صاحب خوش رہیں
ذوالفقارعلی بھٹوکا تعلق سندھ سے تھا، لیکن اپنی پوری سیاست میں وہ ہمیشہ لاہورکو بہت اہمیت دیا کرتے تھے
ذوالفقارعلی بھٹوکا تعلق سندھ سے تھا، لیکن اپنی پوری سیاست میں وہ ہمیشہ لاہورکو بہت اہمیت دیا کرتے تھے۔ جس طرح کافی عرصے سے عمران خان تخت ِلاہور پر محنت کر رہے ہیں۔ اسی لیے اُن کی خواہش تھی کہ وہ اپنے شاندار دوروں کا اختتام لاہور میں ہی کریں۔ ان سیاسی دوروں کا آغاز اکتوبر 1973ء سے ہوا، لیکن لاہور میں کیا ہوا؟ اور کیسے اپنوں نے سازش کی یہ سمجھنے کے لیے تھوڑا سا واقعات اور شخصیات کوآپس میں ملاتے ہیں۔
بھٹو کا اپنا ایک سیاسی انداز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ آیندہ الیکشن کی تیاری اپنی حکومت کے پہلے دن سے ہی کر لی جائے۔ اس کے لیے ان کی خواہش تھی کہ وہ پنجاب کے دورے کریں۔ یوں تو یہ وعدہ زرداری بھی کرتے رہے لیکن ہر بارکچھ سیکیورٹی بیچ میں آ جاتی تھی۔ زرداری کے زمانے میں تو کسی اور کی سیکیورٹی سے خطرہ تھا مگر بھٹو کے ابتدائی دور میں خود ان کے جگری دوست غلام مصطفیٰ کھر رکاوٹ تھے۔
مختلف لوگوں نے اس بات کا ذکر یوں کیا ہے کہ جب بھی بھٹو پنجاب کے دورے کی بات کرتے تھے تو کھر کا موقف ہوتا تھا کہ لوگ بنگلہ دیش کی وجہ سے پیپلز پارٹی پر بہت غصے میں ہیں۔ اس لیے عوامی سطح پر کوئی بھی دورہ یا جلسہ کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اورکیونکہ آپ کا خاد م یہاں بیٹھا ہے تو آپ کو آنے کی ضرورت کیا ہے۔ پاکستان کی تقسیم کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا تھا اور وفاق میں مسئلے بھی بہت تھے۔ اس لیے یہ دورے نہیں ہو سکے۔
بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ خیبر پختون خوا ( سرحد) اور بلوچستان میں NAP کا اثر تھا۔ پنجاب میں فسادات ہو چکے تھے اور پھر کھرکو عہدے سے ہٹا کر رامے صاحب کو پنجاب کی خدمت کا منصب دیا چکا تھا۔ ایسے میں بھٹو کی خواہش تھی کہ اب پنجاب کے طوفانی دورے کیے جائیں۔ کھر اب پچھلی سیٹ پر تھے، اس لیے ان کی پرانی منطق چل نہیں سکتی تھی۔
جب کہ رامے یہ سمجھتے تھے کہ ''باس'' ہمیشہ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس لیے بھٹو کی خواہش پوری ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ مہینے کے دو ہفتے وزیر اعظم صاحب اسلام آباد میں بیٹھا کریں گے، جب کہ دو ہفتے وہ پنجاب کا ٹوٹا ہوا دل جوڑنے میں لگائیں گے۔ جب ''صاحب'' نے وقت نکالنے کا سوچ لیا تو پھرسارے پنڈت کنڈلیاں ملانے میں مصروف ہو گئے کہ کس کی باری پہلے آنی چاہیے۔ کس کی ٹانگ کھینچنی ہے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ ابتدا نیچے سے کی جائے گی یعنی بہاولپور سے۔ پہلے بہاولپور سے ملتان تک وقت لگایا جائے گا۔ پھر ملتان سے لے کر سرگودھا تک کے دل سیئے جائیں گے۔ پھر سرگودھا سے پنڈی کے بے کس عوام کو دیدار بخشا جائے گا اور گھوم پھر کر لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ ہو گا۔ یوں یہ پروگرام تین سے چار مہینے میں ختم ہو جائے گا، موڈ بن چکا تھا۔
اس لیے سب کام پر لگ گئے۔ بھٹوکی نظر میں تو اگلا الیکشن تھا، لیکن نیچے کچھ لوگوں کی آنکھیں بس یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ صاحب خوش ہو جائیں۔ اس کے لیے انھوں نے ہر طرح کے پاپڑ بیلنا شروع کر دیے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا مقصد حیات ہی یہ تھا کہ کسی طرح وہ اپنی پرانی جگہ حاصل کر لیں۔ اس کے لیے وہ ہر حد تک جا رہے تھے۔
اکتوبر 73ء سے بہاولپور کا دورہ شروع ہو گیا ۔ بہاولپور میں رامے صاحب نے پولیس والوں سے لے کر اپنے جیالوں تک سب کو کام میں مصروف کر لیا اور کوشش یہ تھی کہ بھٹو صاحب بس جلسے کی واہ واہ کر دیں۔ بھٹو بہت بہت اچھے مقرر تھے۔ انھیں ہمیشہ جلسوں میں روانی سے بولنے کی عادت تھی۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ جلسہ ان کے لفظوں سے ترتیب پائے۔
اس لیے پروگرا م کے منتظم کی کوشش ہوتی تھی کہ جب بھٹو تقریر کریں تو کسی بھی قسم کی بدنظمی نہ ہو پائے مگرکیا کیجیے کہ جب قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو۔ بہاولپور کے اسٹیڈیم میں لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ بھٹو نے تقریر کا آغاز کیا اور جیسے ہی وہ اپنے جملوں سے لوگوں کے دلوں کو گرمانے لگے ویسے ہی ایک دم آگ کے شعلے اُٹھنے لگے۔ بھٹو نے اپنی تقریر روک کر کہا ''یہ کیا ہے'' سب کی دوڑ لگ گئی ۔ معلوم ہوا کہ کسی نے توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے کپڑے پر آگ لگائی ہے، لیکن رامے صاحب کانپ گئے تھے۔ اپنی پوری محنت کے باوجود ''صاحب'' کو متاثر نہیں کر پائے۔ رامے صاحب دانشوار آدمی تھے۔
انھوں نے کہا اگلی بار غلطی نہیں ہو گی۔ بھٹو بہاولپورکا دورہ ختم ہوتے ہی اسلام آباد چلے گئے اور پھر ملتان کی باری تھی جس کا آغاز اوکاڑہ سے ہونا تھا۔ پنڈال ایک بار پھر بھرا ہوا تھا، مگر لوگ بیٹھ نہیں رہے تھے۔ بھٹو صاحب تقریرکر رہے تھے اور لوگ یہاں سے وہاں جا رہے تھے۔ ایک بار پھر تقریر جم کر نہ ہو سکی۔ جلسے کے بعد پولیس والوں سمیت سارے جیالوں کو بھی لائن حاضرکر دیا گیا۔ رامے صاحب نے تو پوری کوشش کی تھی کہ وہ ''خوش'' کر سکیں لیکن قسمت ایک بار پھر ہاتھ کر گئی۔
جیسے کہ آج کل کہا جاتا ہے ویسے ہی کچھ لوگوں نے اپنا دامن بچانے کے لیے کہا کہ اس میں اپوزیشن کی سازش ہے۔ اسٹیج کا حال ہمارے نئے پاکستان کے دوست جیسا تھا۔ ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ وہ بھٹوکے ساتھ نظر آئے اور تصویر سب کو دکھا کر اپنا بھرم بنا سکے۔ جلسے بہت سے کرنے تھے اور اُس کے ساتھ کھلی کچہری بھی کرنی تھی۔
''صاحب'' خوش رہیں اس کے لیے جلسوں میں لوگ ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے جاتے تھے۔ انھیں کھانا بھی کھلایا جاتا تھا، کیونکہ اہم عنصر صرف لیڈر کو خوش کرنا تھا، اس لیے نظریات پر مفادات حاوی تھے۔ دوسری طرف کھلی کچہریوں میں عوام کے مسائل سنے جاتے تھے۔ شروع میں تو سارے لوگ خود سے آئے۔
اراکین اسمبلی لاریوں میں اپنے لوگ لاتے اور پھر صرف ان کے ہی مسائل سنے جاتے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے برابر میں وزیر اعلیٰ ہوتے جنھیں اکثر چیزوں کا علم نہ ہوتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پہلے ان کے مسائل رامے صاحب سنتے۔ جس کا مقصد ان کا مسئلہ حل کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ہوتا کہ جب یہ شخص وزیراعظم کے سامنے بیٹھے گا تو وزیر اعلیٰ کو معلوم ہو کہ یہ کیا سوال کرنے والا ہے۔ اس طرح جلسوں اورکھلی کچہری کا جو مقصد بھٹوکا تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ رامے صاحب یہ سمجھتے تھے کہ وہ بازی جیت چکے ہیں۔ جلسے کامیاب ہوئے ہیں۔ لوگ اتنے آئے ہیں کہ پنڈال میں جگہ نہیں تھی۔
کچہریوں کا یہ حال ہے کہ جو بھی مسئلہ آتا ہے رامے کو پہلے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں میں اپنی جیت کا کھل کر اظہار کرتے، مگر اس کا نقصان بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ہو چکا تھا۔ ایسا ہی نقصان آج کل تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو بھی ہو رہا ہے۔ کچھ اسکیموں، پراجیکٹ، جلسوں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ وہ عوام کے لیے نہیں ہو رہا بلکہ ''صاحب'' کو خو ش کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ ورنہ جلسوں کے بعد لوگ حلوے کے لیے لڑ نہ رہے ہوتے۔ ابھی سے آپ پریشان مت ہوں۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جب رامے صاحب داد وصول کرنے گئے تو کچھ اور ہو گیا۔ گوجرانولہ میں جب پیپلز پارٹی کا ''کامیاب'' جلسہ ختم ہو گیا تو کھلی کچہری شروع ہوئی۔ بھٹو صاحب نے رامے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ سمجھے کہ شاید بھٹو اُن کی تعریف کریں گے۔ بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا ...ہاں بھئی رامے ... کہاں ہیں پیپلز پارٹی کے سکھائے ہوئے لوگ؟ لاؤ ان لوگوں کو جن سے تم سوال کراتے ہو۔ چلو جلدی سے شروع کرو۔ رامے صاحب سمیت سب کے ہوش اڑ گئے۔
بھٹو نے رک کر پھرکہا کہ ''کیا مجھے نہیں پتہ کہ تم میرے جلسوں میں لوگوں کو ٹرکوں میں بھر بھرکرکیسے لاتے ہو؟''کیا آج کے کچھ نئے ''صاحب'' بھی یہ جانتے ہیں کہ اُن کی صرف واہ واہ سننے کے لیے کیسے کچھ بازی گر کھیل کھیلتے ہیں؟ بھٹو کی یہ بات سُن کر بہت سے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ آخر جب بھٹوکو معلوم تھا کہ یہ سب جعلی افراد ہیں، پھر بھی چھ مہینے سے جلسے اور کچہری کیوں ہو رہی ہے۔اس کے بعد کی کہانی پھر بتاؤں گا۔ مجھے بات تو اس سلسلے میں لاہور کے جلسے کی کرنی تھی، لیکن ابھی تو آپ یہ سوچیں کہ اس وقت ''رامے صاحب'' کہاں کہاں اور کس کس جگہ بیٹھے ہیں۔ جن کی نظر میں نہ عوام ہیں، نہ پارٹی، بلکہ صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے صاحب خوش رہیں۔
بھٹو کا اپنا ایک سیاسی انداز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ آیندہ الیکشن کی تیاری اپنی حکومت کے پہلے دن سے ہی کر لی جائے۔ اس کے لیے ان کی خواہش تھی کہ وہ پنجاب کے دورے کریں۔ یوں تو یہ وعدہ زرداری بھی کرتے رہے لیکن ہر بارکچھ سیکیورٹی بیچ میں آ جاتی تھی۔ زرداری کے زمانے میں تو کسی اور کی سیکیورٹی سے خطرہ تھا مگر بھٹو کے ابتدائی دور میں خود ان کے جگری دوست غلام مصطفیٰ کھر رکاوٹ تھے۔
مختلف لوگوں نے اس بات کا ذکر یوں کیا ہے کہ جب بھی بھٹو پنجاب کے دورے کی بات کرتے تھے تو کھر کا موقف ہوتا تھا کہ لوگ بنگلہ دیش کی وجہ سے پیپلز پارٹی پر بہت غصے میں ہیں۔ اس لیے عوامی سطح پر کوئی بھی دورہ یا جلسہ کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اورکیونکہ آپ کا خاد م یہاں بیٹھا ہے تو آپ کو آنے کی ضرورت کیا ہے۔ پاکستان کی تقسیم کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا تھا اور وفاق میں مسئلے بھی بہت تھے۔ اس لیے یہ دورے نہیں ہو سکے۔
بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ خیبر پختون خوا ( سرحد) اور بلوچستان میں NAP کا اثر تھا۔ پنجاب میں فسادات ہو چکے تھے اور پھر کھرکو عہدے سے ہٹا کر رامے صاحب کو پنجاب کی خدمت کا منصب دیا چکا تھا۔ ایسے میں بھٹو کی خواہش تھی کہ اب پنجاب کے طوفانی دورے کیے جائیں۔ کھر اب پچھلی سیٹ پر تھے، اس لیے ان کی پرانی منطق چل نہیں سکتی تھی۔
جب کہ رامے یہ سمجھتے تھے کہ ''باس'' ہمیشہ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس لیے بھٹو کی خواہش پوری ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ مہینے کے دو ہفتے وزیر اعظم صاحب اسلام آباد میں بیٹھا کریں گے، جب کہ دو ہفتے وہ پنجاب کا ٹوٹا ہوا دل جوڑنے میں لگائیں گے۔ جب ''صاحب'' نے وقت نکالنے کا سوچ لیا تو پھرسارے پنڈت کنڈلیاں ملانے میں مصروف ہو گئے کہ کس کی باری پہلے آنی چاہیے۔ کس کی ٹانگ کھینچنی ہے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ ابتدا نیچے سے کی جائے گی یعنی بہاولپور سے۔ پہلے بہاولپور سے ملتان تک وقت لگایا جائے گا۔ پھر ملتان سے لے کر سرگودھا تک کے دل سیئے جائیں گے۔ پھر سرگودھا سے پنڈی کے بے کس عوام کو دیدار بخشا جائے گا اور گھوم پھر کر لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ ہو گا۔ یوں یہ پروگرام تین سے چار مہینے میں ختم ہو جائے گا، موڈ بن چکا تھا۔
اس لیے سب کام پر لگ گئے۔ بھٹوکی نظر میں تو اگلا الیکشن تھا، لیکن نیچے کچھ لوگوں کی آنکھیں بس یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ صاحب خوش ہو جائیں۔ اس کے لیے انھوں نے ہر طرح کے پاپڑ بیلنا شروع کر دیے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا مقصد حیات ہی یہ تھا کہ کسی طرح وہ اپنی پرانی جگہ حاصل کر لیں۔ اس کے لیے وہ ہر حد تک جا رہے تھے۔
اکتوبر 73ء سے بہاولپور کا دورہ شروع ہو گیا ۔ بہاولپور میں رامے صاحب نے پولیس والوں سے لے کر اپنے جیالوں تک سب کو کام میں مصروف کر لیا اور کوشش یہ تھی کہ بھٹو صاحب بس جلسے کی واہ واہ کر دیں۔ بھٹو بہت بہت اچھے مقرر تھے۔ انھیں ہمیشہ جلسوں میں روانی سے بولنے کی عادت تھی۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ جلسہ ان کے لفظوں سے ترتیب پائے۔
اس لیے پروگرا م کے منتظم کی کوشش ہوتی تھی کہ جب بھٹو تقریر کریں تو کسی بھی قسم کی بدنظمی نہ ہو پائے مگرکیا کیجیے کہ جب قسمت ساتھ نہ دے رہی ہو۔ بہاولپور کے اسٹیڈیم میں لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ بھٹو نے تقریر کا آغاز کیا اور جیسے ہی وہ اپنے جملوں سے لوگوں کے دلوں کو گرمانے لگے ویسے ہی ایک دم آگ کے شعلے اُٹھنے لگے۔ بھٹو نے اپنی تقریر روک کر کہا ''یہ کیا ہے'' سب کی دوڑ لگ گئی ۔ معلوم ہوا کہ کسی نے توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے کپڑے پر آگ لگائی ہے، لیکن رامے صاحب کانپ گئے تھے۔ اپنی پوری محنت کے باوجود ''صاحب'' کو متاثر نہیں کر پائے۔ رامے صاحب دانشوار آدمی تھے۔
انھوں نے کہا اگلی بار غلطی نہیں ہو گی۔ بھٹو بہاولپورکا دورہ ختم ہوتے ہی اسلام آباد چلے گئے اور پھر ملتان کی باری تھی جس کا آغاز اوکاڑہ سے ہونا تھا۔ پنڈال ایک بار پھر بھرا ہوا تھا، مگر لوگ بیٹھ نہیں رہے تھے۔ بھٹو صاحب تقریرکر رہے تھے اور لوگ یہاں سے وہاں جا رہے تھے۔ ایک بار پھر تقریر جم کر نہ ہو سکی۔ جلسے کے بعد پولیس والوں سمیت سارے جیالوں کو بھی لائن حاضرکر دیا گیا۔ رامے صاحب نے تو پوری کوشش کی تھی کہ وہ ''خوش'' کر سکیں لیکن قسمت ایک بار پھر ہاتھ کر گئی۔
جیسے کہ آج کل کہا جاتا ہے ویسے ہی کچھ لوگوں نے اپنا دامن بچانے کے لیے کہا کہ اس میں اپوزیشن کی سازش ہے۔ اسٹیج کا حال ہمارے نئے پاکستان کے دوست جیسا تھا۔ ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ وہ بھٹوکے ساتھ نظر آئے اور تصویر سب کو دکھا کر اپنا بھرم بنا سکے۔ جلسے بہت سے کرنے تھے اور اُس کے ساتھ کھلی کچہری بھی کرنی تھی۔
''صاحب'' خوش رہیں اس کے لیے جلسوں میں لوگ ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے جاتے تھے۔ انھیں کھانا بھی کھلایا جاتا تھا، کیونکہ اہم عنصر صرف لیڈر کو خوش کرنا تھا، اس لیے نظریات پر مفادات حاوی تھے۔ دوسری طرف کھلی کچہریوں میں عوام کے مسائل سنے جاتے تھے۔ شروع میں تو سارے لوگ خود سے آئے۔
اراکین اسمبلی لاریوں میں اپنے لوگ لاتے اور پھر صرف ان کے ہی مسائل سنے جاتے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے برابر میں وزیر اعلیٰ ہوتے جنھیں اکثر چیزوں کا علم نہ ہوتا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ پہلے ان کے مسائل رامے صاحب سنتے۔ جس کا مقصد ان کا مسئلہ حل کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ہوتا کہ جب یہ شخص وزیراعظم کے سامنے بیٹھے گا تو وزیر اعلیٰ کو معلوم ہو کہ یہ کیا سوال کرنے والا ہے۔ اس طرح جلسوں اورکھلی کچہری کا جو مقصد بھٹوکا تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ رامے صاحب یہ سمجھتے تھے کہ وہ بازی جیت چکے ہیں۔ جلسے کامیاب ہوئے ہیں۔ لوگ اتنے آئے ہیں کہ پنڈال میں جگہ نہیں تھی۔
کچہریوں کا یہ حال ہے کہ جو بھی مسئلہ آتا ہے رامے کو پہلے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے قریبی لوگوں میں اپنی جیت کا کھل کر اظہار کرتے، مگر اس کا نقصان بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ہو چکا تھا۔ ایسا ہی نقصان آج کل تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کو بھی ہو رہا ہے۔ کچھ اسکیموں، پراجیکٹ، جلسوں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ وہ عوام کے لیے نہیں ہو رہا بلکہ ''صاحب'' کو خو ش کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ ورنہ جلسوں کے بعد لوگ حلوے کے لیے لڑ نہ رہے ہوتے۔ ابھی سے آپ پریشان مت ہوں۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جب رامے صاحب داد وصول کرنے گئے تو کچھ اور ہو گیا۔ گوجرانولہ میں جب پیپلز پارٹی کا ''کامیاب'' جلسہ ختم ہو گیا تو کھلی کچہری شروع ہوئی۔ بھٹو صاحب نے رامے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ سمجھے کہ شاید بھٹو اُن کی تعریف کریں گے۔ بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا ...ہاں بھئی رامے ... کہاں ہیں پیپلز پارٹی کے سکھائے ہوئے لوگ؟ لاؤ ان لوگوں کو جن سے تم سوال کراتے ہو۔ چلو جلدی سے شروع کرو۔ رامے صاحب سمیت سب کے ہوش اڑ گئے۔
بھٹو نے رک کر پھرکہا کہ ''کیا مجھے نہیں پتہ کہ تم میرے جلسوں میں لوگوں کو ٹرکوں میں بھر بھرکرکیسے لاتے ہو؟''کیا آج کے کچھ نئے ''صاحب'' بھی یہ جانتے ہیں کہ اُن کی صرف واہ واہ سننے کے لیے کیسے کچھ بازی گر کھیل کھیلتے ہیں؟ بھٹو کی یہ بات سُن کر بہت سے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ آخر جب بھٹوکو معلوم تھا کہ یہ سب جعلی افراد ہیں، پھر بھی چھ مہینے سے جلسے اور کچہری کیوں ہو رہی ہے۔اس کے بعد کی کہانی پھر بتاؤں گا۔ مجھے بات تو اس سلسلے میں لاہور کے جلسے کی کرنی تھی، لیکن ابھی تو آپ یہ سوچیں کہ اس وقت ''رامے صاحب'' کہاں کہاں اور کس کس جگہ بیٹھے ہیں۔ جن کی نظر میں نہ عوام ہیں، نہ پارٹی، بلکہ صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے صاحب خوش رہیں۔