
زندگی میں کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے ملنے اور ان سے مختلف موضوعات پر بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سے بعض کے ساتھ ملنے کے بعد ان کے پی ایچ ڈی ہونے پر ضرورت سے زیادہ شک ہوا۔ ذہن میں اکثر یہ سوال اُبھرا کہ یار اس بندے نے پی ایچ ڈی کیسے کرلیا؟ اور کس جامعہ نے اس کو ڈگری جاری کی اور کیسے؟ ایک پروفیسر ڈاکٹر صاحب جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، سرکاری یونیورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلر رہ چکے ہیں اور اب بھی ایک نجی جامعہ میں اک شعبہ کے ڈین ہیں۔ جب اُن سے بات ہوئی تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ اُن کو 'جی پی اے' اور 'سی جی پی اے' میں فرق تک معلوم نہ تھا۔ میں انہیں سمجھا رہا تھا مگر وہ ڈاکٹر صاحب تو ٹس سے مس ہونے کے موڈ میں نہیں تھے۔ لہذا تنگ آکر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست نے کہا کہ جناب! ڈاکٹر صاحب سنا تو یہ تھا کہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر علم کا بینک ہوتا ہے مگر آج معلوم ہوا کہ اب ان بینکوں میں بھی ڈاکہ پڑچکا ہے۔
اک ڈاکٹر صاحب ایم فل کی ابتدائی کلاس لے رہے تھے اور اپنی ہی لکھی ہوئی کتابوں پر تبصرہ فرما رہے تھے کہ ایک طالب علم جو زرا تاخیر سے پہنچا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا کہ جناب یہ کتابیں جس بھی شخص نے لکھی ہیں اُس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ لکھنا کیا چاہتا ہے۔ کسی بھی سبق کا سر ہے نہ کوئی پیر۔ اب غلطی اُس طالب علم کی ہی تھی کہ وہ کلاس میں تاخیر سے آیا، اگر وہ پہلے آجاتا تو یہ گستاخی ہرگز نہ ہوگی، لیکن چونکہ گستاخی ہوگئی تو پروفسیر صاحب کے ماتھے پہ پسینہ نمودار ہوتے ہی وہ کلاس سے باہر کھڑا کردیا گیا۔
بہرحال یہ سوال جو برسوں سے میرے ذہن میں تھا کہ ان جیسے پروفیسرز نے ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کیسے پاس کرلیں؟ اس سوال کا جواب برسوں بعد ''رینٹل ریسرچر'' کی صورت میں ملا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دوست نے فون کیا اور پوچھا سر کیا آپ نے ریسرچ تھیسس کرلیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے مزید پوچھا کہ خود کیا ہے یا کسی سے کروایا ہے؟ اک لمحہ کے لئے تو مجھے اس بے تُکے سوال کی سمجھ نہ آئی۔ زرا توقف کے بعد میں نے کہا کیا مطلب؟ کیا بنے بنائے بھی مل جاتے ہیں تو اس نے کمالِ تسلی سے جواب دیا، جی جناب! میں نے پتہ کیا تھا مگر رینٹل ریسرچر کا ریٹ میری اوقات سے ذرا زیادہ تھا، اور 50 ہزار کا سن کر میں بھی خاموش ہی رہ گیا۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ سر کئی لوگوں نے تھیسز بنوائے ہیں ان سے، اور میں حیران یوں تھا کہ کرائے پر مکان ملنے کا سنا تھا، رینٹل پاور پراجیکٹ کا بھی سن چکے ہیں لیکن پہلی بار رینٹل ریسرچر کا علم ہوا ہے۔
میں نے اس موضوع پر مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک منظم کاروبار ہے۔ لوگوں نے سیٹ اپ بنایا ہوا ہے۔ مختلف شعبوں کے حوالے سے اُن شعبوں کا علم رکھنے والے لوگوں پر مشتمل گروپس بنائے ہوئے ہیں، کوئی لٹریچر ریویو کر رہا ہے، کوئی ڈیٹا اینالسس کر رہا ہے، کوئی گرامر سنوار رہا ہے اور تھیسز پر تھیسز بنا بنا کر ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری کے متمنی طلبا و طالبات کو دیئے جا رہے ہیں۔ رینٹل ریسرچر پیسے کما رہے ہیں اور لوگ ڈگری یافتہ بن رہے ہیں، تعلیم یافتہ ہونے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ حال تو کچھ طلبا و طالبات کا ہے، خبر یہ ہے کہ کچھ اساتذہ بھی رینٹل ریسرچرز کی خدمات لیتے ہیں۔ ملک کی معروف سرکاری یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ موصوف رینٹل ریسرچرز سے کرائے پر ریسرچ آرٹیکل لکھواتے ہیں۔ پیسے دے کر انہیں منظور شدہ جرنلز میں چھپواتے ہیں، پھر وہی آرٹیکل پڑھنے کے لئے بیرون ملک جانے کے لئے یونیورسٹی سے گرانٹ لیتے ہیں اور انکریمنٹ بھی طلب فرماتے ہیں ۔
اک اور پروفیسر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ جناب جب پی ایچ ڈی کا تھیسز ڈیفینڈ کرنے آئے تو ویل چیئر پر بیٹھے تھے، مصنوعی بیمار تھے ڈرپ لگی ہوئی تھی، ہانپ رہے تھے، کمیٹی ممبران جو بھی سوال کرتے بس یہی کہتے سر میں بیمار ہوں، پلیز! کمیٹی نے بھی کہا جاؤ تھیسز منظور کیا جاتا ہے اور یوں پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی۔
حیران ہوں ۔۔۔۔۔ ہم کس طرح کے پروفیشنلز پیدا کر رہے ہیں؟ ڈگریاں لئے پھرتے ہیں مگر اپنے موضوعات کے متعلق کچھ خبر نہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس بارے میں غور کرنا چاہیئے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ریسرچ تھیسز میں ایچ ای سی کو چاہیئے اپنے زیرِ اہتمام کوئی بورڈ بنائے جو تمام یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول کے تھیسز کو دیکھے اور خود ٹھونک بجا کے وائیوا لے اور صرف اہل افراد کو یہ ڈگریاں جاری کرے۔ تعلیم کے معیار کو یقینی بنانے اور اسے تماشا بننے سے روکنا ضروری ہے، تاکہ ڈگری یافتہ فرد صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ بھی ہو۔
[poll id="956"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔