بلوچستان سونے کا پیالہ لیکن خوراک سے خالی

حمزہ کی قبر میں بھی شاید سونے کے ذرات ہوں، لیکن ان طلائی اینٹوں کا کیا فائدہ جن سے دو وقت کی روٹی بھی نہ خریدی جاسکے۔


سہیل یوسف February 15, 2016
لال پیلی ٹرینیوں اور بسوں کے اربوں کے منصوبے چلانے والے حکمرانوں سے میری گزارش ہے کہ بلوچستان موت سے نیلا پڑتا جارہا ہے اس کی خبر لیجئے۔

 

چرواہے حاتم کی چھونپڑی سے دو آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس کا ڈیڑھ سال کا بچہ کراہ رہا تھا اور دوسری آواز خون جما دینے والی تیز سرد ہوا کی تھی، جو جھونپڑی کے پھٹے ہوئے حصے سے سیٹی کی آواز کے ساتھ اندر آرہی تھیں۔ اس نے پہلے کپڑے کی ایک دھجی سے اس سوراخ کو بند کیا اور پھر تیزی سے پلٹ کر بچے کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا تو شدید تپش کی ایک لپٹ محسوس ہوئی۔ پریشان حاتم نے جڑی بوٹی کے کچھ پتے گدلے پانی میں کوٹ کر بچے کو پلائے جس کی کڑواہٹ اتنی تھی کہ دوا اس کے ہونٹوں کے دونوں کنارے سے باہر بہہ نکلی۔

مریض بچے کی طویل رات کو ختم ہونے میں ابھی طویل وقت باقی تھا۔ نصف شب کو اس کا سانس اکھڑنے لگا اور پسلیاں فولادی سلاخوں کی مانند ابھر آئیں۔ فجر سے کچھ لمحے قبل ڈیڑھ سالہ حمزہ خاموش ہوگیا، اور اب اس کا بدن اتنا گرم نہیں رہا تھا۔ رات کے کسی پہر نہ جانے وہ کونسا جھونکا آیا جس نے حمزہ کی ادھ کھلی آنکھوں کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ کچھ عرصے بعد حاتم کا دوسرا بچہ بھی خوراک کی قلت سے طرح طرح کی بیماریوں میں گِھر گیا، اور والدین کو غمزدہ چھوڑ گیا۔ دونوں بچوں کی موت نے ایک عجیب سوال کو بھی جنم دیا جس کا جواب اب تک مقروض و مجبور حاتم کو نہیں مل سکا۔

اسے علم تھا کہ وہ چاغی کا باشندہ ہے جہاں سونے، تانبے، پلاٹینم کے ذخائر کلو میں نہیں بلکہ ٹنوں میں موجود ہے۔ اس کے قدموں تلے انمول دھاتیں ہیں لیکن، سر پر چھت نہیں، اسپتال دور دور تک غائب، اسکول مفقود، ذرائع آمدنی ناپید ہے اور زندگی خود ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔

پھر گزشتہ کئی برسوں سے نہ صرف چاغی بلکہ لورالائی، پشین، خضدار، نوشکی، مستونگ، قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ اور بلوچستان کے دیگرعلاقے شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ جس پر قومی ہنگامی حالت کا نفاذ ہونا چاہیئے۔ حال ہی میں یواین ڈی پی اور اسلامک ریلیف کی دو رپورٹس آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ 15 جنوری 2016ء کو یواین ڈی پی پاکستان کی تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان سے بارشیں روٹھ گئی ہیں جس سے بلوچستان کی 70 فیصد آبادی براہِ راست متاثر ہورہی ہے۔ اس رپورٹ کے کچھ نکات یہ ہیں۔

  • 2013ء سے ڈیرہ بگٹی، کوہلو، لورالائی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبداللہ، نوشکی، خاران، آواران، مستونگ، قلات، خضدار اور لسبیلہ میں معمول سے ایک چوتھائی کم بارشیں ہوئی ہیں۔ جن سے چار طرح کی خشک سالی کا راج ہے اور وہ ہے موسمیاتی، آبی، زرعی، معاشی اور معاشرتی خشک سالی۔ زراعت اور گلہ بانی بلوچستان کے ان علاقوں میں ریڑھ کی ہڈی سے بھی ذیادہ اہمیت رکھتی ہے، لیکن صرف نوشکی میں پانی کی کمی سے 70 فیصد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، سبزہ ختم ہوچکا ہے اور جانوروں کی چراہ گائیں غائب۔

  • 50 سے 60 فیصد آبادی باقاعدہ روزگار سے محروم ہوچکی ہے یا آمدنی گھٹ گئی ہے اور نقل مکانی یا پھر مزدوری کررہی ہیں۔ بیمار جانور اونے پونے داموں بیچے جارہے ہیں۔ ٹیوب ویل نے پیاسے بلوچستان کو مزید چوس لیا ہے، اور کئی ضلعوں میں زیرِ زمین پانی کی مقدار 3 سے 5 میٹر نیچے جا چکی ہے۔ پانی کی کمی سے سیب کی پیداوار میں 20 سے 40 فیصد تک کمی آچکی ہے، جبکہ خوبانی، آلوچے اور ناشپاتی کی پیداوار 2 سے 32 فیصد تک کم ہوچکی ہے۔ اِس حوالے سے قلعہ سیف اللہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 15 سے 25 فیصد پھلوں کے باغات بارش نہ ہونے کے سبب تباہ ہوچکے ہیں۔

  • بلوچستان نیم بنجر خطہ ہے جہاں غلہ بانی اور کھیتی باڑی کا انحصار بارشوں، سیلابی ریلوں یا زیرِ زمین آبی ذخائر پر ہے اور پانی کے اب یہ تمام ذخائر تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب برساتی نالوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پشین کا مشہور بند خوش دل خان ڈیم جو کبھی 20 سے 30 کلو میٹر زمین سیراب کرتا تھا، اب وہاں ایک قطرہ پانی بھی موجود نہیں۔ پشین میں ٹیوب ویل سے اگر پانی نکالا جائے تو بجلی درکار ہے، جبکہ پورے پشین میں 24 میں سے صرف 4 یا 5 گھنٹے بجلی آتی ہے۔

  • ماہرِ زراعت ڈاکٹر خیر محمد نے بتایا کہ سیب کی بہتر پیداوار کے لئے موسمِ سرما میں 1200 سے 1300 گھنٹوں کی سردی درکار ہوتی ہے، اور 12 فروری تک صرف 300 گھنٹے کی سردی پڑی جس سے ظاہر ہے کہ بلوچستان میں آب و ہوا میں شدید تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور زراعت اجڑ رہی ہے۔ مال مویشی، خوراک، دودھ اور انڈے فراہم کرتے ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ اس کا نتیجہ خوراک کی شدید قلت کی صورت میں نمودار ہورہا ہے، جس سے بچے اور خواتین شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے گوداموں میں خوراک ہے، کمبل ہیں اور دوائیں بھی لیکن نہ جانے کیوں وہ ان حقداروں تک نہیں پہنچ رہی ہیں اور ہزاروں لاکھوں حاتم ان کے منتظر ہیں۔






تصایر بشکریہ: آزات فاؤنڈیشن

44 ہزار مربع کلومیٹر وسیع ضلع چاغی ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے بھی بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے۔ چاغی کی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے صدر نور علی سنجرانی نے مصنف کو بتایا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف نے یہاں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، پرویز مشرف نے زرعی تحقیق مرکز اور دالبندین میں مارکیٹ قائم کرنے کے لئے 50 کروڑ اور ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے تعلیمی اداروں کا وعدہ کیا تھا، لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ وعدے وفا نہ ہو سکے۔



بشکریہ: آزات فاؤنڈیشن

بعض علاقوں میں پی ڈی ایم اے کےغذائی سیل نے مدد فراہم تو کی لیکن وہ ناکافی ہے اور اب تک غذائی قلت کے شکار 1500 بچے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ جن کی زندگی بچانا کوئی مشکل نہیں۔ نورعلی کےمطابق چاغی میں فوری طور پر سروے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کو رجسٹر کرکے امدادی کارروائیاں شروع کی جاسکیں۔



بشکریہ: آزات فاؤنڈیشن

اب بھی وقت نہیں گزرا اور باقاعدہ امدادی کام سے بلوچستان کی عوام کو خشک سالی کے جبڑے سے چھڑایا جاسکتا ہے۔ لال پیلی ٹرینیوں اور بسوں کے اربوں کے منصوبے چلانے والے حکمرانوں سے میری گزارش ہے کہ بلوچستان موت سے نیلا پڑتا جارہا ہے اس کی خبر لیجئے۔ فی گھنٹہ ہزاروں روپے کمانے والے نیوز اینکروں اور دانشوروں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بلوچستان کے سونا چاندی، تیل اور گیس اور سی پیک پر رال ٹپکانے کی بجائے کوئی پروگرام بلوچستان کی عام عوام پر بھی کردیں۔ بلوچستان سونے کا پیالہ ہے لیکن خوراک سے خالی ہے۔

حمزہ کی ننھی قبر میں شاید سونے کے ذرات بھی موجود ہوں، لیکن ان طلائی اینٹوں کا کیا فائدہ جن سے دو وقت کی روٹی اور ایک وقت کی دوا نہ بھی خریدی جاسکے۔

[poll id="955"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں