چیف جسٹس اور آرمی چیف کی قابل غور باتیں

کیا موجودہ نظام میں طاقت ہے کہ وہ بد دیانتوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرے؟

کیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے دہرے اصول کا اطلاق صحیح معنوں میں ہو رہا ہے؟ فوٹو: فائل

لاہور:
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔

ملک کی ان دو اہم اور قابل احترام شخصیات نے ایک ہی روز مختلف مواقعے پر خطاب اور گفتگو کی۔ اس کے بعد میڈیا میں تبصروں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا' ہر تبصرہ نگار اور مبصر اپنے اپنے انداز میں حاشیہ آرائی کرتا رہا' ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جسے ملک کے یہ دونوں ادارے آمنے سامنے آ گئے ہیں اور کچھ ہونے والا ہے' اس صورتحال پر کوئی بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان دو مقتدر شخصیات نے کیا باتیں کی ہیں۔

چیف جسٹس نے اسلام آباد میں نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی نیشنل مینجمنٹ کالج لاہور کے 97ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے زیر تربیت افسران سے خطاب کیا۔ ان کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دن گئے جب ملک کے استحکام اور ترقی کا تعین اُس کے پاس موجود اسلحے ، میزائلوں اور ٹینکوں کی تعداد پر کیا جاتا تھا اور فوجی طاقت ریاست کے طاقتور ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آئین پاکستان کے محافظ اور رکھوالے کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام اداروں اور اتھارٹیز کے اقدامات پر آئین کی بالادستی اور فوقیت کو قائم رکھیں۔ تیسری بات یوں ہے، قومی اداروں کو چلانے کے لیے ہمیں تربیت یافتہ اور قابل بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے 6 سوالات کیے۔

کیا ہم صلاحیت اور محنت کی قدر کرتے ہیں؟ کیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے دہرے اصول کا اطلاق صحیح معنوں میں ہو رہا ہے؟ کیا ملک کے شہریوں کو نظام پر اعتماد ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں اپنے خوابوں کی تعبیر شفاف اور دُرست طریقے سے مِل جائے گی؟ کیا موجودہ نظام میں طاقت ہے کہ وہ بد دیانتوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرے؟ کیا ہمارے پاس ایک ایسا نظام ہے جہاں دیوانی اور ملکیت کے حقوق محفوظ اور معاہدات مکمل طور پر نافذ شدہ ہیں؟ اگر اِن تمام سوالات کا جواب 'ہاں' میںآتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نافذ شدہ قواعد و ضوابط شفاف اور دُرست ہیں لیکن بد قسمتی سے متذکرہ بالا سوالات کا جواب 'ناں' میں ہوا تو مجھے ڈر ہے کہ نظام منتشر ہے، جب تک کہ ہم اپنے نظام سے اِس انتشار کو ختم کرنے کی حتی المقدور کوشش نہیں کریں گے، ایک ساز گار ماحول جو مقابلے کے رجحان اور ترقی کو بڑھاوا دے تقریباً نا ممکن ہے۔


اب دیکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کیا کہا؟ انھوں نے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں افسروں سے بات چیت کی۔انھوں نے کہا ہے کہ تعمیری تنقید مناسب سہی لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور بنیادی مقاصد ہی کو مشکوک بنا دینا، کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قومی مفاد کا حتمی تعین کر سکے کیونکہ ایسا صرف اتفاق رائے کے ذریعے ہی ممکن ہے اور آئین میں تمام پاکستانیوں کے لیے اظہار رائے کا طریقہ کار بڑا واضح ہے۔ ہم سب اپنی ماضی کی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لیے ایک صحیح راستے کا انتخاب کر سکیں۔ ہم سب متفق ہیں کہ اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔

ان اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں صحیح راستے سے ہٹا دے گا، یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم صحیح بنیادیں استوار کریں اور دانستہ یا نادانستہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو شاید ظاہراً تو صحیح لگتا ہو لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے، لہٰذا کوئی بھی دانستہ یا نادانستہ کوشش جو افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہے۔ افواج کی قیادت اور سپاہ کے مابین اعتماد کا رشتہ بھی انتہائی اہم ہے، کوئی بھی کوشش جو اس رشتے کو تقسیم کرنے کا باعث بنے برداشت نہیں کی جا سکتی، ایسا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا دستور ہے۔

ماضی میں ہم سب نے غلطیاں کی ہیں، بہتر ہو گا کہ ہم فیصلے قانون پر چھوڑ دیں، ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہیے کہ ملزم صرف اس صورت میں ہی مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہو جائے، ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی مجرم ٹھہرا دیں اور پھر اس کے ذریعے پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیں۔ جنرل کیانی نے کہا کہ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور کچھ منفی نتائج بھی مرتب ہو سکتے ہیں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک لمحے کے لیے رکیں اور دو بنیادی سوالات کو دوبارہ پرکھیں کہ کیا ہم قانون کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی قائم کر رہے ہیں اور کیا ہم اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور؟

مندرجہ بالا باتوں کو سامنے رکھا جائے تو ان سے ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا کہ ملک کے دو ادارے آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ دو اہم اور مقتدر اداروں کے سربراہوں کی باتوں سے ملک و قوم کا درد ظاہر ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دونوں قابل احترام شخصیات آئین و قانون کی سربلندی پر یقین رکھتی ہیں'اور ملک کو اس راہ پر ڈالنے کی خواہاں ہیں، جس کا تعین آئین نے کر رکھا ہے۔
Load Next Story