آرزو گزیدہ
اس وقت بھی میرے پیش نظر ایک کالموں کا مجموعہ ہے جس کا نام ’’آرزو گزیدہ‘‘ ہے
الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کا سائیڈ ایفکٹ پرنٹ میڈیا پر اس طرح سے پڑا ہے کہ اب وہاں نیوز کے بجائے ویوز کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے کہ خبریں تو اشاعت سے پہلے ہی قارئین تک پہنچ چکی ہوتی ہیں، یوں اب گزشتہ تقریباً بیس برس سے ہر اہم اخبار میں کالموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جب کہ اس سے قبل اکثر اخبارات میں ایک دو فکاہیہ کالموں سے کام چلا لیا جاتا تھا۔
سو ہم دیکھتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر ستر کی دہائی کے آغاز تک گنتی کے چند کالم نگار ہی اپنی پہچان کرانے میں کامیاب ہوئے ان میں چراغ حسن حسرت' احمد ندیم قاسمی' ابراہیم جلیس' عبدالقادر حسن' ابن انشاء' نصراللہ خان' انعام درانی' انتظار حسین' رئیس امروہوی کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں، اگلے تیس برسوں میں ان کی مجموعی تعداد میں اضافہ تو ہوا مگر زیادہ نمایاں ناموں کی فہرست پھر بھی مختصر ہی رہی۔
اس دور میں جن لوگوں نے تسلسل سے لکھا اور اپنی شناخت بنائی ان میں عطاء الحق قاسمی' نذیر ناجی' ارشاد احمد حقانی' عرفان صدیقی' مجیب الرحمن شامی' حمید اختر' حسن نثار' جمیل الدین عالی اور ضیا شاہد وغیرہ کے نام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں جب کہ دور حاضر میں صرف چھ بڑے اخبارات میں تسلسل سے لکھنے والوں کی تعداد ایک سو سے اوپر ہو چکی ہے اور ان میں سے کئی ایک کے کالم کتابی صورت میں بھی چھپ چکے ہیں۔
اس وقت بھی میرے پیش نظر ایک کالموں کا مجموعہ ہے جس کا نام ''آرزو گزیدہ'' ہے اور جس کے مصنف انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر جاوید اقبال ہیں جو گزشتہ 35 برس سے ریاض (سعودی عرب) میں مقیم ہیں اور تقریباً 18 برس اردو نیوز جدہ میں ہفتہ وار ایسے عمدہ اور پہلو دار کالم تسلسل سے لکھ رہے ہیں کہ کم از کم مجھے انھیں اس دور کے نمایندہ ترین کالم نگاروں میں شامل کرتے ہوئے کسی قسم کا تامل نہیں ہوتا۔
جاوید اقبال اگر کالم نگار نہ ہوتے تو یقیناً ایک بہت عمدہ افسانہ نویس یا ڈرامہ نگار ہوتے کہ اپنی بات کو رواں دواں تمثیلی انداز اور ایک کہانی کی شکل میں پیش کرنے کی بے مثال فطری صلاحیت کے باعث وہ کسی بھی صنف ادب میں اپنے جوہر دکھا سکتے تھے یوں تو جزوی طور پر اس تکنیک کو اور بھی کئی اہم کالم نگاروں نے کامیابی سے استعمال کیا ہے مگر میری ذاتی رائے میں جاوید چوہدری اور عطاء الحق قاسمی کو اس صف کے سالاروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جب کہ وسعت اللہ خان اور جاوید اقبال میں بھی کئی باتیں مشترک ہیں ۔اتفاق سے مجھے اس کتاب کا مسودہ دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے جس پر دی گئی رائے اس کتاب میں شامل بھی کی گئی ہے، سو بات کو آگے بڑھانے سے قبل آئیے اس کے ایک اقتباس پر نظر ڈالتے ہیں۔
''ان کالموں میں ایک مکالمے اور افسانے کی سی فضا پائی جاتی ہے لیکن اس کا تعلق تو Form یعنی ہیئت سے ہے جس چیز نے ان کالموں کو طاقت اور انفرادیت دی ہے وہ ان کا نفس مضمون یعنی Content ہے۔
موضوعات اور ان کی تفہیم اور ترسیل کے اعتبار سے ان کالموں میں رفعت' وسعت اور گہرائی تینوں عناصر بہت خوب صورت تناسب کے ساتھ آپس میں گھل مل گئے ہیں، ان میں تنوع بھی ہے اور وژن بھی اور ایک درد مند چشم نظارہ بھی۔ جاوید اقبال ہیں تو سعودی عرب میں لیکن ان کا دل ہمیشہ اپنے اہل وطن کے ساتھ اور ان کے لیے دھڑکتا ہے۔
ان کالموں میں یادوں' یادداشتوں اور کرداروں کا ایک جہاں آباد ہے لیکن غور سے دیکھئے تو ان میں ایک عجیب سا فکری تسلسل بھی پایا جاتا ہے، بات چاہے کسی VVIP کی ہو یا جہلم کی گلیوں میں پھرتی کسی نیم دیوانی عورت یا تحریک پاکستان کو بیان کرتے ہوئے کسی بظاہر فاتر العقل بوڑھے کی' آپ کو ان سب کی باتوں میں ایک ایسی دانش انسان دوستی اور آدرش پسندی نظر آئے گی جس کی بے قدری نے ہمارے اور ہمارے جیسے کئی دوسرے معاشروں کو بے سمتی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے''
مستنصر حسین تارڑ نے اس کتاب کے تعارف میں لکھا
''میری نظر بھی جاوید کے کالموں پر قربان ہو گئی اور میں آسانی سے قربان ہونے والوں میں سے نہیں ہوں، حسن تحریر اور حسن خیال مجبور کرتے ہیں تو قربان ہوتا ہوں مجھے محسوس ہوا کہ ان کا ہر کالم اس دراز کار جہاں کے' اس زندگی کے ناول کا ایک باب ہے اور ہر باب اپنے کرداروں' کہانی پن اور موثر پیرایہ افکار میں مکمل ہے... آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر کرداروں اور واقعات کا تسلسل پورے ناول پر محیط نہیں ہے تو پھر ہم اسے ناول کیسے کہہ سکتے ہیں... لیکن ذرا قیاس کیجیے کہ زندگی میں بھی تو کرداروں اور واقعات کا تسلسل نہیں ہوتا کہ یہی زندگی ہے اور یہی جاوید اقبال کے کالم ہیں''
مجموعی طور پر ''آرزو گزیدہ'' میں شامل یہ 81 کالم (جو نو سو میں سے منتخب کیے گئے ہیں) ہمارے عہد کی ایک ایسی دستاویز ہیں جو بہت مہارت اور درد مندی سے مرتب کی گئی ہے، مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کالم اردو نیوز جدہ کے ساتھ ساتھ کسی نمایندہ پاکستانی اخبار میں بھی شایع ہوتے تو آج جاوید اقبال کا نام کالم نگاری کے حوالے سے ایک ریفرنس کے طور پر لیا جاتا۔
ان کالموں کا ظاہر اور باطن دونوں اس قدر متنوع' معیاری اور دل و دماغ کو بیک وقت چھونے اور متاثر کرنے والے ہیں کہ جن کی مثال ڈھونڈنا اگر نا ممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے اور اس اعتبار سے یہ کتاب بار بار پڑھتے اور سنبھال کر رکھنے کی ایسی چیز بن گئی ہے جو یقیناً اہل ذوق کو اپنے نقش ثانی کی منتظر رکھے گی۔