کا احساس ہوتا ہے، ظاہر ہے جب مصروفیات کم ہوتی ہیں، تو پھر کبھی جی چاہتا ہے کہ کسی سہیلی سے بیٹھ کر کچھ گپ شپ کی جائے۔
سماجی ذرایع ابلاغ (سوشل میڈیا) بے شک بہت حاوی ہے، لیکن یہ مل بیٹھنے کا نعم البدل نہیں۔ اس موقع پر پرانی سہیلیاں یاد آتی ہیں، لیکن طویل عرصے تک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ بات کرتے ہوئے لامحالہ ایک تکلف اور جھجھک سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ کوئی ایسا موقع ہو، جس کے ذریعے آپ رابطہ بحال کر لیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ چاہے مصروفیات کی وجہ سے رابطے کم ہوں، لیکن اتنی دوریاں نہ ہوں۔ سہیلیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت، باتیں، بھلائی نہیں جاتیں۔ بہت ضروری ہیں سہیلیاں ہماری ہم عمر ہوتی ہیں، جنہیں خانگی زندگی کے تقریباً ویسے ہی مسائل ہوتے ہیں، جن سے آپ گزرتی ہیں، جن سے آپ گزر رہی ہوتی ہیں۔ ان سے رابطے کی صورت میں روزمرہ زندگی کے مسائل کا بہترین حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس قسم کے حالات سے بچنے کے لیے شادی کے بعد اپنی سماجی زندگی سے تعلق بالکل ختم نہیں کریں۔ اپنی پر خلوص سہلیوں سے رابطے میں رہیں۔ دوستی کے تعلقات کو اعتدال میں رہ کر نبھائیں، اولیت گھر کو دیں، پھر سوشل لائف کے لیے وقت نکالیں، سب سے پہلے اپنے آپ کو اس احساس سے نکالیں کہ آپ کا کوئی دوست نہیں ہے، کیوں کہ دوستوں کی کمی سے زیادہ ان کی کمی کا احساس آپ کی نفسیات پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اچھے دوست ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتے ہیں اور آپ میں صحیح کام کرنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ اصل دوستی میں مذہب، قوم یا کوئی فرقہ حائل نہیں ہوتا۔ دوستی میں دیانت داری، صداقت اور پرخلوص اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ دوستی کی خاطر اپنے آپ میں کچھ تبدیلیاں لاتے ہیں، تاکہ دوستی کا مضبوط رشتہ قائم رہ سکے۔
یہ ساتھ کسی بھی نازک وقت میں نہیں چھوٹتا۔ دراصل اس موقع پر ہی صحیح دوستوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اچھے وقت میں تو سب ہی ساتھ ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی کسی دوست کو کوئی پریشانی کسی دوست کو لاحق ہوتی ہے، بہت سے لوگ اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ دوستی کے نام پر ساتھ موجود بہت سے افراد بھی اس آزمائش پر پورا نہیں اتر پاتے، لیکن حقیقی دوست اس موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہتا ہے اور ہر حال میں دوستی کو نبھاتا ہے۔
جن خواتین کا حلقہ احباب وسیع ہوتا ہے، وہ اتنے ہی خوش و خرم رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کی زندگی میں ڈپریشن، مایوسی اور افسردہ رہنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ عموماً خواتین اپنے حلقہ احباب کو تو وسیع کر لیتی ہیں، لیکن صرف محفل آرائی کی حد تک۔ سہیلی ہونا اور بات ہوتی ہے۔ عام مرد وخواتین ہی نہیں، بلکہ چھوٹے بچوں کو بھی کسی نہ کسی دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے دوستوں کی بھی قدر کریں، جو آپ سے کھل کر اختلاف کرتے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو دراصل ہمارے بہترین ساتھی ہوتے ہیں، ان کی تنقید ہماری فکر کو پرواز، ذہن کو وسعت اور جستجو کو نئی تحریک دیتی ہے۔ ہمیں تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرنے والا ہی ہمارا سچا دوست ہوتا ہے۔
دوست اور دوستی کے رنگ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں اور ان دوستوں سے قربت اور وابستگی کی سطح بھی مختلف ہوتی ہے، کچھ صرف دوست ہوتے ہیں، اورکچھ اچھے دوست ہوتے ہیں۔
بہت سی خواتین یہ کہتی ہیں کہ ان کی فلاں رشتے دار بہترین سہیلی ہے۔ اکثر یہ بات کسی دوست کے نہ ہونے پر، یا کسی کو خوش کرنے کے لیے کہہ دی جاتی ہے، کیوں کہ زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں، جس کا اظہار ہم ان رشتے داروں سے اس طرح کھل کر نہیں کر پاتے، جس طرح ایک اچھی سہیلی سے کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے کچھ کہنے سننے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہوتی، جب کہ رشتے دار خواتین سے کہنے کی صورت میں پہلا ڈر تو اس کے روٹھنے کا ہوتا ہے، دوسرا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے غیر دانستہ طور پر کسی طرح یہ بات کسی اور رشتے دار سے کہہ دی تو مزید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
اکثر لڑکیوں کی ہم جولیاں شادی کے بعد بہت متاثر ہوتی ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے والی سہیلیاں ساتھ رہیں۔ ہم بھی اپنی شادی اور بعض اوقات دوسری مصروفیت کی وجہ سے اپنی سہیلیوں کو فراموش ہی کر جاتی ہیں۔ ویسے بھی ایک دم سے نئے رشتوں کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔ ایسے میں بہت سی خواتین شادی کے بعد اپنے میل جول بالکل ختم ہی کر لیتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی نے بھی انہیں منع کیا ہو، بلکہ وہ نئے ماحول، نئے لوگ، نئی ذمہ داری میں الجھ کر خود ہی ان سب چیزوں سے دور ہوتی جاتی ہیں، مگر جوں ہی بچے بڑے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں اپنی اسی کمی کا احساس ہوتا ہے، ظاہر ہے جب مصروفیات کم ہوتی ہیں، تو پھر کبھی جی چاہتا ہے کہ کسی سہیلی سے بیٹھ کر کچھ گپ شپ کی جائے۔
سماجی ذرایع ابلاغ (سوشل میڈیا) بے شک بہت حاوی ہے، لیکن یہ مل بیٹھنے کا نعم البدل نہیں۔ اس موقع پر پرانی سہیلیاں یاد آتی ہیں، لیکن طویل عرصے تک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ بات کرتے ہوئے لامحالہ ایک تکلف اور جھجھک سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ کوئی ایسا موقع ہو، جس کے ذریعے آپ رابطہ بحال کر لیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ چاہے مصروفیات کی وجہ سے رابطے کم ہوں، لیکن اتنی دوریاں نہ ہوں۔ سہیلیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت، باتیں، بھلائی نہیں جاتیں۔ بہت ضروری ہیں سہیلیاں ہماری ہم عمر ہوتی ہیں، جنہیں خانگی زندگی کے تقریباً ویسے ہی مسائل ہوتے ہیں، جن سے آپ گزرتی ہیں، جن سے آپ گزر رہی ہوتی ہیں۔ ان سے رابطے کی صورت میں روزمرہ زندگی کے مسائل کا بہترین حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس قسم کے حالات سے بچنے کے لیے شادی کے بعد اپنی سماجی زندگی سے تعلق بالکل ختم نہیں کریں۔ اپنی پر خلوص سہلیوں سے رابطے میں رہیں۔ دوستی کے تعلقات کو اعتدال میں رہ کر نبھائیں، اولیت گھر کو دیں، پھر سوشل لائف کے لیے وقت نکالیں، سب سے پہلے اپنے آپ کو اس احساس سے نکالیں کہ آپ کا کوئی دوست نہیں ہے، کیوں کہ دوستوں کی کمی سے زیادہ ان کی کمی کا احساس آپ کی نفسیات پر زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اچھے دوست ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتے ہیں اور آپ میں صحیح کام کرنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ اصل دوستی میں مذہب، قوم یا کوئی فرقہ حائل نہیں ہوتا۔ دوستی میں دیانت داری، صداقت اور پرخلوص اعتماد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ دوستی کی خاطر اپنے آپ میں کچھ تبدیلیاں لاتے ہیں، تاکہ دوستی کا مضبوط رشتہ قائم رہ سکے۔