بے مثل قلمکار انتظار حسین
دیگر کئی لکھنے والوں کی طرح انتظار حسین نے بھی اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہی کیا
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
یکتائے روزگار ناول نگار، افسانہ نگار اور بے مثل کالم نویس انتظار حسین اپنے بے شمار قارئین اور چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑکر اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوکر اس ابدی دنیا میں جاکر آباد ہوگئے، جہاں ان کا انتظار تھا۔ان کی رحلت کے ساتھ ایک فسوں ساز قلم کاری اور موقع نگاری کا سنہری دور تمام ہوا۔ دنیائے ادب میں جتن قدرومنزلت انتظارحسین کے حصے میں آئی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
انھوں نے اس جہان فانی کواس وقت خیر باد کہا جب ان کی شہرت پاک وہند ہی میں نہیں بلکہ چار دانگ عالم میں نکتہ عروج کو چھوچکی تھی۔ ان کی ادبی تحریروں کے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم نے ان کی شہرت کے ڈنکے پورے جہان میں مچادیے۔ہندوستان کے مشہور و معروف شہر میرٹھ کے ضلع بلند شہرکے ایک غیر معروف چھوٹے سے قصبے ڈبائی میں جنم لینے والے انتظار حسین کا شمار ان اہل قلم میں ہوتا ہے جنھیں ہجرت بے حد راس آئی اور جنھیں نئے وطن میں بے پناہ عزت اور قدر ومنزلت حاصل ہوئی۔ بقول شاعر:
سو پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
دیگر کئی لکھنے والوں کی طرح انتظار حسین نے بھی اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہی کیا اور کئی خوبصورت نظمیں بھی لکھیں لیکن اپنا آخری میدان انھوں نے نثر کو ہی بنایا جس کے مختلف شعبوں میں انھوں نے اپنی قلمی جادوگری کے خوب جوہر دکھائے اور فکشن اور ڈکشن میں ایک منفرد و نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریروں کا دائرہ محض اردو ادب و صحافت اورتنقید تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وطن عزیز کے کئی انگریزی روزناموں میں شایع ہونے والے ان کے خوبصورت کالموں نے بھی ان کی عظمت اور شہرت کو چارچاند لگادیے۔
ان کا حلقہ احباب بھی بے حد وسیع تھا، جس میں بڑے بڑے ملکی اور غیر ملکی قلم کار شامل تھے۔ فکری اور نظریاتی طور پر انھیں محمد حسن عسکری، ناصرکاظمی اور پروفیسرکرار حسین کا بہت قرب حاصل تھا، جب کہ سلیم احمد اور احمد ہمیش سے بھی ان کے بڑے اچھے اور قریبی مراسم تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ انتظار صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہی منفرد شاعر، افسانہ نگار اور مدید ''تشکیل'' احمد ہمیش (مرحوم) نے ہی کرائی تھی جس کے بعد ہم دونوں نے ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے لیے ان کا ایک خصوصی اور مفصل انٹرویو ریکارڈ کیا تھا جو ہم نے ہندی سروس کے ادبی پروگرام ''ساہتیہ سبھا'' میں ہندوستان کے سامعین کے لیے نشر کیا تھا، تو بے حد پسند کیا گیا تھا۔ ہندی سروس کے سامعین کو ہم انتظار صاحب کے افسانے ہندی میں ترجمے کرکے پہلے ہی سنواچکے تھے جسے انتظار صاحب کا غائبانہ تعارف بھی کہا جاسکتا ہے۔
انتظار صاحب نے اپنے اس انٹرویو میں نہ صرف اپنی ذات کے حوالے سے بڑی دلچسپ گفتگو کی تھی بلکہ اردو افسانے اور ناول کے حوالے سے بھی بڑی اہم باتیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ ہم عصر ہندی ادیبوں اور ادب کے حوالے سے بھی کافی بات چیت ہوئی تھی، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ Contemporary ہندی ساہتیہ (ادب) پر بھی انتظار صاحب کی اچھی خاصی نظر تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اس انٹرویو کے دوران ہندی کے منفرد اور نام ور ادیب یش پال کا ذکر بھی شامل تھا۔
جن کے منفرد ناول ''رویا''نے دنیائے ادب میں دھوم مچادی تھی، اس انٹرویو میں انتظار صاحب نے ہماری اس خواہش پر اظہار مسرت بھی کیا تھا کہ ان کی منتخب تحریروں کو ہندی میں ترجمہ کرکے ہندی زبان کے قارئین تک بھی پہنچایا جائے۔ افسوس کہ یہ بات آئی گئی ہوگئی تاآنکہ انتظار صاحب ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑگئے۔ تاہم اگر اکادمی ادبیات پاکستان یا وطن عزیزکا کوئی اور سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ اس کام سے دلچسپی رکھتا ہو تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔ اس کام کے سلسلے میں ہندوستان کے کسی معروف اشاعتی ادارے کا تعاون واشتراک بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور یوں انتظار صاحب کے چھوڑے ہوئے ادبی ورثے کو بے شمار ہندی قارئین تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
بدھ3فروری کو صبح سویرے جوں ہی اپنے اخبار ''ایکسپریس'' پر نظر پڑی تو انتظار صاحب کی رحلت کی خبر پڑھ کر دل یک بہ یک بیٹھ سا گیا۔ اگرچہ یہ بات ہمارے علم میں تھی کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے انھیں اسپتال میں داخل کردیاگیا تھا، تاہم ان کے سانحہ ارتحال کی منحوس خبر کے لیے ہمارا ذہن بالکل بھی تیار نہیں تھا اور ہمارا خیال یہی تھا کہ وہ رو بہ صحت ہوکر اپنے گھر واپس آجائیںگے۔ مگر نظام قدرت یہی ہے کہ ''موت سے کس کو دستکاری ہے۔''
یہ کالم تحریر کرتے وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے اور ایک فلم سی آنکھوں کے سامنے چل رہی ہے۔ انتظار صاحب کی من موہنی سی صورت دل کو لبھارہی ہے اور ان کا مٹھاس بھرا لب و لہجے کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ مرنجاں مرنج انتظار حسین کہیں سے بھی تو یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ اتنے بڑے آدمی ہیں۔ کیا مجال جو یہ احساس بھی ہوجائے کہ یہ وہ مایہ ناز لکھاری ہے جسے حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا ہے یا جو فرانس سے Ordre Des Arts et Des Lettres کا انعام یافتہ ہے۔کوئی اورہوتا تو اس درجہ پذیرائی کے سبب جامہ سے باہر ہوچکا ہوتا۔
The Seventh Door اور Leaves نامی ان کی دوکتابیں انگریزی میں ترجمہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہیں۔ وہ خود بھی بڑے اچھے مترجم تھے اور انھوں نے نہایت خوبصورت تراجم انگریزی سے اردو میں کیے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھیں اردو اور انگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا۔ ترجمہ نگاری کوئی آسان کام نہیں بلکہ سچ پوچھیے تو تخلیقی عمل سے بھی زیادہ مشکل اور صبر آزما کام ہے کیوں کہ ذراسی اونچ نیچ سے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے اور سارا مزا کُرکُرا ہوکر رہ جاتا ہے۔
انتظار حسین کی افسانہ نگاری، ناول نگاری اورکالم نویسی پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ اس لحاظ سے انھیں اگر ایک Trend Seller کہا جائے توکوئی مبالغہ نہ ہوگا بلاشبہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کے لیے ایک Torch Bearer کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے جس زمانے میں کہانیاں لکھنا شروع کیں اس زمانے میں اردو کی ادبی دنیا میں لیوٹا لسٹائی، دوستووسکی، گورکی، جیمس جوائس، فلابیئر اور ڈی ایچ لارنس جیسے غیر ملکی قد آور دیوتامت ادیبوں کا طوطی بول رہا تھا۔
مگر ان سے ذرا بھی مرعوب ہوئے بغیر انتظار حسین نے الف لیلا اورکتھا سرت ساگر سے انسپائر ہوکر اپنا ایک الگ راستہ بنایا اور پھر پیچھے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا کہانی کافن ان کی گھٹی میں شامل تھا جو انھوں نے اپنی نانی اماں اورگوتم بدھ سے سیکھا، ان کی نانی اماں نے بھی انھیں سب سے پہلے وہی کہانی سنائی تھی جو اکثر نانی امائیں سنایا کرتی تھیں یہی کہ ''ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانہ، چڑا لایا چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔ اس کے علاوہ جاتک کتھاؤں نے انتظار صاحب کو بہت انسپائرکیا، جس کا اعتراف انھوں نے خود بھی کیا ہے سچی بات یہ ہے کہ یہ کتھائیں ہیں ہی اتنی اثر انگیز اور جادو بھری، ان سے تو پنڈت جواہر لعل نہرو بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔
انتظار حسین کی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی ادبی گروہ بندی کے قائل کبھی نہیں رہے، ان ہی کے الفاظ میں ''مجھے خوب احساس ہے کہ جب سے ہمارے ادب میں تحریکوں کی وبا پھیلی ہے، ادیب کسی کھونٹے سے بندھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس میں فریقین کو سہولت رہتی ہے، بندھے ہوؤں کو بغیر تگ ودو کے مشین سے کٹا چارہ میسر آجاتا ہے، ساتھ رہنے والے آسانی سے دودھ دھو لیتے ہیں مگر میں کسی تحریک کا ڈنگر نہیں کوئی نظریاتی جانور نہیں، نظریوں سے مجھے دلچسپی ہوسکتی ہے۔
کسی مرغوب نظریے کی تبلیغ کی خواہش بھی ہوسکتی ہے مگر اس خواہش نے مجھے کبھی اتنا حیوان نہیں بنایا کہ افسانے کو پروپیگنڈے کی سطح پر لے آنے پر تل جاؤں، میں افسانے میں نظریہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نہیں چلاتا، میرے لیے تجربے کی غلیل بہت ہے۔ افسانہ اس حقیر فقیر پر خیالات عالیہ کی صورت میں نازل نہیں ہوتا واردات بن کر گرتا ہے۔''
ان کا موقف بالکل واضح اور بے لاگ ہے وہ کہتے ہیں ''میں ان تخلیق کاروں میں سے ہوں جو لکھنے سے پہلے ہی طے نہیں کرلیتے کہ انھوں نے کیا بات کہنی ہے، بس یہ توکوئی تجربہ یا واردات ہوتی ہے جسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ان ادیبوں میں سے بھی نہیں جو کہانی لکھنے کے بعد اس کی شرح کے قائل ہوں، میں ان افسانہ نگاروں میں سے ہوں جو سمجھتے ہیں کہ نہ تو میں پڑھنے والوں کو پابند کروں نہ مجھ پرکسی طرح کی پابندی عائد کریں۔ میری طرف سے قاری کو اجازت ہے کہ وہ جو چاہے میری کہانی سے مطلب اخذ کرے۔''
2 فروری بروز منگل یہ بے مثل داستان گویہ کہتے ہوئے ابدی نیند سوگیا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے