بدعنوانی کا چلن کیسے ختم ہو
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بدعنوانی معاشرتی ناسور کی طرح پورے ملک میں ہر جانب پھیل چکی ہے
PESHAWAR:
گزشتہ دنوں ایک کالم میں ہم نے قومی زوال کی نفسیاتی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''جس قوم میں بے حسی، لاتعلقی، لاپرواہی اور غیر ذمے داری جیسے امراض عام ہوجائیں اور تادیر یہ صورتحال برقرار رہے (ان کا علاج نہ کیا جائے) تو پھر اس قوم کو غار عزلت میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن کسی قوم میں ذرا سی بھی حس اور احساس ذمے داری باقی رہ جائے تو وہ ذلت کی اتھاہ گہرائی میں گرتے گرتے بھی سنبھل جاتی ہے'' وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے لوگوں نے ہمارے موقف کی نہ صرف تعریف کی بلکہ دل کھول کر اس کی حمایت بھی کی۔ ہم فرداً فرداً ان تمام خواتین و حضرات کا شکریہ ادا تو نہیں کرسکتے البتہ ان سطور کے ذریعے ان تک اپنا احساس تشکر پہنچا رہے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کے پیغام سے ہمیں یہ پیغام بھی ملا کہ ہم جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اتنا کچھ معاشرتی سدھار اور بہتری کے لیے لکھا جاتا ہے تو کون اس کو پڑھتا ہوگا؟ مگر اندازہ ہوا کہ یہ باتیں بے کار نہیں، کچھ نہ کچھ لوگ تو ان سے متاثر ہوتے ہیں اور یوں معاشرتی سدھار کی امید تو کی جاسکتی ہے۔
مگر دراصل جن کو ان تحریروں پر توجہ دینی چاہیے وہ شاید (اب تک تو ہمارا تاثر یہی ہے) اخبارات پر نظر غلط انداز بھی نہیں ڈالتے، اگر خود باخبر رہتے تو اردگرد ''سب ٹھیک ہے'' کا تاثر دینے والے کبھی اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہوتے۔ یہ لمبی چوڑی تمہید اس لیے باندھی گئی ہے کہ ملک میں بدعنوانی کا چلن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ کوئی شعبہ، ادارہ اور سرکاری و نجی محکمہ ایسا باقی نہ بچا جس میں بدعنوانی وہ بھی کروڑوں بلکہ اربوں کی نہ ہوچکی ہو۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بدعنوانی معاشرتی ناسور کی طرح پورے ملک میں ہر جانب پھیل چکی ہے پھر بھی ان کو مختصر کیا جائے تو دو محکموں کی بدعنوانی دراصل سب کی مادر گرامی (Mother of All Corruption) قرار دی جاسکتی ہے جن میں سرفہرست محکمہ تعلیم اور صحت ہیں۔ وہ دن جب بڑھتے ہوئے تعلیمی رجحان کی ضرورتوں کو حکومتی سطح پر نظرانداز کیا گیا اور نجی تعلیمی اداروں کی بن آئی، دراصل ملک میں تعلیم اسی دن کوما (Coma) میں چلی گئی اور تعلیم کے نام پر ایک منافع بخش کاروبار نے جنم لیا۔ نجی شعبہ بھی اگرچہ ابتدا میں تعلیم کے سلسلے میں مخلص تھا۔
ان کی تعلیمی خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، مگر اب یہ صورتحال صرف خواب و خیال ہے۔ نجی شعبہ کیونکہ سرکاری تعلیمی شعبے کی نسبت مہنگا ذریعہ تعلیم تھا اس لیے اس سے ابتدا ہی سے صاحب حیثیت افراد استفادہ کرسکتے تھے۔ غریبوں کے بچے تو سرکاری اداروں سے بھی بمشکل فیضیاب ہوسکتے تھے، وہ بھی اسکول کے بعد محنت مزدوری کرکے۔ اس سلسلے میں چند ادارے ایسے طلبا کے لیے غنیمت تھے جو ان کو اپنے اداروں میں معمولی جزوقتی کام دے کر ان کے تعلیمی اخراجات کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔
حکمرانوں نے جب سے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر تمام وسائل اپنے قبضے میں کرلیے تو ہمارے حکمران عام معاشرتی و معاشی سطح سے بلند کوئی ''خاص چیز'' بن کر رہ گئے ہیں، اس لیے تعلیم و صحت کبھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہی، ان کے بچے اعلیٰ نجی پانچ ستارہ تعلیمی اداروں میں پڑھ کر مزید اعلیٰ تعلیم ممالک غیر سے حاصل کرتے ہیں، علاج کے لیے معمولی بیماری میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری خرچ پر علاج کرانا عام بات ہے۔ لہٰذا حکمران و عوام کے درمیان اقتصادی فاصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں، وہ اور ان کے بچے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت تک سے محروم ہیں۔
سرکار جب لوگوں کے بنیادی حقوق سے لاتعلق ہوئی تو نجی شعبے نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نجی تعلیمی ادارے اور شفا خانے جو پہلے ہی سرکاری اداروں کی نسبت مہنگے تھے اب عام آدمی کی پہنچ سے اور بھی دور ہوچکے ہیں، بلکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے بھی بمشکل ایک دو بچے کو نجی اسکولوں میں اپنی کئی اہم ضروریات کو پس پشت ڈال کر پڑھا سکتے ہیں۔
علاج کے لیے تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اچھی تعلیم سے محرومی بھی شاید برداشت کرلی جائے مگر اولاد، بوڑھے والدین، بیوی، بہن بھائی اگر بیمار ہوجائیں تو ان کا علاج ہر صورت میں کرایا جائے گا۔ سرکاری شفا خانوں کا حال جب اس قدر زبوں ہوگا کہ وہاں کسی بھی طرح کی طبی سہولت میسر نہ ہو تو پھر حق حلال کمانے والا اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر مرتا تو نہیں دیکھ سکتا، اس کی مجبوری اس کو بدعنوانی کی راہ دکھائے گی۔
معاشرے کا ہر فرد اپنی ضروریات کو آئے دن بڑھتی مہنگائی کا سامنا کرنے کے لیے جائز ذرایع ناکافی ہونے پر ناجائز ذرایع اختیار کرنے لگے۔ اس میں یہ گلہ کرنا کہ ڈاکٹر اسپتال میں علاج کے بجائے ذاتی کلینک میں اپنی مقررہ فیس لے کر علاج کا مشورہ دیتے ہیں، وکلا ڈبل فیس پر مجرموں کو معصوم اور بے گناہ کو مجرم ثابت کررہے ہیں، پولیس اہلکار رشوت لے کر مجرموں کو فرار کرا رہے ہیں، جب کہ شرفا کو معمولی بات پر پریشان کرکے روپیہ بٹور رہے ہیں۔ دراصل یہ سب ان کی ضروریات ان سے کروا رہی ہیں۔
فلاحی معاشرہ حکمرانوں کی مکمل توجہ اور بھرپور احساس ذمے داری سے تشکیل پاتے ہیں۔ اگر ان کو احساس ہوجائے کہ معاشرے کا کوئی فرد چاہے مزدور ہو یا وزیر پہلے انسان ہے اور ہر انسان کی بنیادی ضروریات یکساں ہیں، جس میں جو لیاقت ہے، جو ہنر ہے، وہ اس کے مطابق معاشرے کی خلوص نیت سے خدمت کررہا ہے تو پھر اس کے کنبے کو تمام سہولیات فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ اپنی ضروریات پوری ہونے پر بھی کوئی (سوائے بدبخت کے) بدعنوانی اور حرام کمائی کی طرف متوجہ ہو۔
اگر حکومت تمام افراد کو تعلیم، صحت اور انصاف بقدر ضرورت اور بروقت مہیا کردے تو معاشرہ صد فی صد نہ سہی کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے گورنر کو جو خط تحریر کیا وہ بہترین طرز حکمرانی کا ایک مربوط چارٹرڈ ہے، اس خط میں اور باتوں کے علاوہ حضرت علیؓ نے گورنر کو شعبہ تعلیم اور انصاف سے متعلق افراد کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی بطور خاص ہدایت فرمائی کہ اگر استاد اور منصف مالی مشکلات کا شکار ہوں گے تو وہ اپنے فرض بخوبی ادا نہ کرسکیں گے، اہل ثروت کے زیر اثر انصاف کے تقاضے بدل جائیں گے۔ اگر ہمارے حکمران اس مکتوب کے مطالعے کی زحمت کریں تو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا مشکل نہ رہے۔
جب تک تعلیمی ادارے مخلص اور تعمیر وطن میں دلچسپی لینے والوں کی دسترس میں تھے تو سرکاری اسکولوں سے ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا جیسے اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کے علاوہ علم و ادب کے اور کئی روشن ستاروں نے افق وطن کو منور کیا۔ مگر جب اقربا پروری، رشوت و سفارش کے ذریعے نااہلوں کو اہل افراد پر فوقیت دی گئی تو سارا معاشرتی نظام زمیں بوس ہوگیا، ہر شعبے کی کارکردگی صفر اور اخراجات بے لگام ہوگئے، نوبت قومی اداروں کو اونے پونے فروخت کرنے تک پہنچ گئی۔
حتیٰ کہ محکمہ صحت میں جب سفارش، رشوت اور نقل سے حاصل کردہ ڈگریوں سے کام لیا جائے گا تو پھر مریض شفایاب ہونے کے بجائے امراض سے دائمی نجات ہی حاصل کرے گا۔ غلط تشخیص، غلط اور زائد المیعاد دواؤں اور انجکشن کے باعث اموات پر کبھی کسی کو نہ پکڑا گیا نہ سزا ہوئی تو پھر یہ محکمہ صحت کے بجائے محکمہ اجل ہی قرار پائے گا۔
یہی صورتحال بھی تعلیمی اداروں کی ہے کہ وہاں ہر سال فیسوں میں اضافے کے باوجود بلا ٹیوشن کوئی پاس نہیں ہوتا۔ یہاں تک بھی درست مگر جو اقدار ان اداروں میں پروان چڑھ رہی ہیں، وہ ایسے ہی افراد پیدا کر رہی ہیں جو بے حس، لاتعلق اور غیر ذمے دار شہری کے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔
معلومات عامہ اور ادبی ذوق سے بے بہرہ، احساسات و جذبات کے درست اظہار سے محروم۔ جن لوگوں نے اپنی محنت اور حلال کمائی سے بلاسفارش اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہیں کہ وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ آخر ٹھوکریں کھا کر وہ ممالک غیر میں اپنی صلاحیتوں سمیت منتقل ہو رہے ہیں۔ اپنی دولت و حیثیت کے بل بوتے پر اسناد حاصل کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن کو وہ اپنی ذمے داری سمجھنے کے بجائے دولت بنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک کالم میں ہم نے قومی زوال کی نفسیاتی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''جس قوم میں بے حسی، لاتعلقی، لاپرواہی اور غیر ذمے داری جیسے امراض عام ہوجائیں اور تادیر یہ صورتحال برقرار رہے (ان کا علاج نہ کیا جائے) تو پھر اس قوم کو غار عزلت میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن کسی قوم میں ذرا سی بھی حس اور احساس ذمے داری باقی رہ جائے تو وہ ذلت کی اتھاہ گہرائی میں گرتے گرتے بھی سنبھل جاتی ہے'' وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے لوگوں نے ہمارے موقف کی نہ صرف تعریف کی بلکہ دل کھول کر اس کی حمایت بھی کی۔ ہم فرداً فرداً ان تمام خواتین و حضرات کا شکریہ ادا تو نہیں کرسکتے البتہ ان سطور کے ذریعے ان تک اپنا احساس تشکر پہنچا رہے ہیں، کیونکہ ان لوگوں کے پیغام سے ہمیں یہ پیغام بھی ملا کہ ہم جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اتنا کچھ معاشرتی سدھار اور بہتری کے لیے لکھا جاتا ہے تو کون اس کو پڑھتا ہوگا؟ مگر اندازہ ہوا کہ یہ باتیں بے کار نہیں، کچھ نہ کچھ لوگ تو ان سے متاثر ہوتے ہیں اور یوں معاشرتی سدھار کی امید تو کی جاسکتی ہے۔
مگر دراصل جن کو ان تحریروں پر توجہ دینی چاہیے وہ شاید (اب تک تو ہمارا تاثر یہی ہے) اخبارات پر نظر غلط انداز بھی نہیں ڈالتے، اگر خود باخبر رہتے تو اردگرد ''سب ٹھیک ہے'' کا تاثر دینے والے کبھی اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہ ہوتے۔ یہ لمبی چوڑی تمہید اس لیے باندھی گئی ہے کہ ملک میں بدعنوانی کا چلن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ کوئی شعبہ، ادارہ اور سرکاری و نجی محکمہ ایسا باقی نہ بچا جس میں بدعنوانی وہ بھی کروڑوں بلکہ اربوں کی نہ ہوچکی ہو۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بدعنوانی معاشرتی ناسور کی طرح پورے ملک میں ہر جانب پھیل چکی ہے پھر بھی ان کو مختصر کیا جائے تو دو محکموں کی بدعنوانی دراصل سب کی مادر گرامی (Mother of All Corruption) قرار دی جاسکتی ہے جن میں سرفہرست محکمہ تعلیم اور صحت ہیں۔ وہ دن جب بڑھتے ہوئے تعلیمی رجحان کی ضرورتوں کو حکومتی سطح پر نظرانداز کیا گیا اور نجی تعلیمی اداروں کی بن آئی، دراصل ملک میں تعلیم اسی دن کوما (Coma) میں چلی گئی اور تعلیم کے نام پر ایک منافع بخش کاروبار نے جنم لیا۔ نجی شعبہ بھی اگرچہ ابتدا میں تعلیم کے سلسلے میں مخلص تھا۔
ان کی تعلیمی خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، مگر اب یہ صورتحال صرف خواب و خیال ہے۔ نجی شعبہ کیونکہ سرکاری تعلیمی شعبے کی نسبت مہنگا ذریعہ تعلیم تھا اس لیے اس سے ابتدا ہی سے صاحب حیثیت افراد استفادہ کرسکتے تھے۔ غریبوں کے بچے تو سرکاری اداروں سے بھی بمشکل فیضیاب ہوسکتے تھے، وہ بھی اسکول کے بعد محنت مزدوری کرکے۔ اس سلسلے میں چند ادارے ایسے طلبا کے لیے غنیمت تھے جو ان کو اپنے اداروں میں معمولی جزوقتی کام دے کر ان کے تعلیمی اخراجات کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔
حکمرانوں نے جب سے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر تمام وسائل اپنے قبضے میں کرلیے تو ہمارے حکمران عام معاشرتی و معاشی سطح سے بلند کوئی ''خاص چیز'' بن کر رہ گئے ہیں، اس لیے تعلیم و صحت کبھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہی، ان کے بچے اعلیٰ نجی پانچ ستارہ تعلیمی اداروں میں پڑھ کر مزید اعلیٰ تعلیم ممالک غیر سے حاصل کرتے ہیں، علاج کے لیے معمولی بیماری میں بھی ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری خرچ پر علاج کرانا عام بات ہے۔ لہٰذا حکمران و عوام کے درمیان اقتصادی فاصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں، وہ اور ان کے بچے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت تک سے محروم ہیں۔
سرکار جب لوگوں کے بنیادی حقوق سے لاتعلق ہوئی تو نجی شعبے نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نجی تعلیمی ادارے اور شفا خانے جو پہلے ہی سرکاری اداروں کی نسبت مہنگے تھے اب عام آدمی کی پہنچ سے اور بھی دور ہوچکے ہیں، بلکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے بھی بمشکل ایک دو بچے کو نجی اسکولوں میں اپنی کئی اہم ضروریات کو پس پشت ڈال کر پڑھا سکتے ہیں۔
علاج کے لیے تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اچھی تعلیم سے محرومی بھی شاید برداشت کرلی جائے مگر اولاد، بوڑھے والدین، بیوی، بہن بھائی اگر بیمار ہوجائیں تو ان کا علاج ہر صورت میں کرایا جائے گا۔ سرکاری شفا خانوں کا حال جب اس قدر زبوں ہوگا کہ وہاں کسی بھی طرح کی طبی سہولت میسر نہ ہو تو پھر حق حلال کمانے والا اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر مرتا تو نہیں دیکھ سکتا، اس کی مجبوری اس کو بدعنوانی کی راہ دکھائے گی۔
معاشرے کا ہر فرد اپنی ضروریات کو آئے دن بڑھتی مہنگائی کا سامنا کرنے کے لیے جائز ذرایع ناکافی ہونے پر ناجائز ذرایع اختیار کرنے لگے۔ اس میں یہ گلہ کرنا کہ ڈاکٹر اسپتال میں علاج کے بجائے ذاتی کلینک میں اپنی مقررہ فیس لے کر علاج کا مشورہ دیتے ہیں، وکلا ڈبل فیس پر مجرموں کو معصوم اور بے گناہ کو مجرم ثابت کررہے ہیں، پولیس اہلکار رشوت لے کر مجرموں کو فرار کرا رہے ہیں، جب کہ شرفا کو معمولی بات پر پریشان کرکے روپیہ بٹور رہے ہیں۔ دراصل یہ سب ان کی ضروریات ان سے کروا رہی ہیں۔
فلاحی معاشرہ حکمرانوں کی مکمل توجہ اور بھرپور احساس ذمے داری سے تشکیل پاتے ہیں۔ اگر ان کو احساس ہوجائے کہ معاشرے کا کوئی فرد چاہے مزدور ہو یا وزیر پہلے انسان ہے اور ہر انسان کی بنیادی ضروریات یکساں ہیں، جس میں جو لیاقت ہے، جو ہنر ہے، وہ اس کے مطابق معاشرے کی خلوص نیت سے خدمت کررہا ہے تو پھر اس کے کنبے کو تمام سہولیات فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ اپنی ضروریات پوری ہونے پر بھی کوئی (سوائے بدبخت کے) بدعنوانی اور حرام کمائی کی طرف متوجہ ہو۔
اگر حکومت تمام افراد کو تعلیم، صحت اور انصاف بقدر ضرورت اور بروقت مہیا کردے تو معاشرہ صد فی صد نہ سہی کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے گورنر کو جو خط تحریر کیا وہ بہترین طرز حکمرانی کا ایک مربوط چارٹرڈ ہے، اس خط میں اور باتوں کے علاوہ حضرت علیؓ نے گورنر کو شعبہ تعلیم اور انصاف سے متعلق افراد کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی بطور خاص ہدایت فرمائی کہ اگر استاد اور منصف مالی مشکلات کا شکار ہوں گے تو وہ اپنے فرض بخوبی ادا نہ کرسکیں گے، اہل ثروت کے زیر اثر انصاف کے تقاضے بدل جائیں گے۔ اگر ہمارے حکمران اس مکتوب کے مطالعے کی زحمت کریں تو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا مشکل نہ رہے۔
جب تک تعلیمی ادارے مخلص اور تعمیر وطن میں دلچسپی لینے والوں کی دسترس میں تھے تو سرکاری اسکولوں سے ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا جیسے اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کے علاوہ علم و ادب کے اور کئی روشن ستاروں نے افق وطن کو منور کیا۔ مگر جب اقربا پروری، رشوت و سفارش کے ذریعے نااہلوں کو اہل افراد پر فوقیت دی گئی تو سارا معاشرتی نظام زمیں بوس ہوگیا، ہر شعبے کی کارکردگی صفر اور اخراجات بے لگام ہوگئے، نوبت قومی اداروں کو اونے پونے فروخت کرنے تک پہنچ گئی۔
حتیٰ کہ محکمہ صحت میں جب سفارش، رشوت اور نقل سے حاصل کردہ ڈگریوں سے کام لیا جائے گا تو پھر مریض شفایاب ہونے کے بجائے امراض سے دائمی نجات ہی حاصل کرے گا۔ غلط تشخیص، غلط اور زائد المیعاد دواؤں اور انجکشن کے باعث اموات پر کبھی کسی کو نہ پکڑا گیا نہ سزا ہوئی تو پھر یہ محکمہ صحت کے بجائے محکمہ اجل ہی قرار پائے گا۔
یہی صورتحال بھی تعلیمی اداروں کی ہے کہ وہاں ہر سال فیسوں میں اضافے کے باوجود بلا ٹیوشن کوئی پاس نہیں ہوتا۔ یہاں تک بھی درست مگر جو اقدار ان اداروں میں پروان چڑھ رہی ہیں، وہ ایسے ہی افراد پیدا کر رہی ہیں جو بے حس، لاتعلق اور غیر ذمے دار شہری کے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔
معلومات عامہ اور ادبی ذوق سے بے بہرہ، احساسات و جذبات کے درست اظہار سے محروم۔ جن لوگوں نے اپنی محنت اور حلال کمائی سے بلاسفارش اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہیں کہ وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ آخر ٹھوکریں کھا کر وہ ممالک غیر میں اپنی صلاحیتوں سمیت منتقل ہو رہے ہیں۔ اپنی دولت و حیثیت کے بل بوتے پر اسناد حاصل کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن کو وہ اپنی ذمے داری سمجھنے کے بجائے دولت بنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔