ٹریفک نظام کی بہتری سینئر شہریوں سے مدد لیں

اس صورتحال میں شہر میں چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں ٹریفک اہلکاروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے


Sajid Ali Sajid February 18, 2016
[email protected]

KARACHI: معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ٹریفک نظام میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لیے ایک منفرد انداز سے ملک کے سینئر سٹیزنز کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن سے کہا جائے گا کہ وہ ٹریفک کی خلاف ورزیوں کو چیک کرنے میں ٹریفک پولیس کی مدد کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں گاڑیوں کی تعداد اور ٹریفک میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ٹریفک کی خلاف ورزیاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں، جن کا نظارہ کسی بھی ٹریفک سگنل پر کیا جا سکتا ہے جہاں مختلف گاڑیوں کے ڈرائیور بڑی آزادی سے سگنل توڑتے نظر آتے ہیں۔

سچی بات ہے اتنے بڑے شہر میں محض ٹریفک پولیس ہی نہ تو شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹریفک کو کنٹرول کر سکتی ہے اور نہ تمام ٹریفک سگنلوں کی رکھوالی کر سکتی ہے، خاص طور پر جب کہ اسے دوسرے بہت سے اہم کام کرنے ہوتے ہیں، جابجا گزرنے والی کاروں اور موٹر سائیکلوں کے کاغذات چیک کرنے ہوتے ہیں۔ وی آئی پی ڈیوٹیاں بھی بھگتانی پڑتی ہیں۔

اس صورتحال میں شہر میں چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں ٹریفک اہلکاروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ٹریفک کے قوانین کی بڑی آزادی سے دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، جابجا ٹریفک کے اژدھام نظر آتے ہیں، جن کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض ناپسندیدہ عناصر ایسے ہی ٹریفک جام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے بنیادی طور پر ٹریفک والنٹیئرز کی تجویز پیش کی تھی جسے تھوڑا سا بہتر بنا کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ سینئر سٹیزنز کو ٹریفک کے نظام کی نگرانی کی ذمے داری سونپی جائے اور اس مقصد سے بہت چھان پھٹک کر کم از کم ایک سو سینئر شہریوں کا گروپ منتخب کیا جائے، جن کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔

یہ سینئر شہری چاہیں تو اپنی مدد کے لیے اپنی مرضی کے ٹریفک رضاکار متعین کر سکتے ہیں۔ یہ سینئر شہری اور ان کے منتخب کردہ رضاکار شروع میں تو رضاکارانہ خدمات انجام دیں گے مگر آگے چل کر ایک مناسب سا الاؤنس انھیں دیا جا سکتا ہے۔

ان سینئر شہریوں کو آخر کس طرح منتخب کیا جائے گا۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا، اس میں خاصی دشواریاں پیش آئیں گی جب کہ اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ کس معیار کے لوگ اس کام کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک طریقہ کار اور مطلوبہ معیار طے کیا گیا ہے۔

مثلاً جو افراد اس اہم ذمے داری کے لیے اپنے آپ کو والنٹیئر کریں گے، وہ مندرجہ ذیل خصوصیات کے حامل ہوں گے سب سے پہلے تو یہ کہ ان کی عمر کم از کم ساٹھ سال ہو گی تا کہ وہ سینئر سٹیزن گروپ کے لیے کوالیفائی کر سکیں، دوسری شرط یہ کہ وہ یا تو خود ڈرائیوکرتے ہوں گے یا ڈرائیور کے ساتھ سفر کرتے ہوں گے وہ جسمانی طور پر صحتمند اور چاق و چوبند ہوں گے اچھی شہرت اور غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ہوں گے جن کے کسی فیصلے پر بھی کوئی انگشت نمائی نہیں کر سکے گا۔

پھر ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سرگرم زندگی گزار رہے ہوں گے اور ان کی مصروفیات کچھ ایسی ہوں گی جو انھیں روزانہ صبح کے Rush Hours میں گھر سے نکلنے اور شام کے مصروف اوقات میں جب شہر کا ٹریفک نقطہ عروج پر ہوتا ہے گھر واپس آنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ خاصے مستعد ہوں گے اور ضرورت پڑنے پر Presence of Mind کا مظاہرہ کر سکیں گے۔

ان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ صبح شام یا دن کے کسی اور وقت شہر کے کسی حصے سے سفر کرتے ہوئے اپنے آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور جیسے ہی ٹریفک سگنل توڑنے سے لے کر اوور اسپیڈنگ اور غلط پارکنگ سمیت کوئی خلاف ورزی ہوتے دیکھیں فوراً اس گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیں اور کنٹرول روم کو لکھوا دیں۔

اب اس سے آگے کا کام ٹریفک ڈپارٹمنٹ کا ہو گا، جو اس نمبر کے ذریعے خلاف ورزی کرنے والی گاڑی کے ڈرائیور کا نام پتہ ٹریس کرے گا اور اس پتے پر چالان کے کاغذات بھجوائے گا۔ نام پتہ دریافت نہ ہونے کی صورت میں ایسی گاڑیوں کے نمبر اخبارات میں شایع کرائے جائیں گے۔ ابھی یہ بات طے ہونی باقی ہے کہ سینئر سٹیزن جن گاڑیوں کو خلاف ورزی کرتے پکڑیں گے ان کے نمبر وہ روزانہ بنیادوں پر لکھوائیں گے یا ہفتہ وار بنیادوں پر۔

جیساکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں ان سینئر شہریوں کو اپنی مدد کے لیے ٹریفک رضاکاروں کی خدمات حاصل کرنے کی چوائس دی جائے گی جن کو وہ اپنے علاقوں میں ٹریفک سگنلوں پر تعینات کر سکیں گے۔ یہ ایسے مقامات پر ٹریفک سگنلز کام نہ کرنے کی صورت میں ٹریفک کنٹرول کریں گے اور ٹریفک کی خلاف ورزیاں نوٹ کریں گے ان کی اس رضاکارانہ ڈیوٹی کی خاص بات یہ ہوگی کہ وہ اپنے موبائل کے ذریعے ایسی خلاف ورزیوں کی تصویریں اتارنے کی کوشش کریں گے اور یہ دستاویزی ثبوت اپنے علاقے کے سینئر سٹیزن کو پیش کریں گے جن کے تحت وہ کام کر رہے ہیں۔

سینئر شہریوں اور ان کے ماتحت رضاکاروں کا دائرہ کار ٹریفک کانسٹیبلوں کے علاقوں سے متصادم نہیں ہو گا اور وہ زیادہ تر ایسے مقامات پر ٹریفک کی خلاف ورزیاں نوٹ کریں گے جو ٹریفک کانسٹیبلوں کی پہنچ سے بچے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سینئر شہریوں کے کام کرنے سے ٹریفک کانسٹیبلوں کی ''سرگرمیاں'' متاثر نہیں ہوں گی اور ان کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑے گی۔

پالیسی میکرز نے اس کا بندوبست اس لیے کیا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ اگر یہ نہیں کیا تو یہ اسکیم ٹیک آف ہی نہیں کر پائے گی انھوں نے پہلے سے یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ سینئر شہریوں اور رضاکاروں کا یہ گروپ ٹریفک عملے کی مدد اور سہارے کے لیے اور کسی طور پر بھی ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ بلکہ چالان بھی اسی صورت میں کاٹے جائیں گے جب ٹریفک عملے کے افراد خلاف ورزی کرنے والے شہری کا انٹرویو کر کے اپنا اطمینان کر لیں گے۔ اگر وہ تعاون کریں اور دل لگا کر کام کریں تو نیا نظام ان کے لیے اضافی آمدنی کا بھی باعث بن سکتا ہے۔

اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اس طرح کا اختیار ملنے پر سینئر شہری اپنی ذاتی دشمنیاں نکال سکتے ہیں، نئے پرانے اسکور Settle کر سکتے ہیں اور اپنے بدتمیز پریشان کن پڑوسیوں سے انتقام لے سکتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا تھا کہ اس نظام کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ کس معیار کے افراد اس اہم ذمے داری کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں جو لوگ دیانتداری سے چنے جائیں گے یقینا وہی ڈلیور کریں گے اور وہ کوئی ایسی غلط حرکت نہیں کریں گے جس سے ان کی نیک نامی پر حرف آئے۔

سینئر شہریوں کی اس مانیٹرنگ کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ ٹریفک کی خلاف ورزیاں کرنے والے خبردار ہو جائیں گے اور انھیں یہ خوف لاحق ہو جائے گا کہ آسمان پر خدا کے علاوہ زمین پر بھی کوئی مخلوق انھیں دیکھ رہی ہے اگر اس مقصد سے ممکن ہوا تو سینئر شہریوں کی گاڑیوں پر کوئی ایسا مارک یا نشان لگا دیا جائے گا تا کہ کہیں بھی ان کی موجودگی عام لوگوں کو ٹریفک کی خلاف ورزیوں سے باز رکھ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں