موٹر وے ایک خواب کی تعبیر
وزیراعظم محمد نواز شریف پاکستان کو ترقی یافتہ اورخوشحال بنانا چاہتے ہیں
ISLAMABAD:
وزیراعظم محمد نواز شریف پاکستان کو ترقی یافتہ اورخوشحال بنانا چاہتے ہیں وہ ملک میں حقیقی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کوایشین ٹائیگر بنانا ان کا دیرینہ خواب ہے ۔قارئین کرام ! یہ سیاسی نعرے نہیں ہیں بلکہ ایک عوامی وزیراعظم کی حقیقی خواہشات ہیں اور ان کے دیرینہ خواب ہیں یہ برسوں پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہوتے مگر بد قسمتی سے جب دوبار محمد نواز شریف کو اقتدار ملا تو ان کی حکومتوں کا قبل از وقت خاتمہ کر دیا گیا۔
اس طرح مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے لیکن نواز شریف کا تیسرا دور حکومت پاکستان کی ترقی کا دور ہے انھیں تیسری بار پاکستان کو پورے خطے میں ترقی وخوشحالی کا مرکز بنانے کا موقع ملا ہے۔ جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار اور سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ زراعت ، صنعت اور سماجی بہبود سمیت کئی شعبوں کی سرگرمیاں اور اشاریوں کی بنیاد پر عالمی ادارے حکومت کی سمت اورکارکردگی کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔
پچھلے ڈھائی سال سے زائد عرصے میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے متعدد اہم اور قومی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے بلوچستان میں گوادر، تربت ہوشاب شاہراہ کا افتتاح کیا ۔ جو پاک چین اقتصادی راہداری کا اہم حصہ ہے۔ یہ شاہراہ ایم 8- کہلائے گی ۔ 193کلو میٹر طویل اس شاہراہ پر ساڑھے 13ارب روپے لاگت آئی ہے ۔اس شاہراہ کو فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے تعمیرکیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شاہراہ کو 19ماہ کی ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا ہے۔
اس شاہراہ کی تعمیر میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی بھرپور دلچسپی لی ہے۔ وزیر اعظم نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم 8 موٹروے کی تعمیر سے ایک خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔
دنیا کا مستقبل تقریباً 3 ارب کی آبادی کے حامل اس خطے سے منسلک ہے، پاکستان اس صورت سے جتنی زیادہ سرمایہ کاری کرے گا اتنے زیادہ ثمرات حاصل ہوں گے۔ وسطیٰ ایشیائی ریاستیں گوادر کے ذریعے تجارت کے خواہش مند ہیں ۔ٹھوس کام کرنے کے لیے نعرے نہیں وژن اور حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
اقتصادی راہداری منصوبہ صرف بلوچستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقعے پر تین منصوبوں کا بھی اعلان کیا ۔ اب کوئٹہ خضدار ہائی وے کو دو رویہ کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں بیمہ خضدار شہداد کوٹ منصوبے کو شروع کیا جائے گا اور پھر بیلا آواران ہوشاب ہائی وے پر بھی کام شرو ع ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہوشاب ، تربت گوادر شاہراہ ایم 8 بلوچستان کی ترقی میں نہایت اہمیت کی حامل ہوگی۔ جہاں اس سے پورے ملک کی معیشت کوفروغ حاصل ہوگا وہیں سارے خطے کی اقتصادی ترقی پر بھی اس کے نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
گوادرکے گہرے پانی کی بندرگاہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی خوشحالی کی نوید لائے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے گہرے سمندر تک رسائی کے لیے یہ شاہراہ بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی طرح چین اور افغانستان کے لیے بھی بحرہند تک رسائی کے لیے یہ مختصر ترین راستہ ہے ۔
اسی لیے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں خطے کی ترقی کی نوید سنائی ہے۔ بلا شبہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان سمیت پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنے گی اورگوادر پورٹ کے ذریعے پاکستان چین اور وسط ایشیائی ریاستیں اپنا مال تجارت یورپ، افریقہ اور خلیجی ریاستوں تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکیںگی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان کو ترقی کے ثمرات براہ راست ملیں گے۔ اس لیے یہ شاہراہ پسماندہ صوبے بلوچستان کے لیے وفاقی حکومت کا شاندار تحفہ ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ ماضی میں بلوچستان کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ۔
قیام پاکستان سے اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں اور بیوروکریسی کے علاوہ صوبے کی لیڈر شپ بھی اس کی ذمے دار ہے، کیونکہ صوبائی قیادت خود تو فائدے حاصل کرتی رہی لیکن اس نے عام بلوچ کی بہتری اورخوشحالی کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ تمام فوائد اور فنڈز مقامی سردار، وڈیرے اور زمیندار ہڑپ کرتے رہے جب کہ عوام سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں تک محدود رہے۔
اس کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندوں نے بھی خوب لوٹ مارکی۔ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا اور بغاوت جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئروں بلکہ حد تو یہ ہے کہ مزدوروں کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے، لیکن جب سے نواز حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس نے بلوچستان کے لیے شاندار خدمات انجام دیں جس میں سرفہرست صوبے میں امن و امان کا قیام اور عسکریت پسندوں کو ہتھیارڈالنے پر مجبور کرنا ہے ۔
میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ معدنیات سے مالا مال رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں اب تبدیلی کی لہر کو واضح طور پر ریکھا جا سکتا ہے ۔ بغاوت کو خاصی حد تک ختم کر دیا گیا ہے ۔ عسکریت پسند حکومت کی رٹ قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ میری نظر میں بلوچستان میں سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں۔ یہ امن کا ہی نتیجہ ہے کہ اب بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور ایک عام بلوچ ماضی کی نسبت زیادہ مطمئن اور احساس تحفظ کے ساتھ اپنی زندگی کے معمولات انجام دے رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کی جانب سے بلوچستان کی ترقی کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے اثرات براہ راست ایک عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئیںاور تمام بلوچوں کو ترقی کے مسلسل اور مادی مواقعے ملنے چاہئیں۔ بلوچستان میں پولیس کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں اور صوبے میں فرنٹیئر کور نے جو عظیم الشان قربانیاں دے کر امن قائم کیا ہے اس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے،کیونکہ امن ہوگا تو ترقی کا کواب بھی شرمندئہ تعبیر ہوگا۔
وزیراعظم محمد نواز شریف پاکستان کو ترقی یافتہ اورخوشحال بنانا چاہتے ہیں وہ ملک میں حقیقی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کوایشین ٹائیگر بنانا ان کا دیرینہ خواب ہے ۔قارئین کرام ! یہ سیاسی نعرے نہیں ہیں بلکہ ایک عوامی وزیراعظم کی حقیقی خواہشات ہیں اور ان کے دیرینہ خواب ہیں یہ برسوں پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہوتے مگر بد قسمتی سے جب دوبار محمد نواز شریف کو اقتدار ملا تو ان کی حکومتوں کا قبل از وقت خاتمہ کر دیا گیا۔
اس طرح مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے لیکن نواز شریف کا تیسرا دور حکومت پاکستان کی ترقی کا دور ہے انھیں تیسری بار پاکستان کو پورے خطے میں ترقی وخوشحالی کا مرکز بنانے کا موقع ملا ہے۔ جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار اور سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ زراعت ، صنعت اور سماجی بہبود سمیت کئی شعبوں کی سرگرمیاں اور اشاریوں کی بنیاد پر عالمی ادارے حکومت کی سمت اورکارکردگی کو مثبت قرار دے رہے ہیں۔
پچھلے ڈھائی سال سے زائد عرصے میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے متعدد اہم اور قومی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے بلوچستان میں گوادر، تربت ہوشاب شاہراہ کا افتتاح کیا ۔ جو پاک چین اقتصادی راہداری کا اہم حصہ ہے۔ یہ شاہراہ ایم 8- کہلائے گی ۔ 193کلو میٹر طویل اس شاہراہ پر ساڑھے 13ارب روپے لاگت آئی ہے ۔اس شاہراہ کو فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن نے تعمیرکیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شاہراہ کو 19ماہ کی ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا گیا ہے۔
اس شاہراہ کی تعمیر میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی بھرپور دلچسپی لی ہے۔ وزیر اعظم نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم 8 موٹروے کی تعمیر سے ایک خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔
دنیا کا مستقبل تقریباً 3 ارب کی آبادی کے حامل اس خطے سے منسلک ہے، پاکستان اس صورت سے جتنی زیادہ سرمایہ کاری کرے گا اتنے زیادہ ثمرات حاصل ہوں گے۔ وسطیٰ ایشیائی ریاستیں گوادر کے ذریعے تجارت کے خواہش مند ہیں ۔ٹھوس کام کرنے کے لیے نعرے نہیں وژن اور حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
اقتصادی راہداری منصوبہ صرف بلوچستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقعے پر تین منصوبوں کا بھی اعلان کیا ۔ اب کوئٹہ خضدار ہائی وے کو دو رویہ کیا جائے گا، دوسرے مرحلے میں بیمہ خضدار شہداد کوٹ منصوبے کو شروع کیا جائے گا اور پھر بیلا آواران ہوشاب ہائی وے پر بھی کام شرو ع ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہوشاب ، تربت گوادر شاہراہ ایم 8 بلوچستان کی ترقی میں نہایت اہمیت کی حامل ہوگی۔ جہاں اس سے پورے ملک کی معیشت کوفروغ حاصل ہوگا وہیں سارے خطے کی اقتصادی ترقی پر بھی اس کے نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
گوادرکے گہرے پانی کی بندرگاہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی خوشحالی کی نوید لائے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے گہرے سمندر تک رسائی کے لیے یہ شاہراہ بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی طرح چین اور افغانستان کے لیے بھی بحرہند تک رسائی کے لیے یہ مختصر ترین راستہ ہے ۔
اسی لیے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں خطے کی ترقی کی نوید سنائی ہے۔ بلا شبہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان سمیت پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنے گی اورگوادر پورٹ کے ذریعے پاکستان چین اور وسط ایشیائی ریاستیں اپنا مال تجارت یورپ، افریقہ اور خلیجی ریاستوں تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکیںگی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان کو ترقی کے ثمرات براہ راست ملیں گے۔ اس لیے یہ شاہراہ پسماندہ صوبے بلوچستان کے لیے وفاقی حکومت کا شاندار تحفہ ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ ماضی میں بلوچستان کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ۔
قیام پاکستان سے اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں اور بیوروکریسی کے علاوہ صوبے کی لیڈر شپ بھی اس کی ذمے دار ہے، کیونکہ صوبائی قیادت خود تو فائدے حاصل کرتی رہی لیکن اس نے عام بلوچ کی بہتری اورخوشحالی کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ تمام فوائد اور فنڈز مقامی سردار، وڈیرے اور زمیندار ہڑپ کرتے رہے جب کہ عوام سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں تک محدود رہے۔
اس کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندوں نے بھی خوب لوٹ مارکی۔ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا اور بغاوت جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئروں بلکہ حد تو یہ ہے کہ مزدوروں کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے، لیکن جب سے نواز حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس نے بلوچستان کے لیے شاندار خدمات انجام دیں جس میں سرفہرست صوبے میں امن و امان کا قیام اور عسکریت پسندوں کو ہتھیارڈالنے پر مجبور کرنا ہے ۔
میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ معدنیات سے مالا مال رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں اب تبدیلی کی لہر کو واضح طور پر ریکھا جا سکتا ہے ۔ بغاوت کو خاصی حد تک ختم کر دیا گیا ہے ۔ عسکریت پسند حکومت کی رٹ قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ میری نظر میں بلوچستان میں سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں۔ یہ امن کا ہی نتیجہ ہے کہ اب بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور ایک عام بلوچ ماضی کی نسبت زیادہ مطمئن اور احساس تحفظ کے ساتھ اپنی زندگی کے معمولات انجام دے رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کی جانب سے بلوچستان کی ترقی کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے اثرات براہ راست ایک عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئیںاور تمام بلوچوں کو ترقی کے مسلسل اور مادی مواقعے ملنے چاہئیں۔ بلوچستان میں پولیس کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں اور صوبے میں فرنٹیئر کور نے جو عظیم الشان قربانیاں دے کر امن قائم کیا ہے اس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے،کیونکہ امن ہوگا تو ترقی کا کواب بھی شرمندئہ تعبیر ہوگا۔