برطانوی وزیراعظم خلیج عرب کے دورے پر

یو اے ای اور برطانیہ کے مابین تجارت کا حجم 15 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔


Editorial November 06, 2012
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے کہا کہ اس دورے کا مقصد صرف تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں بلکہ ہم دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات میں بھی ایک دوسرے کے پارٹنرہیں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

KARACHI: برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون خلیج عرب کے تین روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچ گئے ہیں۔

میڈیا کے مطابق وہ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ متحدہ عرب امارات کوجیٹ لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی کوشش کریں گے۔ ڈیوڈ کیمرون یہاں سے سعودی عرب بھی جائیں گے جہاں وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بات چیت کریں گے اور خطے کی صورتحال پر مذاکرات کریں گے۔اگلے روز فرانس کے صدر نے بھی ریاض میں سعودی شاہ عبداﷲ سے بات چیت کی ہے۔ ڈیوڈکیمرون نے دبئی کے امیر شیخ محمد بن راشد المکثوم اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ مذاکرات کیے۔

متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''وام'' کے مطابق انھوں نے دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے علاوہ علاقے کی سیاست اور سیکیورٹی کی صورتحال پر بات چیت کی۔ برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے اطلاع دی ہے کہ ڈیوڈ کیمرون فضائی سازو سامان کی فروخت کی بات کریں گے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے ٹائفون جیٹ طیاروں کی خریداری کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔ ٹائفوں طیاروں کا ایک اسکواڈرن یو اے ای کے فضائی مستقرپر بھی موجود ہے۔ سعودی عرب بھی یہ طیارے خریدنا چاہتا ہے ۔

یو اے ای اور برطانیہ کے مابین تجارت کا حجم 15 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے یو اے ای روانگی سے قبل بی بی سی کو ایک بیان میں بتایا کہ ان کے اس دورے کا مقصد صرف تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں بلکہ ہم دفاعی اور سیکیورٹی کے معاملات میں بھی ایک دوسرے کے پارٹنر۔ ہیں ہم نے لیبیا میں بھی مل کر کام کیا ہے اور افغانستان میں بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔یوں دیکھا جائے تو ڈیوڈ کمیرون اور فرانسسی صدر کے یہ دور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ عرب خطے اس وقت شدید سیاسی ہلچل کا شکار ہیں۔اسرائیل بھی مشکل میں ہے۔ عراق کا معاملہ ابھی تک گمبھیر ہے۔یمن اور شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔ ایران اور امریکا اور یورپ کے درمیان چپلقش بھی جاری ہے۔ ان معاملات کو مدنظر رکھا جائے تو ڈیوڈ کمیرون اور آلندے کے سعودی عرب سے مذاکرات اس خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں