سیاسی گہماگہمی عروج پر

قوم پرستوں کی ’سپنا‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابی معرکے کی تیاریاں

aقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداللہ حسین ہارون کے بھی سندھ کے نئے بلدیاتی نظام پر تحفظات ۔ فوٹو : فائل

سندھ پیپلز لوکل گورنمینٹ آرڈیننس کے خلاف سندھ میں تمام اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف کمر بستہ ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ ماضی میں بلدیاتی معاملات میں جو حیثیت سندھ میں کراچی کو حاصل رہی، وہی سندھ کے مزید پانچ اضلاع کو دے دی ہے۔

اس کے معترضین مذاکرات کا راستہ اپنائیں یا انتخابات جیتنے کے بعد پارلیمان میں پہنچ کر اس بلدیاتی نظام کو ختم کرا دے۔ حیدرآباد میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے عید الاضحٰی کے موقع پر نئے بلدیاتی نظام کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ میں ''ایکسپریس'' سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے قوم پرست پیپلز پارٹی سے اپنی شرائط پر بات کرنے کو تیار ہیں، لیکن اس کے لیے بھی حکومت کو ایس پی ایل جی او کو خدا حافظ کہنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا سورج غروب ہوتے ہی سندھ کو پی پی پی کے راہ نماؤں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ سندھ کے قوم پرست، کسی گنتی میں نہیں اور وہ ایک کونسلر کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے، قوم پرست مختلف ایشوز پر ایک ہوتے ہیں، لیکن ہر مرتبہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بڑی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔

اس مرتبہ بھی پیپلز پارٹی کا جواب دینے کے لیے سندھ ترقی پسند پارٹی، عوامی تحریک اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی پر مشتمل سندھ پروگریسیو نیشنلسٹ الائنس نے آیندہ انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے اور ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس کا کریڈٹ ڈاکٹر قادر مگسی، ایاز لطیف پلیجو اور سید جلال محمود شاہ کو جاتا ہے۔ شاید اس اتحاد سے مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتیں بھی سیٹ ایڈجسٹمینٹ کے لیے مذاکرات کا عمل شروع کردیں گی۔ اس کا امکان 'سپنا' کے 17 نومبر کو صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 21 کے ضمنی الیکشن میں نیشنل پیپلز پارٹی کے امیدوار کی بھرپور حمایت سے پیدا ہوا ہے۔ اس کے لیے کنڈیارو کے جلسۂ عام میں بھرپور شرکت کے ساتھ ساتھ 'سپنا' نے 10 نومبر کو ضلع ٹنڈوالہ یار میں اپنا جلسہ منعقد کرنے اور 13 نومبر کو کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حیدرآباد میں 'سپنا' کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا کہنا تھا کہ موجودہ بلدیاتی نظام پاکستان اور سندھ دشمن ہے، جس کے ذریعے پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر پہلے کراچی، پھر سندھ اور اس کے بعد پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔ اجلاس میں سندھ بچاؤ کمیٹی کی جدوجہد کی بھی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں سندھ میں آباد اردو بولنے والے بھائیوں سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ اس جدوجہد میں سندھ کے قوم پرستوں کا ساتھ دیں۔ انھوں نے بتایا کہ قوم پرست جماعتیں مشترکہ طور پر ایک نشان کے تحت الیکشن لڑنے کے لیے 14نومبر کی صبح بھی اجلاس کریں گی، جس کے لیے پہلے تینوں جماعتوںکی مرکزی قیادت کا اجلاس ہوگا جب کہ شام کو سربراہی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ کس حلقے سے کون سی جماعت امیدوار کھڑا کرے گی۔


حیدرآباد ہی میں بلدیاتی نظام کی مخالفت میں سندھ کے ادیبوں اور دانش وروں کا پہلا اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ اجلاس کے بیش تر شرکاء سول سوسائٹی کے نام پر بلدیاتی نظام کے خلاف مظاہرے کر چکے ہیں، اب بلدیاتی نظام کے خلاف جہدوجہد کے لیے ادیبوں اور دانش وروں پر مشتمل چھے رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی، جو آیندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ اس اجلاس کا انعقاد سندھ ادبی سنگت اور سندھ رائٹرز اینڈ تھنکرز فورم کے تحت مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداللہ حسین ہارون نے کہ ایس پی ایل جی او قانونی تقاضے پورے کیے بغیر اور سندھ کے عوام کی امنگوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ عام انتخابات میں سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کی پالیسیاں نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو کی قربانی کو دیکھ کر ووٹ دیے تھے، لیکن پی پی پی کے راہ نما اپنے مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ رکن قومی اسمبلی ظفر علی شاہ نے کہا کہ اس بل کو کمیٹی میں بھیج کر منظور کرنے کے بجائے راتوں رات پاس کر کے اقلیت کو اکثریت پر غالب کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ 'اگلی باری پھر زرداری' کے نعرے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ یہ بل واپس لے لیا جائے اور ایم کیو ایم دکھاوے کے طور پر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے۔ کانگریس سے مہتاب اکبر راشدی، جامی چانڈیو، ذوالفقار ہالیپوٹو، مشتاق پھل، جی این مغل، اشتیاق انصاری، انعام شیخ، عرفانہ ملاح، دلیپ دولتانی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

پیپلز پارٹی 15 اکتوبر کو حیدرآباد میں جلسہ کرنے کے بعد بہت زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے اور پی پی پی کی قیادت، سندھ بھر میں ان تمام افراد سے فرداً فرداً رابطے کر رہی ہے، جو انتخابات میں آزاد حیثیت اور سیاسی جماعت سے دور رہتے ہوئے گروپ کی صورت میں لڑ کر انتخابات جیتے آ رہے ہیں۔ انہیں پی پی پی میں شامل کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد کے بعد اب پی پی پی، ضلع ٹھٹھہ میں جلد ہی جلسہ کر کے اپنی طاقت کا دوبارہ مظاہرہ کرے گی اور اس جلسہ عام ہی میں ٹھٹھہ کا شیرازی خاندان، پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کر سکتا ہے۔

دوسری جانب پیر صاحب پگارا بھی میدان میں اترنے والے ہیں اور توقع ہے کہ وہ خیرپور، سانگھڑ، عمرکوٹ اور میرپورخاص میں عوامی جلسے منعقد کریں گے۔ یوں سندھ میں انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جائے گی۔ نئے نئے اتحاد بنیں گے۔ ایم ایم اے اگر جماعت اسلامی کے بغیر بحال ہوئی تو پرانے اتحادی بھی سندھ میں آمنے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ایسے میں متحدہ قومی موومنٹ نے نہایت خاموشی سی اپنی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں، لیکن حیدرآباد میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد فضاء میں خوف اور دکھ کا عالم ہے۔ چند دنوں قبل ایم کیو ایم کے سابق تحصیل سٹی حیدرآباد کے ناظم جلیل الرحمن صدیقی، داؤدی بوہرا جماعت کے دو افراد اور مذہبی محافل کا انعقاد کرنے والے صاحب زادہ مصطفی کمال کو ان کے دو ساتھوں کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

گو کہ بلدیاتی نظام کے خلاف حیدرآباد قوم پرستوں کی تحریک کا گڑھ بنا ہوا ہے، لیکن پیپلز پارٹی کا جلسہ اور متحدہ قومی موومینٹ کا ورکرز اجلاس ان کی سیاسی گہماگہمی کا ثبوت ہے۔اب چند دن کے بعد متحدہ قومی موومینٹ ملک بھر کی طرح حیدرآباد میں 'قائد اعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان' کے تحت ریفرنڈم کروا رہی ہے، جو یقیناً ایک بڑی سیاسی سرگرمی ثابت ہو گا۔ حیدرآباد میں تاجر برادری نے اس ریفرنڈم کو وقت کی آواز قرار دیا ہے۔ توقع ہے کہ اس ریفرنڈم میں حیدرآباد سے مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے شہری حصہ لیں گے اور اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔
Load Next Story