قومی غذائی سروے کی تشویشناک رپورٹ

آٹے کا 20 کلو گرام کا تھیلا 350 روپے سے بڑھ کر 680 روپے کا ہو گیا


Editorial November 06, 2012
اس مملکت خداداد میں 87.6 فیصد افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جب کہ ان میں سے 29.6 فیصد لوگ صرف ایک وقت کے کھانے پر زندہ ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے ایوان بالا ''سینیٹ'' میں ''قومی غذائی سروے''کی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔

جس میں یہ تشویشناک انکشاف کیا گیا ہے کہ اس مملکت خداداد میں 87.6 فیصد افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جب کہ ان میں سے 29.6 فیصد لوگ صرف ایک وقت کے کھانے پر زندہ ہیں۔ گویا اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار انتہائی بھوک کا شکار ممالک میں ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اگر اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں ان لوگوں کی شرح نکالی جائے جو خوراک کی کمی کا شکار نہیں ہیں تو وہ صرف 13.4 فیصد لوگ بنتے ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھوک اور غذائی بحران کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال کے دوران غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ مزید تفصیل کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 'فوڈ باسکٹ' کی قیمت 1000 روپے سے بڑھ کر 1790 روپے ہو گئی ہے۔ یہ 79 فیصد اضافہ ہے۔

اس عرصے کے دوران آٹے کی قیمتوں میں 94.3 فیصد اضافہ ہوا۔ آٹے کا 20 کلو گرام کا تھیلا 350 روپے سے بڑھ کر 680 روپے کا ہو گیا' دالوں کی قیمتوں میں 71 سے 85 فیصد تک اضافہ، چینی کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ، گھی میں 60 فیصد اضافہ جب کہ ہر قسم کے گوشت کی قیمتیں دگنی ہو گئیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے 24 گھنٹے میں 2150 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے جن کی قیمت 960 روپے سے بڑھ کر 1790 روپے ہو گئی ہے جو 86 فیصد اضافہ ہے۔ دوسری جانب حکومتی اداروں یعنی محکمہ شماریات اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے کم ہو کر صرف ساڑھے سات فیصد تک رہ گئی ہے۔ لیکن اگر گزشتہ 5 سال کے دوران غذائی اشیا کی قیمتوں میں مجموعی اضافے کا جائزہ لیا جائے تو یہ اضافہ 100 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

لیکن اس کے مقابلے میں نچلے اور متوسط طبقوں میں آمدنی میں اضافہ انتہائی کم ہے۔ اس حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اگر حکومت کے اقدامات اور انتظامات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ہمیں حیرت ہو گی کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے دوران سالانہ دوکھرب روپے سے زیادہ کی کرپشن ہوتی ہے اور یہی کرپشن ملکی ریونیو کو ہڑپ کر رہی ہے۔ دو ہزار ارب روپے کی رقم ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری اہلکاروں اور افسروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں سالانہ ریونیو کی مد 11955 ارب روپے ہے اس لحاظ سے ٹیکسوں کی مد میں جتنی رقم سرکاری خزانے میں جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ کچھ لوگوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت کی طرف سے کسی سبسڈی کی توقع رکھنا عبث ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں