نشیب و فراز

دنیا نے کبھی ایسا انقلاب نہیں دیکھا جیسا اسلام لایا تھا جہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا اور عرب فتح ہوگیا۔


میرشاہد حسین February 17, 2016
جب ہادی دو جہاں نبی مصطفی صلی ﷲ علیہ وسلم کی قیادت مل گئی تو قوم یکجا ہوگئی بلکہ اس قوم نے سپر پاور کو بھی شکست سے دوچار کیا۔ فوٹو :فائل

یہ آج کی نہیں چودہ سو برس پرانی بات ہے۔ قیصر و کسریٰ دنیا کی سپر پاور بنی ہوئی تھیں۔ ایسے دور میں عرب کے بنجر ریگستانوں میں ایک ایسی قوم بستی تھی جس میں دنیا بھر کی ساری خرابیاں موجود تھیں۔ جہاں جہالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا تھا کہ وہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ پشت در پشت قبائل آپس میں اس طرح خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے کہ جنگیں رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ ذرا ذرا سی بات پر تلوار نکل آتی تھی اور عدم برداشت کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی اپنے اپنے قبیلہ کا سربراہ بنا ہوا تھا اور یہ قوم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور قبیلوں میں بٹی ہوئی تھی۔

جہاں دنیا میں عرب جیسی جاہل قوم آباد تھی وہیں دنیا کی ترقی یافتہ اور سپر پاور قوم کے اخلاقی زوال کا بھی کوئی اچھا حال نہ تھا۔ رومی قوم قیدیوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈال کر اور کبھی ان کی آپس میں جنگ کروا کر محظوظ ہوتی تھی۔ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہتی جب تک ایک فریق مارا نہ جاتا۔ دوسری طرف زرتش کسریٰ کے بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اپنی ہی بیٹی سے شادی کئے ہوئے تھا۔ غرض اخلاقی پستی میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں تھا لیکن طاقت کے گھمنڈ میں یہ سپر پاور حکومتیں آپس میں دست و گریباں تھیں۔ ایسے میں ﷲ نے دنیا کی حالت کو بدلنے کا ارادہ کیا اور اپنے پیارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو اس قوم کی طرف اتارا جو جہالت میں سب سے بڑھ کر تھی۔

اس قوم میں ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علی مرتضیٰؓ جیسے لوگ بھی موجود تھے، لیکن یہ قوم دنیا کی پست قوم تھی۔ جب ہادی دو جہاں نبی مصطفی صلی ﷲ علیہ وآل وسلم کی قیادت اس قوم کو مل گئی تو جیسے انقلاب آگیا۔ نہ صرف یہ کہ یہ قوم یکجا ہوگئی بلکہ اس قوم نے سپر پاور کو بھی شکست سے دوچار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے نہ صرف اس قوم کو قیادت دی بلکہ ایک جامع نظام بھی دیا کہ جس پر چل کر یہ قوم دنیا کی مضبوط اور منظم قوم بنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے جب اسلام کا علم بلند کیا تو ان کے اپنے قبیلے کے لوگ ان کے مخالف ہوگئے۔ غرض کہ پیار کرنے والا چچا ابولہب دشمن ہوگیا اور دعوت اسلام کے جواب میں کہنے لگا کہ مذہب ہمارا نجی معاملہ ہے۔ تم کون ہوتے ہو ہمارے نجی معاملات میں مداخلت کرنے والے، لیکن آپ متواتر ان کو اسلام کی جانب بلاتے رہے۔

14 سو برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران کئی سپر پاور دنیا پر حکمرانی کرتی رہیں، لیکن پھر دنیا نے کبھی ایسا انقلاب نہیں دیکھا جیسا اسلام لایا تھا جہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا اور عرب فتح ہوگیا۔ موجودہ دور میں امریکہ اور روس دنیا کی سپر پاور بنی ہوئی ہیں اور ایسے دور میں پاکستان میں ایک ایسی قوم بسی ہے جس میں دنیا بھر کی ساری خرابیاں موجود ہیں۔ جہاں جہالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لڑکیوں کو زندہ تو دفن نہیں کرتے لیکن پیدائش سے قبل ہی ختم کردیتے ہیں۔ یہ قوم ٹکڑوں میں اس طرح بٹی ہوئی ہے کہ ہر کوئی دوسرے کا خونی دشمن بنا ہوا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل ہوجانا معمولی بات ہے۔ جہاں کسی نظام کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف ترقی یافتہ قوموں کے اخلاقی زوال کا بھی کوئی اچھا حال نہیں ہے۔ ترقی یافتہ قوم دوسری قوموں کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھتی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گوانتاموبے جیل میں قیدیوں کو جانوروں کی طرح رکھا گیا۔

ہم جنس پرستی کوئی قابل معیوب بات نہیں بلکہ قانون کی اجازت حاصل ہے۔ روس جو کسریٰ کی طرح دنیا پر اپنی حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا اب ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اور دنیا پر رومیوں کی طرح امریکی اب حکومت کررہے ہیں۔ اسلام کا نظام موجود ہے بس ایک قیادت کی ضرورت ہے، جو دنیا کو امن دے سکے۔ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی آج بھی اس قوم میں موجود ہیں۔ جب اور جس وقت ﷲ کی مشیت ہوگی اسی قوم سے ایک ایسی قیادت ضرور ابھرے گی جو نہ صرف پوری قوم کو اپنے جھنڈے تلے یکجا کرلے گی بلکہ دنیا کو ایک ایسا نیو ورلڈ آرڈر دے گی جہاں ہر کوئی امن و سکون سے رہ سکے گا۔ جہاں کسی قوم کے فرد کو دوسری قوم کے فرد پر اس لئے قوقیت نہیں دی جائے گی کہ وہ سپر پاور ہے۔

یہ تو دنیا کے نشیب و فراز ہیں کہ جس سے دنیا گزرتی رہی ہے اور جب تک اس کی مشیت ہوگی گزرتی رہے گی۔ کسی کو دوام نہیں سوائے اس ذات کے اور وہ ذات جہاں غفور و رحیم ہے وہیں وہ ذات بے نیاز بھی ہے۔ حضرت زکریاؑ کو آرے سے چیرا گیا لیکن اس ذات پر کوئی فرق نہ پڑا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو سولی پر چڑھایا گیا لیکن اس نے ظالموں کو سزا دینے کے بجائے عیسیٰ ؑ کو اپنے پاس بلالیا۔ حضرت یحییٰ ؑ کا سر طشت میں رکھ کر بادشاہ نے اپنی محبوبہ کو پیش کیا تب بھی اس ذات پر کوئی فرق نہ آیا۔ چاہتا تو سب کچھ کر سکتا تھا لیکن اس نے کچھ نہ کیا۔ طاقت کے گھمنڈ میں دنیا کے نمرود یہ نہ سمجھیں کہ ان کی آگ ابراہیم ؑ کے ایمان کو بدل سکتی ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستان پیدا

دنیا کی زندگی تو چند روزہ اور ظاہری چمک دمک کی جگہ ہے۔ اصل زندگی تو وہ ہے جہاں مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم نے رہنا ہے اور ﷲ کا وعدہ آج بھی قرآن میں اسی طرح مومنین سے ہے کہ،
'' تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو''

[poll id="959"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں