کراچی گیس کے سنگین بحران کا اصل ذمّے دار ۔۔۔۔۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں نصب موت بانٹتے ایل پی جی سلنڈر

عام دکانوں پر فروخت ہونے والے غیر معیاری سلنڈر چلتے پھرتے بم اور مسافروں کے لیے موت کا پیغام ہیں ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
موسم سرما میں عام اور تجارتی صارفین کے لیے گیس کا کم پریشر دردِسر بن گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف خواتینِ خانہ کو کھانے کی تیاری میں مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب وہ انڈسٹریز جو گیس پر چل رہی ہیں، ان کے لیے بھی پیداواری عمل جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

مگر حکومت اور مسائل کی طرح اس مسئلے کو حل کرنے یا کم از کم اس کی ذمے داری قبول کرنے تک کو تیار نہیں ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اس لیے گیس کا بحران پیدا کررہی ہے تاکہ وہ اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے کے لیے عوام کو ایل پی جی کے استعمال پر مجبور کرسکے۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال گیس کا بحران زیادہ سنگین ہے اور حکومت گیس کی طلب اور رسد کے درمیان خلا کو پُر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم روزانہ دو سو ملین کیوبک فٹ گیس کی قلت ہے، جس سے گھریلو صارفین کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

اگرچہ رواں سال یکم جنوری کو گیس38 فی صد تک منہگی کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جو عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ گیس ٹیرف میں اضافہ صارفین کو کسی بھی صورت میں منظور نہیں، اس لیے کہ ایک طرف عوام کو گیس میسر نہیں اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں تو دوسری جانب قیمتوں میں اضافے کی نوید سنا کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔

ملک میں موجود گیس کے استعمال پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاور سیکٹر کو38 فی صد، کھاد اور دیگر انڈسٹریز کو31 فی صد، جب کہ سی این جی سیکٹر کو ملنے والی گیس کا حصہ9 فی صد ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں گیس کے بڑے خریدار صرف انڈسٹری اور بجلی گھر ہیں، جو سستے ایندھن کے حصول کے باوجود عوام کو منہگے داموں بجلی فروخت کرکے کئی گنا زیادہ منافع بٹور رہے ہیں۔

یہ طاقت ور اور بااثر مافیا ملک کو اس وقت گیس کے شدید بحران سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ یہ بڑے گروپس گیس کے ذریعے بجلی چار روپے فی یونٹ پر حاصل کررہے ہیں، جو اگر فرنس آئل پر حاصل کی جائے تو وہ 14 روپے فی یونٹ بنتی ہے، اس لیے یہ مافیا نہیں چاہتی کہ ملک میں سستی گیس عوام کو ملے۔ دوسری جانب سی این جی کی عدم دست یابی نے ایل پی جی کی طلب بے تحاشا بڑھا دی ہے، اور ایل پی جی گیس مافیا روزانہ سات کروڑ روپے کی ناجائز منافع خوری کررہی ہے۔

گرمیوں کی بہ نسبت سردیوں میں ایل پی جی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، کیوں کہ سوئی گیس اور سی این جی کی کمی کے باعث گھروں اور گاڑیوں میں اس گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ شہرِ قائد میں تقریباً 35 لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی ہیں، جن میں لگ بھگ ڈیڑھ سے دو لاکھ ایسی گاڑیاں ہیں جس میں ایل پی جی سلنڈر نصب ہیں۔


ان میں رکشہ، ٹیکسی، پک اپ اور پبلک ٹرانسپورٹ قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ہوٹلز، بیکریز اور رات کو خصوصاً پھل فروشوں کے ٹھیلے والے روشنی کے لیے ایل پی جی سلنڈر کا استعمال کرتے ہیں۔ پولٹری فارموں میں مرغیوں کو حرارت فراہم کرنے کے لیے ہیٹر بھی ایل پی جی پر چلائے جاتے ہیں۔ تاہم ایل پی جی قانون کے مطابق کھلی جگہوں پر فروخت نہیں کی جاسکتی لیکن کراچی سمیت پاکستان بھر میں یہ جرم سرعام ہورہا ہے۔ گلی محلے کی عام دکانوں پر ایل پی جی گیس فروخت کرنے والے اپنے صارفین کو ناقص سلنڈر کے ساتھ پورے پیسوں میں گیس بھی کم فراہم کرتے ہیں۔

ایل پی جی فروخت کنندگان ایک طرف تو اپنے ناقص سلنڈر سے صارف کے سلنڈر میں گیس منتقل کرتے ہیں جو غیر قانونی ہی نہیں، بل کہ انسانی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ فلنگ کے دوران گیس کے ساتھ ہوا کا پریشر بھی ڈال دیا جاتا ہے جو خطرناک تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ وہ کم گیس کو زیادہ بتاکر صارفین کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے ساتھ ان سے زیادہ پیسے بھی وصول کررہے ہیں۔ یہ سارے جرائم انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ناممکن ہیں۔

دوسری جانب مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث ایل پی جی کے لیے استعمال ہونے والے ناقص سلنڈر پھٹنے سے حادثات کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں عوام کے اردگرد غیر معیاری ایل پی جی سلنڈر چلتے پھرتے بم اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافروں کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ جن کی وجہ سے اب تک سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، لیکن حکومتی ادارے بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی، بڑی تمام پبلک ٹرانسپورٹ رکشہ سے لے کر بسوں تک ایل پی جی استعمال کر رہی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ایل پی جی کے لیے جو سلنڈر استعمال کیے جارہے ہیں، وہ انتہائی ناقص ہیں، جس کے باعث آئے روز ملک میں کہیں نہ کہیں سلنڈر پھٹنے کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ سلنڈر کی کوالٹی چیک کرنے کی ذمے داری ملک کے تین اداروں ضلعی حکومت (HDIP) ہائیڈروکاربن ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور اوگرا پر ہے، جو اپنی ذمے داری سے کوتاہی کے مرتکب ہیں۔

غیر معیاری سلنڈر کا سب سے زیادہ استعمال رکشوں میں ہورہا ہے۔ البتہ حکومت کی جانب سے چند سال قبل ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹُو اسٹروک رکشوں کی جگہ ملک میں سی این جی اور پٹرول سے چلنے والے فور اسٹروک رکشے متعارف کرائے گئے تھے، لیکن ملک میں سی این جی کی دست یابی انتہائی مشکل اور پٹرول کے نرخ زیادہ ہونے کے باعث رکشہ اور ٹیکسی والے ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایل پی جی کے استعمال کے لیے رکشے اور ٹیکسی والوں نے ایل پی جی کے ناقص سلنڈر نصب کرائے ہیں، جب کہ دیگر ٹرانسپورٹر بھی اپنی گاڑیوں میں غیرمعیاری سلنڈر استعمال کررہے ہیں۔

آج تک کسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جب بھی کوئی شور مچایا جاتا ہے وہ صرف بڑی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہوتا ہے، جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں لگے سلنڈرز کو چیک کرنے کی اشد ضرورت ہے، لیکن ضلعی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ چند دن کاغذی کارروائی کی جاتی ہے اس کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔

مقتدر حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائے جو اس معاملے کو حل کرنے کا جائزہ لے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ کم پریشر، لمبی قطاروں اور گیس کے مصنوعی بحران سے عوام کو نجات مل سکتی ہے۔
Load Next Story