میدانِ سیاست اجتماعات اور عوامی رابطہ مہم سے سج گیا
ملازمتوں کی بندر بانٹ اور کرپشن نے بے روزگار نوجوانوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے ۔
پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں نے غیر اعلانیہ طور پر عوامی رابطہ مہم کے ذریعے انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
ان جماعتوں میں ن لیگ اور فنکشنل لیگ کی نمایاں ہیں، جب کہ چانڈیہ قبیلے کے نواب سردار احمد خان چانڈیو کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور اس کے بعد عوامی اجتماعات اور رابطہ مہم نے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ان کے ساتھ مختلف قوم پرست جماعتیں بھی چھوٹے بڑے جلسے اور مظاہرے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کے عہدے دار اور فعال کارکنوں میں سے کئی سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے بعد اپنے عہدوں اور ملازمتوں کے دہرے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے غیر فعال ہونے کا نقصان پارٹی کو ہو رہا ہے اور وہ سکڑتی جارہی ہے۔
شہداد کوٹ پیپلزپارٹی کا سیاسی قلعہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقۂ انتخاب رہا ہے۔ اب یہاں سے فریال تالپور، رکن قومی اسمبلی اور میر نادر علی خان مگسی، رکن سندھ اسمبلی بننے کے بعد صوبائی وزیر خوراک ہیں۔ تاہم اس سیاسی سپورٹ کے باوجود شہر کی حالت ماضی کے مقابلے میں کئی گنا ابتر ہوگئی ہے۔ ملازمتوں کی بندر بانٹ، اداروں میں کرپشن اور اپنوں کو نوازنے کی روش نے مقامی شہریوں بالخصوص بے روزگار نوجوانوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں یہاں خاصی متحرک نظر آرہی ہیں۔ تھوڑے عرصے قبل جن سیاسی جماعتوں اور قائدین کا لوگ نام لینا گوارا نہیں کرتے تھے، آج شہر میں ان کی تصاویر اور نعروں پر مبنی بینرز نظر آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے غیر فعال ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کو پہنچا ہے۔ شہداد کوٹ کی تاریخ گواہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے دو بار اقتدار میں رہنے کے باوجود یہاں ن لیگ کا وجود صرف پریس ریلیز جاری کرنے تک محدود تھا اور فنکشنل لیگ تو نظر ہی نہیں آتی تھی، مگر آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ (ن) تھوڑے عرصے میں ضلع بالخصوص شہداد کوٹ میں جس قدر فعال ہوگئی ہے، اس نے عوام سمیت سیاسی بصیرت رکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس جماعت کو فعال بنانے میں معروف تاجر اور زمیں دار میر غیبی خان مغیری کا اہم کردار ہے۔ ان کی کوششوں سے مختلف برداریوں اور جماعتوں کے لوگوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر کے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔
حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی اورصوبائی قیادت نے شہداد کوٹ کے دورے کیے جب کہ پہلی بار پارٹی کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر متاثرین سیلاب میں راشن تقسیم کیاگیا۔ دورے کرنے والے راہ نمائوں میں لیاقت علی خان جتوئی، ماروی میمن، صوبائی صدر سید غوث علی شاہ، سیکریٹری جنرل سلیم ضیاء، امیر بخش خان بھٹو اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ فنکشنل کو فعال بنانے کے لیے بھی ان کی صوبائی اور ضلعی قیادت خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ مقامی سطح پر پارٹی میں لیڈیز ونگ کی تنظیم سازی سے تبدیلی کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں۔ مذکورہ پارٹیوں کے راہ نمائوں نے اپنے دوروں میں حکومت کی پالیسوں پر کُھل کر تنقید کی۔
ضلع کی اہم شخصیت اور چانڈیہ قوم کے سردار احمد چانڈیو نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد شہداد کوٹ اور قبو سعید خان میں عوامی رابطہ مہم تیز کر دی ہے، جس کا پی پی پی کی مقامی قیادت پر کوئی اثر نہیں ہوا، لیکن ان رابطوں سے پیپلز پارٹی کے اہم کردار مگسی بردران کو پریشانی ضرور ہے۔ وہ 2008 کے عام انتخابات میں مگسی برادران کے مدمقابل تھے۔ اس طرح یہاں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور دوسری جانب آیندہ انتخابی نتائج ماضی کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 2008 کے عام انتخابات میں سردار احمد چانڈیو نے این اے 206 پر پیپلز پارٹی کے نام زد امیدوار میر عامر خان مگسی سے مقابلہ کیا تھا اور ووٹوں کے کم تناسب سے ناکام ہوئے تھے۔ اگلے الیکشن میں سردار خان چانڈیو پیپلزپارٹی کے متوقع امیدوار ہیں۔ تاہم ابھی یہ محض قیاس ہے اور اس پر پارٹی قیادت کا فیصلہ آنا ہے۔
ضلع کی سیاست پر گہرا اثر رکھنے والے صوبائی وزیر میر نادر علی خان مگسی گذشتہ چند روز سے ذاتی مصروفیات کے باعث امریکا میں ہیں۔ تاہم عید سے چند دن قبل انھوں نے یہاں اپنی آمد کے بعد زیادہ وقت قمبر، نصیرآباد اور وارہ کے علاقوں کو دیا۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ میر صاحب کو یہ باور کرایاگیا ہے کہ ماضی کی طرح شہداد کوٹ کے عوام آیندہ انتخابات میں بھی انھیں کام یاب کرائیں گے، اس لیے وہ شہداد کوٹ کے بجائے دیگر تحصیلوں پر توجہ دیں۔ پیپلز پارٹی میں فریال تالپور کے کیمپ سے تعلق رکھنے والے سردار احمد خان چانڈیو نے شہداد کوٹ میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے تعزیتوں کے ذریعے کیا جب کہ ضلع کے مختلف علاقوں میں تقریبات میں شرکت کرکے لوگوں کی حمایت حاصل کی ہے۔
چند روز قبل نواب سردار احمد چانڈیو نے قبو سعیدخان کے گائوں گل حسن مگسی میں مگسی برادری کی سرکردہ شخصیت سردارخان مگسی کی جانب سے دیے گئے ظہرانے کے موقع پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر صحافیوں سے گفت گو کے دوران انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے منتخب نمائندوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سڑکوں کی تعمیر و مرمت سمیت دیگر چھوٹے بڑے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر اربوں روپے ضلع کے منتخب نمائندوں کو دیے، لیکن افسوس کہ ضلع میں کسی اسکیم کا وجود نہیں ہے، آخر اتنی بڑی رقم کہاں گئی۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ انھوں نے کہا کہ محکمۂ خوراک میں لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ ضلع سے گندم کی چودہ لاکھ بوریاں غائب کردی گئیں اور غریب چوکی داروں پر ایف آئی آر درج کروا کر اتنے بڑے اسکینڈل کو دبا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلع میں ان تمام خرابیوں اور خورد برد کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
ان جماعتوں میں ن لیگ اور فنکشنل لیگ کی نمایاں ہیں، جب کہ چانڈیہ قبیلے کے نواب سردار احمد خان چانڈیو کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور اس کے بعد عوامی اجتماعات اور رابطہ مہم نے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ان کے ساتھ مختلف قوم پرست جماعتیں بھی چھوٹے بڑے جلسے اور مظاہرے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کے عہدے دار اور فعال کارکنوں میں سے کئی سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے بعد اپنے عہدوں اور ملازمتوں کے دہرے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان کے غیر فعال ہونے کا نقصان پارٹی کو ہو رہا ہے اور وہ سکڑتی جارہی ہے۔
شہداد کوٹ پیپلزپارٹی کا سیاسی قلعہ اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقۂ انتخاب رہا ہے۔ اب یہاں سے فریال تالپور، رکن قومی اسمبلی اور میر نادر علی خان مگسی، رکن سندھ اسمبلی بننے کے بعد صوبائی وزیر خوراک ہیں۔ تاہم اس سیاسی سپورٹ کے باوجود شہر کی حالت ماضی کے مقابلے میں کئی گنا ابتر ہوگئی ہے۔ ملازمتوں کی بندر بانٹ، اداروں میں کرپشن اور اپنوں کو نوازنے کی روش نے مقامی شہریوں بالخصوص بے روزگار نوجوانوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں یہاں خاصی متحرک نظر آرہی ہیں۔ تھوڑے عرصے قبل جن سیاسی جماعتوں اور قائدین کا لوگ نام لینا گوارا نہیں کرتے تھے، آج شہر میں ان کی تصاویر اور نعروں پر مبنی بینرز نظر آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے غیر فعال ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کو پہنچا ہے۔ شہداد کوٹ کی تاریخ گواہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے دو بار اقتدار میں رہنے کے باوجود یہاں ن لیگ کا وجود صرف پریس ریلیز جاری کرنے تک محدود تھا اور فنکشنل لیگ تو نظر ہی نہیں آتی تھی، مگر آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ (ن) تھوڑے عرصے میں ضلع بالخصوص شہداد کوٹ میں جس قدر فعال ہوگئی ہے، اس نے عوام سمیت سیاسی بصیرت رکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس جماعت کو فعال بنانے میں معروف تاجر اور زمیں دار میر غیبی خان مغیری کا اہم کردار ہے۔ ان کی کوششوں سے مختلف برداریوں اور جماعتوں کے لوگوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر کے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔
حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی اورصوبائی قیادت نے شہداد کوٹ کے دورے کیے جب کہ پہلی بار پارٹی کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر متاثرین سیلاب میں راشن تقسیم کیاگیا۔ دورے کرنے والے راہ نمائوں میں لیاقت علی خان جتوئی، ماروی میمن، صوبائی صدر سید غوث علی شاہ، سیکریٹری جنرل سلیم ضیاء، امیر بخش خان بھٹو اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ فنکشنل کو فعال بنانے کے لیے بھی ان کی صوبائی اور ضلعی قیادت خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ مقامی سطح پر پارٹی میں لیڈیز ونگ کی تنظیم سازی سے تبدیلی کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں۔ مذکورہ پارٹیوں کے راہ نمائوں نے اپنے دوروں میں حکومت کی پالیسوں پر کُھل کر تنقید کی۔
ضلع کی اہم شخصیت اور چانڈیہ قوم کے سردار احمد چانڈیو نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد شہداد کوٹ اور قبو سعید خان میں عوامی رابطہ مہم تیز کر دی ہے، جس کا پی پی پی کی مقامی قیادت پر کوئی اثر نہیں ہوا، لیکن ان رابطوں سے پیپلز پارٹی کے اہم کردار مگسی بردران کو پریشانی ضرور ہے۔ وہ 2008 کے عام انتخابات میں مگسی برادران کے مدمقابل تھے۔ اس طرح یہاں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور دوسری جانب آیندہ انتخابی نتائج ماضی کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 2008 کے عام انتخابات میں سردار احمد چانڈیو نے این اے 206 پر پیپلز پارٹی کے نام زد امیدوار میر عامر خان مگسی سے مقابلہ کیا تھا اور ووٹوں کے کم تناسب سے ناکام ہوئے تھے۔ اگلے الیکشن میں سردار خان چانڈیو پیپلزپارٹی کے متوقع امیدوار ہیں۔ تاہم ابھی یہ محض قیاس ہے اور اس پر پارٹی قیادت کا فیصلہ آنا ہے۔
ضلع کی سیاست پر گہرا اثر رکھنے والے صوبائی وزیر میر نادر علی خان مگسی گذشتہ چند روز سے ذاتی مصروفیات کے باعث امریکا میں ہیں۔ تاہم عید سے چند دن قبل انھوں نے یہاں اپنی آمد کے بعد زیادہ وقت قمبر، نصیرآباد اور وارہ کے علاقوں کو دیا۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ میر صاحب کو یہ باور کرایاگیا ہے کہ ماضی کی طرح شہداد کوٹ کے عوام آیندہ انتخابات میں بھی انھیں کام یاب کرائیں گے، اس لیے وہ شہداد کوٹ کے بجائے دیگر تحصیلوں پر توجہ دیں۔ پیپلز پارٹی میں فریال تالپور کے کیمپ سے تعلق رکھنے والے سردار احمد خان چانڈیو نے شہداد کوٹ میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے تعزیتوں کے ذریعے کیا جب کہ ضلع کے مختلف علاقوں میں تقریبات میں شرکت کرکے لوگوں کی حمایت حاصل کی ہے۔
چند روز قبل نواب سردار احمد چانڈیو نے قبو سعیدخان کے گائوں گل حسن مگسی میں مگسی برادری کی سرکردہ شخصیت سردارخان مگسی کی جانب سے دیے گئے ظہرانے کے موقع پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر صحافیوں سے گفت گو کے دوران انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے منتخب نمائندوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سڑکوں کی تعمیر و مرمت سمیت دیگر چھوٹے بڑے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر اربوں روپے ضلع کے منتخب نمائندوں کو دیے، لیکن افسوس کہ ضلع میں کسی اسکیم کا وجود نہیں ہے، آخر اتنی بڑی رقم کہاں گئی۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ انھوں نے کہا کہ محکمۂ خوراک میں لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ ضلع سے گندم کی چودہ لاکھ بوریاں غائب کردی گئیں اور غریب چوکی داروں پر ایف آئی آر درج کروا کر اتنے بڑے اسکینڈل کو دبا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلع میں ان تمام خرابیوں اور خورد برد کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔