کاش میں آصفہ زرداری کی بلی ہوتا

ماں تم تو کہتی تھی کہ موت بہت ظالم چیز ہے لیکن اس کی آغوش میں جا کر تو میں تمام دنیاوی رنج و الم سے آزاد ہوگیا ہوں۔


زوہیب حسن February 21, 2016
تم شوق سے اپنی بلے، بلی کو جہازوں کی سیر کرواؤ۔ تمام آسائشیں مہیا کرو، لیکن خدارا! ان گھٹیا اعمال کی نمود و نمائش مت کرو، تمہارے اس عمل سے مرنے کی اذیت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔

میں سندھ کےعلاقے تھرپارکر کا ایک بھوک سے سسکتا، بلبلاتا اور اپنی ماں کی آغوش میں دم توڑتا ہوا بچہ ہوں۔ جی ہاں وہی تھرپارکر جہاں کتنے ہی معصوم قحط کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ وہی تھرپارکر جو سندھ میں واقع ہے۔ یہ وہی دھرتی ہے جہاں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ہر شہری کے لئے آج سے 40 سال پہلے روٹی، کپڑااور مکان کا منشور دیا تھا۔

دنیا سے رخصت ہوتے وقت میری محض ایک چھوٹی سی آرزو ہے کہ کاش میں انسان کے بجائے آصفہ زرداری کی بلی ہوتا۔ پھر یہ بھوک میرا مقدر نہ ہوتی، محلوں میں میری پرورش ہوتی اور کئی نوکر میری خدمت پر مامور ہوتے۔ دنیا کی ہر آسائش ایک اشارے پر مجھے میسر ہوتی۔ ناز و نعم میں پلتے ہوئے رنج وغم کے معنی سے نا آشنا ہوتا۔ کئی کئی دن ایک وقت کے کھانے کو ترسنے کے بجائے اپنی مالکن کے ساتھ ہوائی جہاز میں سفر کرتا۔ اناج کے نام پر دی جانے والی بھیک کے لئے ٹھوکریں کھانے کے بجائے ہیلی کاپٹر میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے تک کا گزر ہوتا۔

دنیا کی سب سے بڑی آزمائش آپ جانتے ہیں کیا ہے؟ یہ آزمائش ہے ایک ماں کی کہ جب بھوک سے سسکتا، بلکتا اس کا پھول اس کی آغوش میں دم توڑتا ہے۔ یہ جان کر کہ حاکمِ وقت کے پالتو جانور ہوائی جہازوں میں سفر کر رہے ہیں، اور تھر کے بچے قحط کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اس ماں کا سینہ تو کرب سے چھلنی ہوجاتا ہوگا اور وہ بھی رب سے یہی آرزو کرتی ہوگی کاش اس کا بچہ کسی وڈیرے کا پالتو جانور ہوتا۔

زرداری صاحب آپ ہی کا فرمان ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو اس انتقام کا نشانہ میرے جیسے معصوم بچے ہی کیوں بن رہے ہیں؟ جیسے ہی بھٹو آج بھی زندہ ہے کا نعرہ کراچی کے بلاول ہاؤس کی فضاؤں سے ہوتا ہوا تھر کی گرم لو سے ٹکراتا ہے تو میری دھرتی کے باسیوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بھٹو کو زندہ رکھنے کے لئے پھر کسی معصوم کی بلی کا وقت آگیا۔ ہر گزرتا لمحہ اس معاشرے سےعدل کا کچھ حصہ اپنے ساتھ لئے جا رہا ہے۔ یہ گہری ہوتی معاشرتی خلیج ہی لوگوں کو تشدد کی طرف مائل کر رہی ہے۔ اس تفریق کا جلداز جلد خاتمہ ضروری ہے۔

اقبال نے اس المیے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے،
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

وقت کم ہے میری سانس اکھڑ رہی ہے۔ تھر کے صحراؤں میں موت کا ننگا رقص شاید ایسے ہی جاری رہے گا۔ میری التجا ہے حاکمِ وقت سے کہ تم شوق سے اپنی بلے، بلی کو جہازوں کی سیر کرواؤ۔ دنیا کی تمام آسائشیں انہیں مہیا کرو، لیکن خدارا! ان گھٹیا اعمال کی نمود و نمائش مت کرو کیوں کہ تمہارے اس عمل سے مرنے کی اذیت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔

موت آ گئی ہے ماں ۔۔۔۔۔ مجھے اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا ہے۔ ماں تم تو کہتی تھی کہ موت بہت ظالم چیز ہے لیکن اس کی آغوش میں جا کر تو میں تمام دنیاوی رنج و الم سے آزاد ہوگیا ہوں۔ نیلے آسمان کے اس پار تھر کے سب بچے بہت پُرسکون نیند میں ہیں۔ میں بھی تھک چکا ہوں ماں، مجھے اجازت دو کہ جب تم یہاں آؤ گی تو خوب باتیں کریں گے۔
اللہ حافظ

[poll id="967"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں