بلوچستان میں آئینی بحران
بلوچستان میں آئینی بحران کا فائدہ وزیراعلیٰ کے مخالفین نے بھرپور طورپر اٹھایا ۔
ISLAMABAD:
بلوچستان میں امن وامان کی ابتر صورتحال پر سپریم کورٹ کا عبوری حکم کہ بلوچستان حکومت اپنی آئینی حیثیت کھوچکی ہے کے بعد سے صوبے میں ایک آئینی بحران پیداہوگیاہے اور یہ طے کرنا مشکل نظر آرہاہے کہ بلوچستان میں حکومت کو سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد حکومت کرنی چاہیئے یا نہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے اسمبلی سیکرٹریٹ کو گذشتہ دنوں ایک خط لکھاگیا جس میں یہ کہاگیا کہ نو اور دس نومبر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سرمائی دارالحکومت گوادر میں بلایاجائے۔ جس پر سپیکر محمد اسلم بھوتانی نے سپریم کورٹ کے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاملہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ سے گورنر سیکرٹریٹ کو خط لکھ دیا گیا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیاجائے کہ اس حکم کے بعد صوبائی حکومت کی آئینی حیثیت کیا ہے اورکیا اسمبلی کا اجلاس بلانا آئینی طورپر صحیح ہے یا یہ توہین عدالت ہوگی۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ اگرہم اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہیں تو کہیں توہین عدالت کے مرتکب تو نہیں ہوں گے۔
اسی طرح ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں سپیکر نے بتایا کہ گورنر سیکرٹریٹ کو خط لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے وقت مل جائے گا اور گوادر میں اسمبلی کے اجلاس پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے بچاجاسکے گا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی جو مخلوط حکومت میں شامل پارلیمانی جماعتوں کے اراکین کے ہمراہ اسلام آباد میں تھے انہیں سپیکر کا یہ اقدام ناگوار گزرا اورانہوں نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں یہ تک کہہ دیا کہ سپیکر کو انہوں نے اس منصب پر بٹھایا لیکن انہوں نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا۔ اس طرح یہ معاملہ سپیکر اور وزیراعلیٰ کے درمیان مزید کشیدگی پیداکرتاگیا تو سپیکر نے بھی کہہ دیا کہ مجھے اراکین اسمبلی نے سپیکر منتخب کیا ہے جس میں ایک ووٹ وزیراعلیٰ کا بھی ہے۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے اراکین اسمبلی کے ہمراہ لاپتہ افراد کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تاکہ ان کی حکومت کی پوزیشن واضح ہوسکے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس یہی تھے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ تحریری طورپر بتایا جائے کہ بلوچستان حکومت کس حیثیت میں کام کررہی ہے کیونکہ اس کی آئینی اتھارٹی ختم ہوچکی ہے اور بلوچستان حکومت آئین کے نفاذ کے بغیر کیسے چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے بلوچستان حکومت کی جانب سے10اکتوبر کے فیصلے کوواپس لینے کی استدعا کی گئی تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ مذکورہ فیصلہ برقرار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہناتھا کہ انہیں62ارکان کا اعتماد حاصل ہے ،وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوکر الزامات کا دفاع کریں گے۔
بلوچستان میں آئینی بحران کا فائدہ وزیراعلیٰ کے مخالفین نے بھرپور طورپر اٹھایا پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور بلوچستان اسمبلی کے رکن میر صادق عمرانی نے بھی پریس کانفرنس میں یہ کہہ دیا کہ صوبائی حکومت غیر آئینی طورپر چل رہی ہے، اپنے مختلف ٹی وی انٹرویوز میں انہوں نے صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی اورکرپشن وبدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کئے۔ یہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ پیپلزپارٹی قلات ڈسٹرکٹ کے صدر رفیق سجاد نے پارٹی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاکر وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی پارٹی رکنیت بھی تین ماہ کیلئے معطل کردی۔
اس حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بڑا واویلا مچا اوراس کا ذمہ دار میر صادق عمرانی کو ٹھہرادیاگیا کہ وزیراعلیٰ کی بنیادی رکنیت انہی کے کہنے پر معطل کی گئی لیکن صادق عمرانی کا موقف ہے کہ چونکہ وزیراعلیٰ کی رکنیت قلات زون سے ہے اور ڈویژنل صدر بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس معاملے کو اس خوشگوار جملے پر ختم کردیا کہ ان کی پارٹی سے بنیادی رکنیت کوئی ختم نہیں کرسکتا اور جو ختم کرے گا وہ اسے دس روپے انعام دیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کے بارے میں عبوری حکم نامے کے بعد گورنر نواب مگسی نے صوبائی حکومت کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کرنے کا مشورہ دیا جس پر نواب رئیسانی حکومت کی اہم اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام نے نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے یہاں تک کہہ دیا کہ گورنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ دراصل صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے مترادف ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ نواب رئیسانی عید کے تیسرے روز مولانا عبدالواسع کو اعتماد میں لینے کے لئے ان کے آبائی گھر قلعہ سیف اﷲ گئے-
بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کا معاملہ تو ابھی چل رہا ہے، اسمبلی کا اجلاس گوادر میں نہ ہونے کے بعد اب صوبائی کابینہ کا اجلاس9نومبر کو گوادر میں طلب کرلیاگیا تھا،اس حوالے سے ایس اینڈ جی اے ڈی کیبنٹ ڈویژن سے ایک اعلامیہ جاری کیاگیا جس میں اراکین اسمبلی سے کہاگیا کہ وہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کریں اس موقع پر وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز مشرف بھی کابینہ کے اراکین سے ملیں گے۔ سیاسی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ گوادر میں کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے عبوری حکم کا جائزہ لیاجائے گا اور وزیراعظم سے اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی ۔ بالآخر ان تمام معاملات کے بعد گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے اسمبلی کا اجلاس13 نومبر کو کوئٹہ میں طلب کرلیا ۔ تاہم بعض سیاسی جماعتیں اورآئینی ماہرین کا موقف ہے کہ عبوری حکم نامے کے بعد کابینہ کا اجلاس بلانا غیر آئینی اقدام ہے، بلوچستان میں ان ہائوس تبدیلی آتی ہے یا حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے اس کیلئے 20نومبر کو سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کی سماعت تک انتظار کرنا ہوگا۔
بلوچستان میں امن وامان کی ابتر صورتحال پر سپریم کورٹ کا عبوری حکم کہ بلوچستان حکومت اپنی آئینی حیثیت کھوچکی ہے کے بعد سے صوبے میں ایک آئینی بحران پیداہوگیاہے اور یہ طے کرنا مشکل نظر آرہاہے کہ بلوچستان میں حکومت کو سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد حکومت کرنی چاہیئے یا نہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے اسمبلی سیکرٹریٹ کو گذشتہ دنوں ایک خط لکھاگیا جس میں یہ کہاگیا کہ نو اور دس نومبر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سرمائی دارالحکومت گوادر میں بلایاجائے۔ جس پر سپیکر محمد اسلم بھوتانی نے سپریم کورٹ کے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاملہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ سے گورنر سیکرٹریٹ کو خط لکھ دیا گیا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیاجائے کہ اس حکم کے بعد صوبائی حکومت کی آئینی حیثیت کیا ہے اورکیا اسمبلی کا اجلاس بلانا آئینی طورپر صحیح ہے یا یہ توہین عدالت ہوگی۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ اگرہم اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہیں تو کہیں توہین عدالت کے مرتکب تو نہیں ہوں گے۔
اسی طرح ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں سپیکر نے بتایا کہ گورنر سیکرٹریٹ کو خط لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس سے نہ صرف اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے وقت مل جائے گا اور گوادر میں اسمبلی کے اجلاس پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے بچاجاسکے گا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی جو مخلوط حکومت میں شامل پارلیمانی جماعتوں کے اراکین کے ہمراہ اسلام آباد میں تھے انہیں سپیکر کا یہ اقدام ناگوار گزرا اورانہوں نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں یہ تک کہہ دیا کہ سپیکر کو انہوں نے اس منصب پر بٹھایا لیکن انہوں نے اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا۔ اس طرح یہ معاملہ سپیکر اور وزیراعلیٰ کے درمیان مزید کشیدگی پیداکرتاگیا تو سپیکر نے بھی کہہ دیا کہ مجھے اراکین اسمبلی نے سپیکر منتخب کیا ہے جس میں ایک ووٹ وزیراعلیٰ کا بھی ہے۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے اراکین اسمبلی کے ہمراہ لاپتہ افراد کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تاکہ ان کی حکومت کی پوزیشن واضح ہوسکے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس یہی تھے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ تحریری طورپر بتایا جائے کہ بلوچستان حکومت کس حیثیت میں کام کررہی ہے کیونکہ اس کی آئینی اتھارٹی ختم ہوچکی ہے اور بلوچستان حکومت آئین کے نفاذ کے بغیر کیسے چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے بلوچستان حکومت کی جانب سے10اکتوبر کے فیصلے کوواپس لینے کی استدعا کی گئی تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ مذکورہ فیصلہ برقرار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کا اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہناتھا کہ انہیں62ارکان کا اعتماد حاصل ہے ،وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوکر الزامات کا دفاع کریں گے۔
بلوچستان میں آئینی بحران کا فائدہ وزیراعلیٰ کے مخالفین نے بھرپور طورپر اٹھایا پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور بلوچستان اسمبلی کے رکن میر صادق عمرانی نے بھی پریس کانفرنس میں یہ کہہ دیا کہ صوبائی حکومت غیر آئینی طورپر چل رہی ہے، اپنے مختلف ٹی وی انٹرویوز میں انہوں نے صوبائی حکومت پر کڑی تنقید کی اورکرپشن وبدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کئے۔ یہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ پیپلزپارٹی قلات ڈسٹرکٹ کے صدر رفیق سجاد نے پارٹی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاکر وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کی پارٹی رکنیت بھی تین ماہ کیلئے معطل کردی۔
اس حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بڑا واویلا مچا اوراس کا ذمہ دار میر صادق عمرانی کو ٹھہرادیاگیا کہ وزیراعلیٰ کی بنیادی رکنیت انہی کے کہنے پر معطل کی گئی لیکن صادق عمرانی کا موقف ہے کہ چونکہ وزیراعلیٰ کی رکنیت قلات زون سے ہے اور ڈویژنل صدر بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس معاملے کو اس خوشگوار جملے پر ختم کردیا کہ ان کی پارٹی سے بنیادی رکنیت کوئی ختم نہیں کرسکتا اور جو ختم کرے گا وہ اسے دس روپے انعام دیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان کے بارے میں عبوری حکم نامے کے بعد گورنر نواب مگسی نے صوبائی حکومت کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کرنے کا مشورہ دیا جس پر نواب رئیسانی حکومت کی اہم اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام نے نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے یہاں تک کہہ دیا کہ گورنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ دراصل صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے مترادف ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ نواب رئیسانی عید کے تیسرے روز مولانا عبدالواسع کو اعتماد میں لینے کے لئے ان کے آبائی گھر قلعہ سیف اﷲ گئے-
بلوچستان حکومت کی آئینی حیثیت کا معاملہ تو ابھی چل رہا ہے، اسمبلی کا اجلاس گوادر میں نہ ہونے کے بعد اب صوبائی کابینہ کا اجلاس9نومبر کو گوادر میں طلب کرلیاگیا تھا،اس حوالے سے ایس اینڈ جی اے ڈی کیبنٹ ڈویژن سے ایک اعلامیہ جاری کیاگیا جس میں اراکین اسمبلی سے کہاگیا کہ وہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کریں اس موقع پر وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز مشرف بھی کابینہ کے اراکین سے ملیں گے۔ سیاسی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ گوادر میں کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے عبوری حکم کا جائزہ لیاجائے گا اور وزیراعظم سے اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی ۔ بالآخر ان تمام معاملات کے بعد گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے اسمبلی کا اجلاس13 نومبر کو کوئٹہ میں طلب کرلیا ۔ تاہم بعض سیاسی جماعتیں اورآئینی ماہرین کا موقف ہے کہ عبوری حکم نامے کے بعد کابینہ کا اجلاس بلانا غیر آئینی اقدام ہے، بلوچستان میں ان ہائوس تبدیلی آتی ہے یا حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے اس کیلئے 20نومبر کو سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کی سماعت تک انتظار کرنا ہوگا۔