لاہور:
بہت سی معاشرتی برائیوں میں سے ایک بڑی برائی اسلحے کی نمائش اور اِس کا استعمال ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں تو آئے دن ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں نے فلاں شخص کو معمولی تنازعہ پر فائرنگ کرکے مار دیا۔ شوہر نے شک کی بنیاد پر بیوی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ بیٹے نے باپ کو، بھائی نے بہن کو، بوائے فرینڈ نے گرل فرینڈ کو، اور جانے کون کون کس کس کو اسلحے کے زور پر موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔
ہمارے یہاں چونکہ قانون کی گرفت کمزور ہے اور ہر شخص خود ہی عدالت لگائے بیٹھا ہے لہذا گاؤں سے لیکر شہروں تک یہی مار کٹائی ہمارا معاشرتی کردار بن گیا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل ہو یا توہین مذہب کا الزام، پسند کی شادی کا جرم ہو یا جائیداد کا تنازعہ یا پھر رشتہ نہ ہونے پر
لڑکے کا بھڑک کر لڑکی کے خاندان کو ماردینا۔ ہر جگہ لوگ خود ہی مدعی خود ہی منصف بنے قانون ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں، اب تو بیویاں بھی دوسری شادی کے چکر میں پہلے شوہر کے قتل سے ذرا نہیں چوکتیں۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور پھر درسگاہوں میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں کئے جانیوالے فیصلوں میں سے ایک کا جائزہ لیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ آخر کون سا ذرخیز دماغ ہے، جو
تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طالب علموں کو اسلحہ چلانے کی تربیت اور ترغیب دے رہا ہے۔ سوچیں! جہاں پہلے ہی گولی کا استعمال سر درد کی گولی کی طرح ہورہا ہو وہاں ایسی ترغیبات جلتی پر تیل کا کام کر سکتی ہیں۔
سو فیصد درست ہے کہ دہشت گرد بازاروں، چوراہوں اور مذہبی اجتماعات سے ہوتے ہوئے اب درسگاہوں میں داخل ہوچکے ہیں، لیکن اسکا حل یہ تو نہیں کہ ان سے مقابلے کے لئے بچوں کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دیا جائے۔ جبکہ پہلے ہی اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں دہشت گردوں کے سہولت کار اور ہمدرد استاد اور شاگرد کے روپ میں موجود ہیں۔ جن کی گرفتاری کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں۔ یعنی ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ یکسر لاعلم رہتی کہ اس کے اسٹاف اور طلباء کے رجحانات کس طرف جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن یہی درسگاہ اسی حوالے سے ہیڈ لائن بن جاتی ہے۔
گویا پاکستان کی جامعات جو پہلے ہی ایسی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہورہی ہیں وہاں اب سرکاری طور پر بلا تفریق تمام استاد اور طلباء عسکری تربیت حاصل کریں گے۔ یہ جانچ پڑتال ہوئے بغیر کہ کون کس ذہن سازی کیساتھ اس ڈرل میں حصہ لے رہا ہے۔ اسکےعلاوہ اس کی گارنٹی کون دے گا کہ تمام طلباء ایسی تربیت کا استعمال صرف دہشت گردی جیسی غیر معمولی صورتحال میں ہی کریں گے۔ وہ اپنے نجی جھگڑے نمٹانے کیلئے بھی تو اس ''لائسنس ٹو کل'' کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ جس طرح کم حاضری یا نمبر بڑھوانے کے لئے طلبہ تنظیموں کا نسخہ ٹیچر پر آزمایا جاتا ہے۔ اسی طرح بندوق کی نوک پر اپنے تمام الو سیدھے کئے جانے لگیں۔ پھر تربیت تو اس چیز کی دی جاتی ہے جو سیکھنے والے کی دسترس میں ہو، تو کیا آنیوالے دنوں میں تعلیمی اداروں میں اسلحہ بھی بانٹا جائیگا؟ ورنہ خود سوچیں کہ خدانخواستہ کوئی حملہ ہوجائے تو مذکورہ ٹریننگ کا عملی مظاہرہ تو اسی وقت ہوسکے گا جب سب ہی مسلح ہوں گے۔ بصورت دیگر ایسی تربیت چہ معنی دارد۔ ابھی تو مستقبل کی سوچے بغیر آپ انکو گولی چلانا سکھا رہے ہیں، کل کیا ہوگا جب اسی جواز کی آڑ میں ہر نوجوان کے ہاتھ میں اسلحہ ہوگا۔
اسی طرح کچھ دن پہلے ایک تصویر کہیں دیکھی تھی جس میں ایک استاد کندھے پر گن لٹکائے تختہ سیاہ پر بچوں کو انکے سبق کی مشق کروا رہا ہے۔ ان دو واقعات کے پیچھے ایک ہی خوف اور سوچ ہے کہ اگر خود کو بچانا ہے تو قلم نہیں اسلحے کوتھامنا ہوگا۔ بچے استاد سے سیکھتے ہیں سو یقیناً وہ دن دور نہیں جب کتابوں، کاپیوں کے ساتھ ساتھ ہر
طالب علم کے بستے میں پستول بھی ہوگی کیونکہ گھبراہٹ میں کئے گئے جلد بازی کے فصلے بعد میں ایسے ہی نتائج لاتے ہیں۔
تعلیم دینے اور لینے والوں کو ایسی سرگرمیوں میں الجھانے کے بجائے سیکیورٹی کا مناسب انتظام ہونا چاہیئے۔ جس میں تمام ادارے اور حکومتی کل پرزے متحرک اور فعال ہوں کیونکہ شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کوئی حل نہیں کہ دہشت گردوں سے مقابلے اور اپنی حفاظت کے نام پر ہر آدمی اسلحہ اٹھا کر میدان میں آجائے کیونکہ ایسی مشق سے یہ تاثر بھی تو ابھرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے سیلف ڈیفنس کی آڑ میں نا پختہ ذہنوں کو غیر محفوظ ہونے کی نفسیاتی الجھن میں ڈال رہے ہیں۔
[poll id="962"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔