درمیانِ قعردریا

یوں لسانی اور قومیتی بنیادوں پر منقسم قوم مزید تقسیم ہوتی چلی گئی مگر اس وقت تک کسی کے کان پر جوں نہ رینگی

muqtidakhan@hotmail.com

MANCHESTER:
وفاقی وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں اپنی وزارت کے اہم ترین شعبے IBکے سربراہ کی سینیٹ کمیٹی میں پیش کردہ رپورٹ کو جھٹلا دیا۔ انھیں اپنے ملک میں ہزاروں لاکھوں افراد کو قتل کرنے والے مذہبی شدت پسند عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اندر ہی اندر جڑیں پکڑتی داعش کے علاوہ سعودی وزیر کا یہ الزام قابل توجہ ہے کہ پاکستان سے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے لیے رضاکار بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

دہشت گردی کے بارے میں ریاستی حلقوں کے مختلف بیانیے (Narratives) پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی اس عفریت پر واضح نقطہ نظراختیار کرنے اور کنٹرول کیے جانے کی جامع حکمت عملی تیار کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آئی بی کے سربراہ کی تفصیلی رپورٹ رد کرنے سے پہلے آیا اس پہلو پر غور کیا گیا کہ اس طرز عمل سے عوام میں کیا تاثرات پیدا ہوں گے؟ کیا اس طرح مختلف ادارے موصول ہونے والی اہم رپورٹس کو شئیر کرنے سے گریز نہیں کریں گے؟ مگر اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ اس قسم کے بیانات کی نزاکت اور حساسیت کو محسوس نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ریاستی مقتدرہ کے مختلف حلقوں کے درمیان Perceptionکا فرق اس قدر گہرا ہوچکا ہے کہ حساس قومی امور تک کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔

جہاں تک ملک کو درپیش مسائل کے حل کا تعلق ہے تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، یہی دیکھا کہ کوئی مسئلہ سنگین ہوا تو دوڑو، بھاگو اور پکڑو شروع ہوگئی مگر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا پڑا ، بے نیازی کی وہی پرانی ڈگر۔ جس کی وجہ سے مسئلہ اپنی جگہ نہ صرف موجود رہتا ہے، بلکہ اندر ہی اندر سنگین ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے، جب یہ بحرانی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اب اسے حکمران اشرافیہ کی درویشانہ بے نیازی سمجھیے یا ان کی کوتاہ بینی، یہ فیصلہ خود قارئین کریں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اس قسم کی حساس رپورٹس کسی سیاسی مقاصد کے بغیر رد نہیں کی جاسکتیں۔

اس سلسلے میں دو برس قبل مولانا رومی یونیورسٹی (ترکی) کے ایک پروفیسر کے ساتھ ہونے والی گفتگو بیان کرنا بے محل نہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ جن قوموں کی جینیات (Genes) میں غلامی شامل ہوجاتی ہے، ان کی نفسیات غیر متوازن ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے فیصلوں پر عقل و خرد کے بجائے جذباتیت حاوی ہوتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن اہم اور سنگین معاملات پر فوری اور بھر پور ردعمل دیا جانا چاہیے، ان پر بے حسی اور خاموشی اختیار کرتی ہیں جب کہ معمولی سی باتوں پر حد سے بڑھے ہوئے غم و غصے کا اظہار کرتی ہیں ، اگر پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کی گزشتہ68برسوں کے دوران جاری نفسیات پر نظر ڈالی جائے، تو ترک پروفیسر کے خیالات کی عملی تفسیر نظر آئیں گے۔ معروف دانشور انور مقصود نے بھی ایک مرتبہ اسی نفسیات کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستانی وہ قوم ہیں، جو جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھتے ہیں۔

اب یہی دیکھیے کہ پاکستان کے قیام کو 68 برس ہوچکے ہیں، مگر آج بھی کوئی کام سیلقے سے نہیں کیا گیا۔ ابتدائی دور میں حکمرانوں نے پوری قوم کو فکری اور تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کر دیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں انھیں باورکرایا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ جنرل ضیا نے اس تصور کو فروغ دیا کہ پاکستان پوری دنیا میں اسلام کا محافظ ہے۔

اسی دور میں یہ تاثر بھی بڑے شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا کہ جب پاکستان سوویت یونین جیسی سپر پاور کو نیست ونابود کر سکتا ہے، تو امریکا کو بھی اسی طرح ملیامیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب نواز دور میں ایٹمی دھماکے ہوئے تو بعض حلقوں نے اسے اسلامی بم کا نام دے کر اہل وطن کو مزید نفسیاتی برتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔

یوں لسانی اور قومیتی بنیادوں پر منقسم قوم مزید تقسیم ہوتی چلی گئی مگر اس وقت تک کسی کے کان پر جوں نہ رینگی، جبتک کہ مذہبی انتہا پسندی نے متشدد فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل اختیار نہیں کر لی۔ اب جب کہ ہزاروں شہری، تعلیمی ادارے ، حساس تنصیبات شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں، حکمران اشرافیہ میں لایعنی بحثیں جاری ہیں ۔ کوئی کسی شدت پسند مولوی کو بچانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ کوئی اچھے اور برے طالبان کا فلسفہ جھاڑ کر ان کے لیے اپنے اندرکی ہمدردیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

غیر سنجیدہ روش کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دسمبر1971 میں ملک دولخت ہوجاتا ہے۔ یہ ایک سانحہ عظیم تھا ، مگر اس سانحے پر سوائے چند سابق فوجی افسران کی تحاریر کے علاوہ سیاسیات و عمرانیا ت کے کسی ماہر یا مورخ کی قابل ذکر تجزیاتی تحریر سامنے نہیں آسکی۔ اسی طرح طرز حکمرانی کے بارے میں ابہام بھی مسلسل چلا آرہا ہے۔


صرف عوام ہی نہیں بلکہ بیشتر اہل دانش بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ ملک کے لیے کون سا نظام حکمرانی سود مند ہے؟ صدارتی یا پارلیمانی؟ کئی قلم کار آج بھی بڑی شد و مد کے ساتھ صدارتی نظام کے حق میں مہم چلارہے ہیں۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا آئین انڈیا ایکٹ1935 کی کاربن کاپی ہے جس میں صدارتی نظام کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ ایوب خان نے نیا آئین دے کر جب کہ جنرل ضیاالحق اور پرویز مشرف نے آئین میں من مانی تبدیلیاں کر کے اسے صدارتی بنانے کی اپنی سی موہوم کوششیں بھی کیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔یہ صورتحال بھی ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات کو ظاہرکرتی ہے۔

اسی طرح انگریز نے 1860سے1872کے دوران جو دیوانی اور تعزیراتی قوانین متعارف کرائے ، ہمارا پورا انتظامی اور عدالتی نظام ان ہی قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ بڑے معاملات کو تو جانے دیجیے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی حکومت نے ڈیڑھ سو برس پرانے ان قوانین میں ترمیم و اضافے اور انھیں آج کی دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا کبھی تھانہ کلچر اور پٹواری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر توجہ دی؟ کیا پولیس کے نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی؟ تو ان تمام سوالات کا جواب نفی میں آئے گا جس سے ریاستی منصوبہ سازوں کی نااہلی اور کوتاہ بینی ظاہر ہوتی ہے۔

یہاں کراچی آپریشن کی مثال پیش کرنا چاہیں گے۔4 ستمبر2013کو جب اس بارے میں صحافیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے وزیر اعظم نے ایک اجلاس گورنر ہاؤس میں منعقد کیا، تو راقم کا موقف تھا کہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کی بہتری کے لیے بیشک رینجرز سے مدد لی جائے۔ لیکن ساتھ ہی پولیس میں تطہیر اور اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا جائے کیونکہ امن وامان قائم کرنے کی بنیادی ذمے داری پولیس ہی کی ہوتی ہے۔

کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ایک متعین مدت کے لیے ضرور تعینات کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے غیر معینہ مدت کے لیے پولیسنگ اختیارات دینے سے ان گنت قانونی و انتظامی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پولیسنگ کی تربیت نہیں ہوتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی آپریشن کو ڈھائی برس ہونے کو آئے ہیں صوبائی اور وفاقی حکومت نے پولیس کے محکمے میں تطہیر اور اس کی اصلاحات کے لیے رتی برابر بھی کام نہیں کیا گیا۔ اسی روش اور رویے کا شاخسانہ ہے کہ ہماری ریاست ابھی تک دہشت گردی سمیت کسی بھی قبیح جرم پر قابو پانے میں ناکام ہے۔

حافظ شیرازی کاایک شعر ہے کہ:

درمیانِ قعر دریا تختہ بندھن کردہ ای

بعد می گوئی،دامن ترمکن ہشیار باش

یعنی مجھے ایک تختہ سے باندھ کر بیچ منجدھارمیں پھینک دیا اور حکم صادر کیا کہ دامن تر نہ ہونے پائے۔ اصل میں تو اس شعر کا پس منظر صوفیانہ ہے مگر اسے عام دنیاوی معاملات میں بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔وطن عزیز میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے۔

لوگوں کو مسائل کی منجدھار میں پھینک کر انھیں کہا جاتا کہ وہ اس پر احتجاج بھی نہ کریں اور چپ سادھے حکمرانوں کے ظلم و ستم سہتے رہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کیونکہ حکمران اپنی نااہلیوں اور کوتاہ بینی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور غلط فیصلوں کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ڈال کر ان کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنارہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت مزید کنفیوژن پھیلانے کے بجائے ٹھوس عملی اقدامات کرکے عوام کو مختلف نوعیت کے بحرانوں اور عفریتوں کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کرے۔
Load Next Story