کردستان نیا طوفان
لفظ کرد بحیثیت ایک قوم کے لوگوں میں ناشناس تو نہ رہا مگر کوئی ملک اس قوم کو جگہ دینے یا ماننے پر تیار نہیں رہا۔
PESHAWAR/
DI KHAN:
لفظ کرد بحیثیت ایک قوم کے لوگوں میں ناشناس تو نہ رہا مگر کوئی ملک اس قوم کو جگہ دینے یا ماننے پر تیار نہیں رہا۔ 1970ء میں جب پہلی مرتبہ پاکستان میں سماجی اور معاشی تحریک چل رہی تھی انھی دنوں ترکی، شام، عراق، ایران کے دور افتادہ علاقوں کے سرحدی علاقوں میں کرد نوجوان طلبہ کی تحریک جان پکڑ رہی تھی، ان کے رہنما عبداﷲ اوکلان مسلسل جدوجہد میں لگے رہے ہیں کہ اپنی کوئی آزاد ریاست ہو۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ایک قوم جو اتنے ملکوں کے دور دراز علاقوں میں آباد ہے، اس کی زبان، رسم و رواج ہیں، اپنے چاروں سمت مخالفین کی فوج رکھتے ہیں اور کوئی ملک بھلا کیونکر کوئی آزاد ریاست قائم ہونے دے گا۔
آزاد ریاست کا عبداﷲ اوکلان کردوں میں خیال پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر کوئی مخصوص علاقہ جو ریاست کی جان ہوتا ہے اس کو منوانے میں اب تک عبداﷲ اوکلان کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ سیاسی محاذ پر فرانس، جرمنی، سوئیڈن، روس، چین ان کے سیاسی موقف کے کسی حد تک موافقت ہیں۔
گویا قومیتوں کی آزادی کے خیالی فلسفے کے وہ قریب تر ہیں مگر امریکا، برطانیہ اور ترکی شدید مخالف ملکوں میں سے ہیں، کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی کے بعض علاقوں میں 15 فیصد تک کرد آباد ہیں، نیٹو ممالک میں بعض ترکی کی وجہ سے بھی کردوں کی آزاد ریاست کی مخالف ہیں اور امریکا اور برطانیہ اس کو دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔ عراق کی مرکزی حکومت بش ڈاکٹرائن (Bush Doctrine) کے اعتبار سے حکومت بدل ڈالو (Regime Change) رجیم چینج کے بعد ملکوں نے اس فلسفے کو اختیار کر لیا ہے جیسا کہ اس وقت شام کے ساتھ ہو رہا ہے، مگر یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شام جو کردوں کا مخالف تھا داعش سے جنگ کی بنا پر کردوں کا ساتھ دینے لگا۔
، اس طرح شام اور ترکی کے بعض علاقوں کو داعش سے خالی کرایا گیا، وہ اب کردوں کے پاس جا چکے ہیں۔ یہ عجیب بے سر پیر کی جنگ ہے۔ کردوں نے اس جنگ میں عراقی ملیشیا کا ساتھ دیا، جو کبھی ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے، شام میں جاری جنگ میں سعودی عرب بشارالاسد کی حکومت کا شدید مخالف ہے، یہاں تک کہ سعودی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق اگر عالمی طاقتوں نے جنگ بندی میں اسد حکومت کا خاتمہ نہ کیا تو وہ بزور طاقت اس کو گرا دے گا۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان شامی ساکنان کا ہوا، جو در بدر، خانماں خراب مشرق سے مغرب کا چکر لگا رہے ہیں اور اس بڑی رسہ کشی یعنی روس، امریکا کی پراکسی وار میں سب سے زیادہ فائدہ کردوں کا ہونے جا رہا ہے، کیوں کہ وہ داعش سے نبرد آزما ہیں اور اس طرح شام کا ایک محاذ کردوں نے سنبھال رکھا ہے۔ ایک نہ ایک روز تو یہ جنگ ختم ہونی ہے پھر کون سا حصہ کس کے پاس رہتا ہے، کوئی معمولی مسئلہ نہ ہو گا، کیوں کہ یہ سعودی عرب کا اہم مسئلہ ہے۔
جس کو امریکا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پہلے افغانستان کی جنگ میں اسامہ بن لادن کو امریکا نے استعمال کیا اور بعد ازاں بظاہر اس کی کہانی ایبٹ آباد پر ختم ہوئی۔ اب وکی لیکس کے خالق جولیان اسانچ نے نیا انکشاف کیا ہے کہ اسامہ ابھی زندہ ہیں اور کلین شیو کی ایک تازہ تصویر بھی دکھائی ہے، لہٰذا کسی بھی طور سے عالمی معاملات پر تبصرہ کرنا بے کار ہے، جب تک مخالف زاویوں سے جائزہ نہ لیا جائے۔
اس وقت جس طرح امریکا پراکسی وار کر رہا ہے وہ سعودی عرب کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ دشمنی کے مترادف ہے، وہ جس راہ پر چلا رہے ہیں وہ سعودی عرب کو ڈبونے جا رہے ہیں، کیوں کہ ترکی داعش کا دوست رہا ہے اور تیل کے ریٹ جو غیر مستحکم ہیں اور زوال پذیر ہیں اس میں سعودی عرب اور ترکی کے اتحاد کا کافی دخل ہے۔ اب بظاہر امریکا درمیان سے نکل گیا ہے اور روبرو روس اور سعودیہ آمنے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ہمنوا اور روس حزب اﷲ شام اور ایران وقت کے ساتھ پراکسی وار کے بجائے براہ راست جنگ کی طرف آتے جا رہے ہیں۔ امریکا نے کس طرح اسامہ بن لادن کے مسئلے پر چکما دیا، کہاں ایبٹ آباد اور کہاں امریکا۔
دنیا میں ایک وبا کی طرح خبر پھیلائی گئی اور اسی پر لوگوں نے مفروضے بنائے جب کہ یہ ایک مذاق تھا، اب دیکھیے اسامہ کس موقع پر زندہ کیے جاتے ہیں یا یونہی تاریخ کے صفحات پر مرگ اور واویلا برپا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیے یہ جنگ یونہی نہیں ہو رہی بلکہ یہ نیو ورلڈ آرڈر کا ایک حصہ تھا مگر روس کی طویل کمزوری کے بعد اچانک نیو ورلڈ آرڈر میں ایک رخنہ پڑ گیا، شام جو اختتام پر لڑکھڑا رہا تھا، اب شام جوابی کارروائی پر آمادہ ہے اور داعش جو راتوں رات ایک قوت بن گئی۔
شام سے عراق تک قابض ہوتی چلی گئی مگر اس جنگ میں کرد لیڈروں کی زبردست پیش قدمی اور علاقوں کی آزادی کو غلط بیانی سے دیکھا جا رہا ہے اور دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب داعش کو ختم کرنے کو ہے۔ سعودی عرب تو داعش کو کیا واقعی ختم کرنے کو ہے؟ جب کہ داعش انبیاء کی قبروں اور بزرگان دین کے مزاروں کو بم سے اڑانے میں مصروف ہے۔ اور اگر سعودی عرب اس کی روک تھام کرے تو یہ ایک اہم قدم ہو گا۔
مسلم دنیا میں تفریق کا عمل کسی طرح ختم کر دیا جائے تو بہت ہی بہتر ہو گا مگر جیسا کہ شام کی جنگ میں ایک تیسری جنگ روبرو ہے جس کا دائرہ بظاہر مختصر ہے لیکن وہ فی الوقت ترکی اور کردوں کے مابین ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ کردوں کے پاس اب تک کوئی اپنا وطن نہیں ہے۔ گو کہ وہ جہاں بھی ہیں یعنی ترکی سے لے کر ایران عراق آذربائی جان، آرمینیا تک مگر اصل میں مادر وطن کہاں ہے۔ اصل میں جہاں اصل کردستان ہے وہ عراق ایران ترکی کے مخصوص پہاڑی علاقہ اب جا کر جب سے داعش نے وسیع زمینی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنا علاقہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
وہ کسی خاص وطن کے لوگ نہیں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ ہیں ایک نہ ایک روز تو ان کو جانا ہے، وہ مستقلاً وہ اسلام کے نام پر دوسرے ملکوں پر اس بات سے قبضہ جاری نہیں رکھ سکتے کہ ہر ملک ملک مااست کہ ہر ملک ملک خدا است۔ صدیوں پہلے یہ ممکن تھا مگر ابھی تو تہذیب ایک سے دوسرے دور میں داخل ہو رہی ہے، نو آبادیاتی نظام کسی بھی شکل میں ہو براہ راست اس کا واپس آنا ممکن نہیں مگر کردستان ورکرز پارٹی اس لیے اپنی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ اتنی لمبی سرحدی پٹی پر آباد ہیں اور زبان قومیت کے فلسفے کے ساتھ انھوں نے سوشلسٹ فلسفہ کو اس میں شامل کر لیا ہے اور 40 برسوں سے اس کی ترویج اور عمل کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کامیابی کے امکانات نمایاں ہیں۔
زمینوں کا آزاد کرا لینا اور اپنی سوشلسٹ اسٹیٹ کی شکل دینا رنگ بھرنا کہ جو 40 برسوں سے بھرا جا رہا ہے، یہاں ان کے فلسفہ ماؤ کی طرز پر قبضوں کو آزاد کرانا جاری ہے، یہاں ورکرز پارٹی وہ غلطی نہیں کر رہی جو ڈاکٹر نجیب اﷲ نے کی کہ عورتوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کرنا شروع کر دیا ایک ایسی سوسائٹی جہاں افغانستان میں عام عورت گھر کا سودا لانے نہیں جاتی تھی، اب کردستان میں عورتوں نے داعش سے کئی قبضے آزاد کرا لیے اور اب وہ کردوں کے پاس ہیں، کیوں کہ بشارالاسد کرد لیڈروں اور کریملین کے تعلقات بہتر ہیں کرد روسی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں، مگر جنگ بندی کی صورت میں کرد اپنی چھوٹی سی ریاست ضرور قائم کر لیںگے اور یہ ایک نیا طوفان ہو گا۔