فوج سے دور باش
امریکا کو آزادی اظہار پر بہت ناز ہے مگر کیا اس امریکا میں کوئی شخص اپنی فوج کے خلاف بولتا ہے۔
میں ہوشیار باش بھی کہہ سکتا تھا مگر اس کی ضرورت نہیں ، فوج اب ایک ا یسا قومی ادارہ ہے،جسے امریکا بھی لتاڑ رہا ہے اور ہمارا میڈیا بھی، جس کے منہ میں جو آتا ہے، بولتا چلا جاتا ہے۔
ایک عدالتی فیصلہ کیا آیا ہے جیسے سونامی آ گیا ہو، میڈیا پر اٹھنے والی طوفانی لہریں ہیں جو فوج کو بحیرہ ہند میں دھکیل دینا چاہتی ہیں۔عدالتی فیصلے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں جس کا دن رات ڈھنڈورا پیٹا جارہاہے، عدالت نے ایک مینڈیٹ چوری کی طرف اشارہ کیا اور جن چوروں کے ہاتھ سارا مال لگا ،ان کا نام لینے کی کسی میں ہمت نہیں،اس لیے نہیں کہ کوئی کسی کا تنخواہ دار ہے، کوئی کسی کا درباردار ہے، ساراملبہ جنرل اسلم بیگ، جنرل حمید گل، جنرل اسد درانی پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ ایک پرانی سازش تھی،جسے اب پروان چڑھایا جا رہا ہے۔اسلم بیگ کا کوئی یہ احسان نہیں مانتا کہ اس نے مارشل لا نہیں لگایا ، الٹا اسے تمغہ جمہوریت لینے پر طعنے دیے جا رہے ہیں، اسلم بیگ کی کوئی ستائش نہیں کرتا کہ اس نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اسے ضرب مومن کی مشقوں میں الجھا دیا۔
اسلم بیگ کا کوئی احسان نہیں مانتا کہ اس نے عراق کے خلاف پاک فوج کو جنگ میں نہیں جھونکا،بلکہ اسے تبوک میں مورچہ زن کیا جس کی سرحد عراق سے نہیںملتی۔اسلم بیگ نہ ہوتا تو اسحاق بابا ، بی بی سے حلف نہ لیتا، اسلم بیگ نے صدر بابا کو مجبور کیا کہ مقررہ تاریخ سے پہلے بے نظیر سے حلف لیا جائے کہ پورے ایوان میں وہ فرسٹ لارجسٹ پارٹی ہے۔اسلم بیگ کا قصور یہ ہے کہ اس نے اپنے پیش رو کے لے پالک سیاستدانوں کے نخرے برداشت کرنے سے انکار کیا۔اسلم بیگ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ یحییٰ خان نہیں بنا، ایوب خان کی رخصتی کا وقت آیا تو یحییٰ خان نے مارشل لا لگا دیا،اپوزیشن کا بہت بڑا اتحاد یحییٰ خان کا کچھ نہ بگاڑ سکا ، الٹا اس کا ہم نوا بن گیا ، اس کے اقتدار کا حصے دار بن بیٹھا اور یوں اس جگتو فرنٹ نے پاکستان توڑ دیا، وہ پاکستان جسے لاکھوںمسلم مائوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دے کر گود لیا تھا۔
اس جمہوریت پسند قوم کے میں قربان جائوں جس نے معین قریشی کو نگران وزیر اعظم کا حلف لینے کے بعد پاکستان کا شناختی کارڈ دان کیا۔اور جس نے بلا چوں وچرا شوکت عزیز کووزیر اعظم بنانے کے لیے کھلے الیکشن میں منتخب کیا۔اور جس نے محمد علی بوگرہ کا کھلے بازووں سے استقبال کیا اور جس کے پہلے وزیر اعظم نے روس کا دورہ ٹھکرا کر امریکا کا دورہ قبول کیا اورسرکاری دورہ ختم ہونے کے باوجود ہفتوں تک بیگم صاحبہ کے ساتھ امریکا کے طول وعرض کی سیاحت کی۔میں اس حریت پسند قوم کے غیرت بریگیڈ کو سلام پیش کرتا ہوں،اور جنرل حمید گل کا قصہ بھی بر سر زمیں پاک کر لیتے ہیں، ان پر الزام ہے جسے وہ قبول کرتے ہیں کہ انھوں نے آئی جے آئی بنائی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، اس پر چیں بجبیں ہونے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ انگریز وں کے کتے نہلانے والوں کو یونینسٹ پارٹی میں کس نے شامل کیا تھا، قائد اعظم کو کافر اعظم کس نے کہا۔
لیاقت علی خان کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔مشرقی پاکستان کی اکثریت کو غداری کا سرٹیفیکٹ کس نے جاری کیا اوراس مرد انصاف کا نام کیا تھا جو ڈھاکا میں ملک کے مقبول تریں منتخب لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کے کیس کی سماعت کر رہا تھا مگر جان بچانے کے لیے کمرہ عدالت میں جوتیاں چھوڑ کربھاگ نکلا تھا۔اور یہ بھی بتا دیجیے کہ نظریہ ضرورت کے تحت ایوب خان کے مارشل لا کو سند جواز عطا کرنے والاکون تھا، ضیاالحق کے پی سی او پر کس کس نے حلف لیا اور جنرل مشرف نے عدلیہ سے آئین میں تبدیلی کا جو اختیارنہیں مانگا تھا ، وہ بھی اسے کیوں عطا کیا گیا، کیا یہ ساری خطائیں جنرل حمید گل سے سرزد ہوئیں یا ان کے کہنے پر ہوئیں۔دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ، جرنیل برے سہی،مگرسویلین سورمائوں کا کردار کیا ہے۔
اور جان لیجیے کہ فوج چند جرنیلوں کا نام نہیں مگر سازش یہ ہے کہ جرنیلوں کو نہیں، پوری فوج کو رگید ڈالو۔ہمارے ہاں فوج کو بدنام کرنے کے لیے ایک اصطلاح ہے، خاکی بیورو کریسی، کسی زمانے میں اس بیورو کریسی کا رنگ خاکی ہوتا ہوگا مگر ذہن پر زور ڈالیے کہ اس وقت اس کی وردی کا رنگ کیا ہے، اس میں تو سبزہ نمایاں ہے جو پاک پرچم پر حاوی ہے، جس پرچم میں اس کے شہیدوں کے جسد خاکی کو لپیٹ کر دفن کرتے ہیں، وہ سبز رنگ جو چہار سوکھیتوں میں لہلہاتا ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔اس اعتبار سے اب تو یہ سبزبیورو کریسی ہوئی۔مگر رگڑتے ہم خاکی بیوروکریسی کو ہیں جس کا اب زمینی اور حقیقی وجود ہی کوئی نہیں ۔فوج کے خلاف بغض کے اظہار کے لیے کبھی ہم ایجنسیوں کا نام لیتے ہیں ، کبھی فرنٹیئر کانسٹیبلری کو نشانہ بناتے ہیں ، کبھی رینجرز کا نام لے کر صلواتیں سناتے ہیں،اور کبھی ٹرپل ون بریگیڈ پر براہ راست برستے ہیں۔
امریکا کو آزادی اظہار پر بہت ناز ہے مگر کیا اس امریکا میں کوئی شخص اپنی فوج کے خلاف بولتا ہے۔میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ جنرل کیانی جس فوج کی کمان کر رہے ہیں،یہ ایک قومی فوج ہے جو حب الوطنی کے جذبوں سے معمور ہے، اس فوج نے کئی مواقع آنے کے باوجود اقتدار پر قبضہ نہیں کیا تو پھر اس فوج اور اس کمانڈر کے ہوتے ہوئے فوج کے خلاف شرمناک پراپیگنڈہ مہم کیوں جاری ہے۔ ایوب خان کے جوتے صاف کرنے والے، یحی خاں کی شبانہ محفلوں کی زینت بننے والے، ضیاالحق کے ایک اشارے پر دم دبا کر اس کی خدمت میں حاضرباش، ہوش کے ناخن لیجیے۔ان سرفروشوںکو بلیم گیم کا نشانہ مت بنائیں۔ بلی کو دھکیل کر دیوار کے ساتھ مت لگائیں۔