میاں جی کی ’’سچائیاں‘‘

جب کبھی سچ ہی نہ بولا ہو توجھوٹ کے کیا معنی؟ جہاں اندھیرا ہو، وہاں روشنی آئے گی تو ہی اجالے کا احساس ہوگا ناں؟


محمد عاصم February 17, 2016
میاں صاحب آپ نے کیا خوب کہہ دیا۔ اب آپ سے اگر قوم قربانی کا تقاضہ کرے تو یہ بالکل بے تُکی بات ہے، کیوںکہ آپ تو بمع خاندان ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں۔

سچائی بھی کسی میٹھے شربت کی شیشی میں ڈال کر بازار میں برائے فروخت کے ٹیگ کے ساتھ یوٹیلٹی اسٹورز پر عام دستیاب ہوجائے تو بہت سوں کا بھلا ہوجائے گا۔ اگر دوا ساز اس قیمتی مگر نایاب عرق ِشفا کو یوں بے توقیر بازار میں بیچنا نہیں چاہتے تو قوم کی گزارش پر ہی غور فرما لیں۔ قوم پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ حضور! پلیز اس انمول شیشی کو پاکستان کے چوٹی کے سیاست دانوں کو لازمی فراہم کردیں تاکہ قوم ان صاحبوں کے مزید جھوٹ نہ سُن سکے۔

لیکن میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف صاحب نے کبھی قوم سے جھوٹ کہا ہے! میاں صاحب آپ نے بالکل سچ فرمایا کہ ''آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے''۔ کیوںکہ جب کبھی سچ ہی نہ بولا ہو تو جھوٹ کے کیا معنی؟ جہاں اندھیرا ہو، وہاں روشنی آئے گی تو تب ہی لوگوں کو اجالے کا احساس ہوگا ناں؟ ورنہ اندھا کیا جانے ''سچ'' کی برسات۔

پرانے زمانے میں گاؤں کے لوگ دوسروں کی پگڑی اچھالنے یا کسی بات کو عام کرنے کے لئے ''ماسی خبراں'' کی خدمات مستعار لیتے تھے۔ تب کمزور کی بات اکثر دب جایا کرتی تھی، لیکن اب خیر سے گلوبل ولیج کے اس دور میں ٹیکنالوجی وہ ماسی ہے، جس کے پیٹ میں سب کچھ سماتا جارہا ہے۔ سب کا سچ اور سب کا جھوٹ یکساں مواقعوں کے ساتھ ویب ماسٹرز کے مختلف ورژن پر عام و خاص کے لئے موجود ہے۔

عبدالقادر جیلانی سچائی کا سہرا پہن کر ایک نامی گرامی ڈاکو کو بھٹکا ہوا راستہ دکھا کر دونوں جہانوں میں سُرخرو ٹھہرے، اور ایک آج کے پاکستانی لیڈر ہیں کہ اس محاورہ کے مرید نظر آتے ہیں کہ ''اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے'' مگر میں سوچتا ہوں کہ اتنا جھوٹ بول بول کر ہمارے یہ من من کے لیڈر آخر کو کونسا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں؟

25 ستمبر 2012 کو میاں نواز شریف صاحب نے اپنی تجربہ کار ٹیم کے پاس ہونے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی لوڈشیڈنگ 100 دن میں ختم کرنے کا سندیسہ بھی سنا دیا۔ ایک بار ایسے جوش میں آئے کہ ''قرض اتارو، ملک سنوارو'' کے پرانے سلوگن کو نئے انداز میں یوں کہہ گئے، ''ہم کشکول لے کر نہیں گھومیں گے'' کیوںکہ اب بوری سے کم پر گزارا کرنا مشکل جو ہوگیا ہے۔ اس لئے یہ وعدہ بھی یورو بانڈز تا آئی ایم ایف قرض اسکیم تلے سانس لینے پر مجبور ہے۔ اب ذرا بِلومبرگ کی پیش گوئی ملاحظہ کیجئے، فرما رہے ہیں کہ 50 ارب ڈالر کے قرضوں کے باعث پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا شدید خدشہ ہے۔

19 اگست 2013 کو ایک تاریخی جملہ یوں فرمایا ''ترقی و کامیابی کے راستے ایثار اور قربانی مانگتے ہیں''۔ میاں صاحب آپ نے کیا خوب کہہ دیا۔ اب آپ سے اگر قوم قربانی کا تقاضہ کرے تو یہ بالکل بے تُکی بات ہے، کیوںکہ آپ تو بمع خاندان ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں۔ اب عوام کو ترقی کرنی ہے تو قربانیاں دے ورنہ چُپ کرکے کھڈے لین لگ جائے۔ ترقی کا وعدہ عوام کے لئے کیا تھا سو اب عوام ہی ساتھ دے ۔

9 مئی 2013 کو میاں صاحب نے فرمایا ''ہم پاکستانی عوام کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے، بجلی مہنگی نہیں کریں گے کہ عوام اس کا بوجھ برداشت ہی نا کرسکے''۔ اس لئے بجلی مہنگی کرکے سپلائی کم کردی ہے تاکہ لوگ زیادہ بلوں کی پریشانی سے نجات پا سکیں۔

اب میاں صاحب بہاولپور میں فرما رہے ہیں کہ نیب ''قابلِِ عزت لوگوں'' کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر ان کی عزت اور مقام مرتبہ کی تذلیل نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں سیف الرحمن کی طرح کوئی درمیان کا راستہ نکالے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے۔ ویسے میاں صاحب لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ اگر پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے ملازمین کی گردنوں کا طوق بن سکتا ہے تو پھر آپ کے چہیتے وزراء اور کارکنان کے احتساب پر اتنا شور کیوں؟ دال میں کچھ کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے؟

عوامی حلقوں میں میاں صاحب کی مقبولیت میں اضافہ اب کوئی نئی بات نہیں لگتی۔

صاحبو! دل لگتی کہوں؟ (میاں صاحب فرماتے ہیں)

کہو میاں! اب تم سے محبت ہی اتنی ہوگئی ہے کہ دل بہک بہک سا جاتا ہے۔ تم خاموش ہو تو مجھے بے چینی سی لگتی ہے۔ سو ایک اور ''سچ'' بول کر پر سکون لہروں میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ زندگی کا احساس باقی رہے۔ ویسے بھی اب یہ دنیا اللے تللے عوام کے لیے نہیں رہی۔ جلد ہی روبوٹ غریب کی جگہ کام کرنے لگ جائیں گے، پھر ہمیں ان مردہ چہروں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن تب تک تو مجھے اپنا دل بہلانے دو ناں۔ میرا بھائی زرداری دبئی بیٹھا ہے، میرا دوست خان آج کل ویسے ہی انگوٹھی پہننے کی بے تکیوں میں مصروف ہے۔ رہا سراج لالا تو وہ کرپشن فری پاکستان کے خواب ہی دیکھتے رہ جائے گا۔

[poll id="960"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں