معاشرتی زندگی میں ملاوٹ

ملاوٹ والی اشیاء کےمسلسل استعمال سے انسان کواسکی عادت ہوجاتی ہے،پھر وہ صاف کو گندا اورگندی چیزوں کوصاف سمجھنے لگتے ہیں


شاہ خالد February 17, 2016
گدھے کے گوشت کی فروخت، نالوں کے گندے پانی کی مشروبات میں ملاوٹ، بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء میں زہریلے رنگوں کی ملاوٹ۔ کہاں تک بچیں گے آپ اس زہر سے؟ فوٹو: ایکسپریس

پیشے کے لحاظ سے گوالا، صورت سے حاجی صاحب اور باتوں سے مریدِ کامل، دودھ کا حال یہ کہ ایک کپ چائے میں دو کپ دودھ ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ ہے میرے پڑوس کا چاچا خادم، سلام کلام تو اُس کی خوش کلامی کا حصہ ہے لیکن باقاعدہ تکرار کا موقع کل ہی ملا جب مجھے خود اس کی دکان سے آنے والے دودھ کی چائے بنانے کے تجربہ سے گزرنا پڑا۔

میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اس نے قسم کھا کر کہا کہ اُس نے تو زندگی میں کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔ الٹا ان تمام گوالوں کو بُرا بھلا کہنے لگا جو انسانیت کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرتے ہیں۔ بات میری سمجھ میں اس وقت آئی جب اس نے کہا کہ میں تو برف بھی اس لئے ڈالتا ہوں کہ دودھ ٹھنڈا رہے اور دودھ کو سارا دن ٹھنڈا رکھنے کے لئے بار بار مجھے برف ڈالنی پڑتی ہے۔ دودھ میں ملاوٹ تو خیر اب عام سی بات ہے، اس شعبے میں آج کل ایسی ایجادات ہوئی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ملاوٹ والی اشیاء کے مسلسل استعمال سے اکثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اس کی عادت ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ بعد میں صاف چیز کھانے سے بیمار ہوجاتے ہیں، اسلئے وہ صاف کو گندا اور گندی چیزوں کو صاف سمجھنے لگتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں ملاوٹ کےعام ہونے سے بہت بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ یہاں بھی سب سے زیادہ متاثرعورت نے ہونا ہے۔ بازار میں کھانا کھانے کا رجحان کم ہوجانے سے عورتوں کی ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ جس سے میک اپ کیلئے بھی ٹائم نکالنا مشکل ہوجائےگا۔ میک اپ سے چونکہ انسان کا فطری رنگ بدلنا مقصود ہوتا ہے اسلئے یہ بھی ملاوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس کے کم ہونے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ اس سے ایک فائدہ خواتین کو یوں بھی ہوگا کہ ان کا روزمرہ کا خرچہ ایک اندازے کے مطابق 99 فیصد تک کم ہوجائےگا۔

اس تبدیلی کا دوسرا بڑا اثر سیاست دانوں کے اوپر پڑے گا۔ عوام کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ بازار کے دودھ میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ اسلئے شیخ رشید کو نہ صرف اپنا مشہورِ زمانہ بیان بدلنا پڑیگا بلکہ مودی کی طرح آئندہ الیکشن سے پہلے پہلے لال حویلی کو گھر ثابت کرنا پڑیگا۔

ایک سروے کے مطابق کھانے کی اشیاء میں گدھے کا گوشت خصوصی طور پر مغز کے استمعال سے سیاستدانوں کا کام کافی حد تک آسان ہوجائے گا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ تمام سیاستدانوں نے اس بارے میں متفقہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ایک دور تھا جب ملاوٹ صرف دودھ میں ہوا کرتی تھی اور اس مقصد کیلئے پانی بھی صاف استعمال ہوتا تھا۔ اب تو کھانے پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جس میں ملاوٹ کا شُبہ نہ ہو۔ ملاوٹ بھی ایسی اشیاء کی کہ جن کا نام لینے سے بندہ بیمار ہوجائے۔ مردہ اور حرام گوشت کی کھانوں میں ملاوٹ، بیف کے نام سے گدھے کے گوشت کی فروخت، نالوں کے گندے پانی کی مشروبات میں ملاوٹ، گریس کی گھی اور خوردنی تیل میں ملاوٹ، مرغی کے نام سے کچھوے کے انڈوں کی فروخت، بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء میں زہریلے رنگوں کی ملاوٹ۔ کہاں تک بچیں گے آپ اس زہر سے؟

کھانے پینے میں ملاوٹ کی بات تو سب کرتے ہیں لیکن جو ملاوٹ ان سب کی وجہ بنی وہ ہماری معاشرتی زندگی اور تہذیب و تمدن میں ملاوٹ ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے سماج میں سادگی، رشتوں میں اخلاص اور دلوں میں محبت ہوتی تھی۔ اس وقت کوئی کھانے میں ملاوٹ کا تصور کیسے کرتا جبکہ سب چیزیں سب لوگوں کی ہوتی تھیں۔ اشیاء تو کیا لوگ خود اک دوسرے پر قربان ہوا کرتے تھے، لیکن یہ سلسلہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب سرمایہ داری کی ٹھنڈی ہوائیں چلیں اور ان یخ بستہ ہواؤں کی ٹھنڈک نے جہاں سادہ لوح انسانوں کو مد ہوش کیا، وہاں اس کی تیزی نے یہاں کی زندگی کا رخ بھی موڑ لیا۔ وہ سب چیزیں جو سب لوگوں کی ہوتی تھی ان کی تقسیم شروع ہوگئی۔ یہ میرا وہ تیرا ہوتے ہوتے ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ شروع ہوگیا۔ جاگیریں بن گئی، جاگیردار بن گئے۔ مخدوم بن گئے، انسان انسانوں کے خادم بن گئے، اور اس مقابلے میں لوگ اپنی روایات بھول گئے۔ انسانی زندگی میں ایسی ملاوٹ ہوگئی کہ چیزوں میں ملاوٹ جائز ہی ہوگئی۔

[poll id="958"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں