کرپشن غڑپشن اور ہڑپشن
آج کل دنیا کرپشن سے تہہ وبالا، پاکستان میں غڑپشن کا بول بالا اور صوبہ سندھ میں ہڑپشن کا گڑبڑگھوٹالا عروج پر ہے۔
PESHAWAR:
آج کل دنیا کرپشن سے تہہ وبالا، پاکستان میں غڑپشن کا بول بالا اور صوبہ سندھ میں ہڑپشن کا گڑبڑگھوٹالا عروج پر ہے۔ عام طور پرکرپشن مالی بدعنوانی کوکہتے ہیں جب ارباب اختیار کی طاقت کا تڑکہ لگتا ہے تو غڑپشن کہلاتی ہے یعنی ہرچہ آید درگھسیٹ اس میں اگر ریاست کی بے بسی بھی شامل ہوجائے تو ہڑپشن کا روپ دھار لیتی ہے۔
یعنی قلیہ بھی ہضم اور بادیہ بھی ہضم۔ مثلاً کمیشن کی خاطر ایسے ٹھیکیدارکو مہنگی ترین سڑک بنانے کا ٹھیکہ دینا جو بارش سے ذرا پہلے سڑک بنانے اور پہلی پھوار میں سڑک بہانے کا ماہر ہو،کرپشن کہلاتا ہے۔ سڑک بنانا اور بہانا، بہا کر بنانا کرپشن جاریہ یا غڑپشن کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی گھوسٹ سڑک تعمیرکرنا جو ایئرپورٹ سے زیادہ شاندار اور رن وے سے زیادہ پائیدار ہو، اس کے بعد سالم سڑک ہی ہڑپ کر جانا ہڑپشن کہلاتا ہے، جب کہ موقعہ واردات پر وہی پرانی کمرخمیدہ، سرد وگرم چشیدہ کٹی پھٹی سڑک پڑی ہوئی ملتی ہے۔
بے شک جب گلاب کا پھول لکھا ہوا پڑتے ہیں، تو تصور میں گوبھی کا پھول نہیں آتا لیکن نہ جانے کیوں ماضی کے کامیاب جمہوری دور میں ہڑپشن کے واقعات پڑھ کر نظروں کے سامنے ملیر ندی سے غیر قانونی رات کے اندھیرے میں بجری کے ٹرک کی لوڈنگ کا منظر گھومنے لگتا ہے۔ پچھلے کامیاب جمہوری دور کا ہی ذکر ہے کہ ایک عزت مآب کے گھر میں روز مرہ کے اخراجات مثلاً سبزی ترکاری، بسوں کے کرایے وغیرہ کے لیے پڑے ہوئے دو ارب روپے پائے گئے۔
آج تک ان کے ووٹر سکتے کے عالم میں ہیں کہ جب روزمرہ کے اخراجات دو ارب ہوتے ہیں تو ماہانہ اخراجات مثلاً کریانہ کا ماہانہ بل، بچوں کی فیسیں، بجلی گیس وغیرہ کے بلوں کے اخراجات کتنے کھرب روپے ہوں گے؟ اور یہ آمدنی آتی تو خیر قومی خزانے سے ہی ہوگی لیکن کتنے ٹرک لوڈ کے برابر ہوگی؟
68 سالہ دور گواہ ہے پاکستان کی مادرزاد اشرافیہ مقامی حکومتوں عوامی جمہوریت کی دشمن ہے جب کہ جرنیلی جمہوریت (اپنے مفاد کے لیے ہی سہی) اس کی دوست ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ملک پر پچھلی کامیاب ہڑپشن مآب جمہوریت کا تسلط ہے جس نے اپنے سابقہ دور میں جمہوریت کی تکمیل کی آئینی ضرورت مقامی حکومتوں کی عوامی جمہوریت کو آنے نہیں دیا، اب جب کہ آہی گئی ہے تو اسے چلنے نہیں دینا چاہتی۔ کیونکہ ان کے ایک ہاتھ میں قانون سازی کی طاقت، دوسرے ہاتھ میں مقامی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز،کھوپڑی میں ہڑپشن کے نئے ہتھکنڈے، سر پر صوبائی خودمختاری کی چھتری تنی ہوئی ہے۔
نتیجتاً یہ جو چاہیں وہی قانون ہے مثلاً پچھلے کامیاب جمہوری دورکے آخری اجلاس میں معزز ارکان اسمبلی نے اپنی خواہش کے مطابق اپنی تنخواہوں اور مراعات میں جتنا چاہا اضافہ پچھلی تاریخوں میں کرلیا اور دوسرے ہی دن (چھٹی کے باوجود) بینک کھلوا کر سارے بقایا جات وصول کرلیے۔ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے مقامی حکومتوں کی عوامی جمہوریت کے تمام کماؤ بلدیاتی ادارے بہ شمول کچرے کی کنڈیاں قانون سازی کے ذریعے محکمہ بلدیہ کی تحویل میں دے دیے (یا لے لیے) اور تمام بلدیاتی ترقیاتی فنڈز کے اجرا اور نگرانی کا اختیار وزیر بلدیات اور وزیر اعلیٰ کے حوالے کردیا گیا۔تاکہ مستقبل میں ''پہلے کچھ دو پھر کچھ لو'' جیسے زریں جمہوری اصول سے کام لیا جاسکے۔
سوال یہ ہے جن بلّوں کو دودھ کی رکھوالی پر مامورکیا گیا ہے جن کے منہ کو دودھ لگ گیا ہے کیا وہ اپنے فرض خبیثہ سے بہ رضا و رغبت دستبردار ہوں گے؟ بالکل نہیں ہوں گے۔ ان کا دودھ چھڑانا پڑے گا۔ کیونکہ گورے انگریز بالائی کھاتے تھے دودھ رعایا کے لیے چھوڑ دیتے تھے لیکن یہ کالے انگریز تو دودھ کی کڑھائی بھی دھو کر پی جاتے ہیں۔
ملک کا اندرونی استحکام محفوظ، خودمختار اور بااختیار مقامی حکومتوں کی عوامی جمہوریت پر منحصر ہے۔ شرط یہ ہے کہ عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھنے والے تمام اداروں مثلاً تعلیم، صحت، مقامی پولیس وغیرہ کوکنٹرول کرنے کے اختیارات فوراً گراس روٹ لیول کی آخری اتھارٹی ضلع ناظم کو منتقل کردیے جائیں۔
حالات حاضرہ پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے نظر افروز ریمارکس ملاحظہ کیجیے۔ پھر کراچی کی بات ہوگی۔ ''تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں۔ ایس ایچ او دو کروڑ دے کر لگتا ہے، اگر چیف جسٹس پاکستان بھی بغیر شناخت کے پرچہ درج کرانے چلا جائے تو اس سے بھی رشوت طلب کی جائے گی؟
میری منطق انتہائی سادہ ہے، اگر تھانوں اور تھانیداروں کا یہ حال ہے توکنٹرول کون کرے گا؟ رینجرز؟ رینجرزکواختیارات کون دے گا؟ پھر انتشار اور بدامنی کا ذمے دار کون ہے؟
ماضی میں کراچی والوں (بہ شمول کراچی کے تمام مستقل رہائشی) کے مینڈیٹ کو تسلیم کرکے دیکھ لیا ۔ دنیا نے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دور کو تسلیم کیا۔ پچھلے کامیاب جمہوری دور میں کراچی کے مینڈیٹ کوکچل کر دیکھ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کی گرفتاری ایسے حیرت انگیز انکشافات ہوں گے کہ سن کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور سوچ کر گھگی بندھ جائے گی۔
برائی کا پودا جڑ پکڑنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑا جاسکتا ہے اور ایسا مقامی حکومتوں کی عواومی جمہوریت میں ہی ممکن ہے کیونکہ علاقہ محدود ہوتا ہے۔علاقہ کونسلروں اور مقامی پولیس میں ووٹرز کے درمیان ان کی نظروں کے سامنے رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ سب کے بچے بچیاں اسکول، لڑکے لڑکیاں کال یونیورسٹی جاتے ہیں، سب کے چاچے مامے بھائی بھتیجے وغیرہ مارکیٹوں ، کارخانوں، دفتروں وغیرہ میں برسر روزگار ہوتے ہیں۔ سب کے عزیز رشتے دار، برادری والے، بیٹی کے سسرال والے اور بہو کے میکے والے۔ مختلف محلوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ سب کو ہر قیمت پر امن و امان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسے علاقے میں جرائم کا اڈا قائم ہوسکتا ہے؟ اگر ہوگیا تو چل سکتا ہے؟
اس کے باوجود اگر اوپر والے اپنی روش نہیں بدلتے (جیساکہ نظر آرہا ہے) اور حسب معمول روشنیوں کا شہر بنانے کے بجائے موم بتیاں روشن کرنے کے اگر بتیاں جلائیں گے تو روشنی کیا خاک ہوگی۔ خوشبودار ہی سہی دھواں پھیلے گا اور بے ساختہ دعا کے لیے ہاتھ بلند ہوں گے۔
یااللہ! جو بھی کراچی والا (کراچی کا مستقل رہائشی) اوپر پہنچے، اس کو بغیر کسی پوچھ گچھ کے سیدھا جنت الفردوس روانہ کردے۔ کیونکہ یہ غریب 70 فیصد ٹیکس اور 30 فیصد بھتہ دینے کے بعد اندھی گولی کھا کر خالی ہاتھ، جیتے جاگتے جہنم سے Direct تیری سرکار میں پہنچا ہے۔(آمین)