مقامی سیاست میں ریفرنڈم کا شور
متحدہ قومی موومنٹ کا عوام سے رابطہ، اگلے عام انتخابات کے لیے تیاریاں
اگلے سیاسی معرکے کے لیے 'نیٹ پریکٹس' کا آغاز ہو چکا ہے۔تاہم کراچی جیسے اہم شہر میں صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی میدان میں نظر آرہی ہے۔
2008 کے عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے لیے ایوانِ اقتدار کا راستہ بنایا اور پی پی پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لائی، جس کی آئینی مدت تمام ہونے جارہی ہے۔ اگلے عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس میں حصّہ لینے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں۔ قومی سطح پر عوام کی نمایندہ جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعتوں نے نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے عوام کی توجہ حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔
شہر قائد، کراچی کے سیاسی منظر نامے پر متحدہ قومی موومینٹ کے علاوہ عام انتخابات کے لیے کسی قابلِ ذکر سیاسی جماعت کی سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ متحدہ قومی موومینٹ کی جانب سے پچھلے دنوں ملک بھر میں ایک عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں عوام 'قائدِ اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں یا طالبان کا پاکستان' پر رائے لی جائے گی۔ یہ ریفرنڈم کراچی شہر میں ایک بڑی سیاسی سرگرمی ثابت ہو گا اور مبصرین کے نزدیک یہ اگلے عام انتخابات کے لیے ایم کیو ایم کی تیاریوں کی ابتدا ہے۔ سندھ کی سطح پر متحدہ قومی موومینٹ نہایت مضبوط جماعت ہے اور یہاں اس کے ووٹروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ کراچی کے انتخابی حلقوں میں پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعتِ اسلامی اور چند مذہبی سیاسی جماعتوں کے امیدوار کھڑے کیے جاتے ہیں۔
تاہم کراچی کے بیش تر انتخابی حلقوں سے ایم کیو ایم کے امیدوار کام یابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ن لیگ اندرونِ سندھ اپنے حلقۂ اثر بڑھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے، لیکن کراچی میں اس کی کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ اس صورتِ حال میں انتخابی معرکے ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ کا تقاضا کرتے ہیں اور ماضی میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے راہ نما مصطفٰی کمال نے ناظم کی حیثیت سے شہر کی ترقی اور شہریوں کو سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ ان کے دورِ نظامت میں شہر میں کئی ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچے اور مقامی افراد کے مسائل کا حل نکالنے اور مشکلات دور کرنے میں ان کی ہدایت کے مطابق علاقوں کے ناظمین، کونسلرز نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، جس سے عوام خوش نظر آتے ہیں اور آج اس نظام کی مکمل بحالی کے منتظر ہیں۔ اس بنیاد پر بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات میں ایم کیو ایم کو نقصان پہنچنے کا امکان بہت کم ہے۔
اندرونِ سندھ قوم پرستوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کا عوام سے رابطوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے، لیکن شہرِ قائد میں اس وقت بھی سیاسی جماعتیں اپنے حلقوں اور ووٹروں سے دور ہیں اور متحدہ قومی موومینٹ واحد سیاسی جماعت ہے، جو عوام کے درمیان آکر اپنے وژن اور کارکردگی کی بنیاد پر اگلے عام انتخابات سے متعلق سرگرمی کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ شہر میں 14 تاریخ کو عوام ایم کیو ایم کے ریفرنڈم کے دوران اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ اس سلسلے میں کراچی سمیت ملک بھر میں ہزاروں پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جہاں ووٹنگ کا عمل انجام پائے گا۔ سیاسی بصیرت کے حامل شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم پاکستان کے موجودہ حالات میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ قدامت پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں حقیقی عوامی رائے کے حصول میں مددگار ثابت ہو گا اور مستقبل کے پاکستان کے بارے میں عوام کے خیالات اور امنگوں کی ترجمانی کرے گا۔ ۔ شہر کی تاجر برادری، طلباء، وکلاء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اس ریفرنڈم سے متعلق خاصے پُرجوش نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے چند سال پہلے ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ کئی مواقع پر انھوں نے کراچی میں طالبان فکر کے حامیوں اور طالبانائزیشن کا انکشاف کرتے ہوئے اسے بڑا خطرہ قرار دیا ۔ الطاف حسین نے حکومتِ سندھ اور مقامی شہریوں کو کراچی میں طالبانائزیشن کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے خلاف فوری عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس وقت ان کے بیانات پر مذہبی اور بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے تھے۔ واضح رہے کہ طالبان نے سوات میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کی ہے، جسے باشعور عوامی حلقوں نے قابلِ افسوس گردانا ہے اور ہر مکتبِ فکر کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔
لال قلعہ گراؤنڈ عزیز آباد میں متحدہ قومی موومینٹ کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے کراچی میں عوامی ریفرنڈم کے بارے میں پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایک طبقہ قائد اعظم کا پاکستان چاہتا ہے اور دوسرا طالبان کا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام فیصلہ کریں کہ انھیں کس قسم کا پاکستان چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ، پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق لبرل، پروگریسو، ترقی پسند اور علم وعمل سے مالا مال بنانا چاہتے ہیں۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ ایک جانب شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں سے پاکستان کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں جب کہ دوسری طرف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، قتل و غارت گری کے واقعات سے دنیا بھر میں اس کا امیج بری طرح متأثر ہو رہا ہے۔
مذہبی انتہا پسند مساجد، مزارات اور اسکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، فوجی تنصیبات پر مسلح حملے ہو رہے ہیں اور جوانوں کو سفاکی سے قتل کیا جارہا ہے۔ الطاف حسین نے کئی سال پہلے مذہبی انتہا پسندی طالبانائزیشن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا، لیکن اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کہا ہے کہ کراچی میں طالبان کی موجودگی کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے، جس سے ثابت ہو گیا کہ الطاف حسین کے خدشات درست تھے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ علم کے زیور سے آراستہ قومیں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور اس سے محروم اقوام ترقی یافتہ ملکوں کی امداد کی محتاج بن کر رہ گئی ہیں۔ اسلام میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، لیکن طالبان دہشت گرد اسلام کی آڑ میں نہ صرف قتل و غارت گری کر رہے ہیں بلکہ عوام بالخصوص طالبات کو علم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے گھناؤنے ہتھ کنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، اس کا اندازہ 11، اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے ان کی صدارتی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے، جس میں مذہبی آزادی ہو اور اپنے اپنے عقاید کے مطابق لوگ زندگی بسر کر سکیں، لیکن طالبان دہشت گردوں پر مشتمل ایک طبقہ اپنے فرسودہ اور غیر شرعی نظریات زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہے جہاں بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان، قومیت، عقیدہ، مذہب سب کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہو۔
متحدہ قومی موومینٹ کے اس ریفرنڈم میں عوام آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے، جس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز شایع کروائے گئے ہیں۔ ریفرنڈم کے عمل کی نگرانی اور ووٹوں کی گنتی ریٹائرڈ ججوں، سینئر وکلاء، دانش وروں اور سینئر صحافیوں پر مشتمل ایک کمیشن کرے گا اور یہی ارکان نتائج کا اعلان بھی کریں گے۔ اس ریفرنڈم میں بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی آن لائن حصہ لے سکتے ہیں جب کہ پاکستان میں عوام 'ایس ایم ایس' کے ذریعے بھی اپنی رائے دینے کے اہل ہوں گے۔
کراچی میں سیاسی میدان میں متحدہ قومی موومینٹ کی جانب سے سرگرمیوں، خصوصاً ریفرنڈم کے اعلان کے بعد توقع ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے علاقوں میں ووٹروں کے پاس جانے کا سلسلہ شروع کریں گی۔
2008 کے عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے لیے ایوانِ اقتدار کا راستہ بنایا اور پی پی پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لائی، جس کی آئینی مدت تمام ہونے جارہی ہے۔ اگلے عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس میں حصّہ لینے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں۔ قومی سطح پر عوام کی نمایندہ جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعتوں نے نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے عوام کی توجہ حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔
شہر قائد، کراچی کے سیاسی منظر نامے پر متحدہ قومی موومینٹ کے علاوہ عام انتخابات کے لیے کسی قابلِ ذکر سیاسی جماعت کی سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ متحدہ قومی موومینٹ کی جانب سے پچھلے دنوں ملک بھر میں ایک عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں عوام 'قائدِ اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں یا طالبان کا پاکستان' پر رائے لی جائے گی۔ یہ ریفرنڈم کراچی شہر میں ایک بڑی سیاسی سرگرمی ثابت ہو گا اور مبصرین کے نزدیک یہ اگلے عام انتخابات کے لیے ایم کیو ایم کی تیاریوں کی ابتدا ہے۔ سندھ کی سطح پر متحدہ قومی موومینٹ نہایت مضبوط جماعت ہے اور یہاں اس کے ووٹروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ کراچی کے انتخابی حلقوں میں پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعتِ اسلامی اور چند مذہبی سیاسی جماعتوں کے امیدوار کھڑے کیے جاتے ہیں۔
تاہم کراچی کے بیش تر انتخابی حلقوں سے ایم کیو ایم کے امیدوار کام یابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ ن لیگ اندرونِ سندھ اپنے حلقۂ اثر بڑھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے، لیکن کراچی میں اس کی کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ اس صورتِ حال میں انتخابی معرکے ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ کا تقاضا کرتے ہیں اور ماضی میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے راہ نما مصطفٰی کمال نے ناظم کی حیثیت سے شہر کی ترقی اور شہریوں کو سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ ان کے دورِ نظامت میں شہر میں کئی ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچے اور مقامی افراد کے مسائل کا حل نکالنے اور مشکلات دور کرنے میں ان کی ہدایت کے مطابق علاقوں کے ناظمین، کونسلرز نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، جس سے عوام خوش نظر آتے ہیں اور آج اس نظام کی مکمل بحالی کے منتظر ہیں۔ اس بنیاد پر بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات میں ایم کیو ایم کو نقصان پہنچنے کا امکان بہت کم ہے۔
اندرونِ سندھ قوم پرستوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کا عوام سے رابطوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے، لیکن شہرِ قائد میں اس وقت بھی سیاسی جماعتیں اپنے حلقوں اور ووٹروں سے دور ہیں اور متحدہ قومی موومینٹ واحد سیاسی جماعت ہے، جو عوام کے درمیان آکر اپنے وژن اور کارکردگی کی بنیاد پر اگلے عام انتخابات سے متعلق سرگرمی کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ شہر میں 14 تاریخ کو عوام ایم کیو ایم کے ریفرنڈم کے دوران اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ اس سلسلے میں کراچی سمیت ملک بھر میں ہزاروں پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جہاں ووٹنگ کا عمل انجام پائے گا۔ سیاسی بصیرت کے حامل شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم پاکستان کے موجودہ حالات میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ قدامت پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں حقیقی عوامی رائے کے حصول میں مددگار ثابت ہو گا اور مستقبل کے پاکستان کے بارے میں عوام کے خیالات اور امنگوں کی ترجمانی کرے گا۔ ۔ شہر کی تاجر برادری، طلباء، وکلاء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اس ریفرنڈم سے متعلق خاصے پُرجوش نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے چند سال پہلے ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ کئی مواقع پر انھوں نے کراچی میں طالبان فکر کے حامیوں اور طالبانائزیشن کا انکشاف کرتے ہوئے اسے بڑا خطرہ قرار دیا ۔ الطاف حسین نے حکومتِ سندھ اور مقامی شہریوں کو کراچی میں طالبانائزیشن کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے خلاف فوری عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس وقت ان کے بیانات پر مذہبی اور بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے تھے۔ واضح رہے کہ طالبان نے سوات میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کی ہے، جسے باشعور عوامی حلقوں نے قابلِ افسوس گردانا ہے اور ہر مکتبِ فکر کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔
لال قلعہ گراؤنڈ عزیز آباد میں متحدہ قومی موومینٹ کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے کراچی میں عوامی ریفرنڈم کے بارے میں پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایک طبقہ قائد اعظم کا پاکستان چاہتا ہے اور دوسرا طالبان کا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام فیصلہ کریں کہ انھیں کس قسم کا پاکستان چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ، پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق لبرل، پروگریسو، ترقی پسند اور علم وعمل سے مالا مال بنانا چاہتے ہیں۔ ملک اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ ایک جانب شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں سے پاکستان کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں جب کہ دوسری طرف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، قتل و غارت گری کے واقعات سے دنیا بھر میں اس کا امیج بری طرح متأثر ہو رہا ہے۔
مذہبی انتہا پسند مساجد، مزارات اور اسکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، فوجی تنصیبات پر مسلح حملے ہو رہے ہیں اور جوانوں کو سفاکی سے قتل کیا جارہا ہے۔ الطاف حسین نے کئی سال پہلے مذہبی انتہا پسندی طالبانائزیشن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا، لیکن اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کہا ہے کہ کراچی میں طالبان کی موجودگی کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے، جس سے ثابت ہو گیا کہ الطاف حسین کے خدشات درست تھے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ علم کے زیور سے آراستہ قومیں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور اس سے محروم اقوام ترقی یافتہ ملکوں کی امداد کی محتاج بن کر رہ گئی ہیں۔ اسلام میں علم حاصل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، لیکن طالبان دہشت گرد اسلام کی آڑ میں نہ صرف قتل و غارت گری کر رہے ہیں بلکہ عوام بالخصوص طالبات کو علم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے گھناؤنے ہتھ کنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، اس کا اندازہ 11، اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے ان کی صدارتی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے، جس میں مذہبی آزادی ہو اور اپنے اپنے عقاید کے مطابق لوگ زندگی بسر کر سکیں، لیکن طالبان دہشت گردوں پر مشتمل ایک طبقہ اپنے فرسودہ اور غیر شرعی نظریات زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہے جہاں بلا امتیاز رنگ و نسل، زبان، قومیت، عقیدہ، مذہب سب کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہو۔
متحدہ قومی موومینٹ کے اس ریفرنڈم میں عوام آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے، جس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز شایع کروائے گئے ہیں۔ ریفرنڈم کے عمل کی نگرانی اور ووٹوں کی گنتی ریٹائرڈ ججوں، سینئر وکلاء، دانش وروں اور سینئر صحافیوں پر مشتمل ایک کمیشن کرے گا اور یہی ارکان نتائج کا اعلان بھی کریں گے۔ اس ریفرنڈم میں بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی آن لائن حصہ لے سکتے ہیں جب کہ پاکستان میں عوام 'ایس ایم ایس' کے ذریعے بھی اپنی رائے دینے کے اہل ہوں گے۔
کراچی میں سیاسی میدان میں متحدہ قومی موومینٹ کی جانب سے سرگرمیوں، خصوصاً ریفرنڈم کے اعلان کے بعد توقع ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے علاقوں میں ووٹروں کے پاس جانے کا سلسلہ شروع کریں گی۔