معاشی سست روی حکومتی پالیسیاں اربوں روپے پھنس گئے تاجر پریشان

صارفین کی قوت خریدمیں کمی،بینک ٹرانزیکشن ٹیکس اورکھاتے منجمدکرکے ریکوری جیسےعوامل سےملکی تجارت کاپہیہ جام ہونے کا خدشہ


Ehtisham Mufti February 19, 2016
جوڑیابازار،کپڑا،یارن،کیمیکل،پیپرودیگرمارکیٹس کے تاجروں کو ریکوری میں مشکلات،ادائیگیاں10فیصدتک محدود،ایف بی آرپرتنقید فوٹو: عرفان علی/ایکسپریس

معاشی سست روی، سرمائے کی قلت، محدود صنعتی سرگرمیوں، بیروزگاری، حکومتی غیرموافق پالیسیوں، سازگار کاروباری ماحول نہ ہونے، ریونیو جنریشن پر حد سے زیادہ توجہ اور دیگر عوامل کے باعث مقامی تجارت پر کسادبازاری کے بادل چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز سخت پریشان ہیں اور پاکستان کی سب سے بڑی تھوک مارکیٹ کو ڈیفالٹ کی صورتحال کا سامنا ہے، اشیا کی طلب کم ہونے سے کساد بازاری کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں تجارتی سرگرمیوں کا پہیہ جام ہونے کا خدشہ ہے۔

تاجروں کے مطابق حکومت کے ٹیکس اقدامات بالخصوص بینک کھاتوں سے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی اور کھاتوں کو منجمد کرکے ٹیکسوں کی جبری وصولی کی وجہ سے تاجروں کا دستاویزی معیشت پر اعتبار مزید کم ہو گیا ہے اور تجارتی سرگرمیوں میں کمی کے ساتھ مارکیٹ میں ریکوری کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔

تجارتی حلقوں نے بتایا کہ اجناس کی سب سے بڑی منڈی جوڑیا بازار، کپڑا مارکیٹ، یارن مارکیٹ، کیمیکل مارکیٹ، پیپر مارکیٹ کے علاوہ دیگر بڑی مارکیٹوں میں تاجروں کی جانب سے ادھار پر فروخت شدہ مال کی اربوں روپے مالیت کی وصولیاں گزشتہ 3 ماہ سے منجمد ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ادھار پر مال خریدنے والے تاجروں کی اکثریت اپنی گھٹتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں اور سرمائے کی عدم دستیابی کی شکایات کرتے ہوئے اپنے فروخت کنندہ تاجروں سے ادھار کی مدت میں توسیع در توسیع کے مطالبات کررہی ہے جبکہ بعض تاجر رقم کے تقاضے پر تنازع کھڑا کردیتے ہیں اور پھر مصالحت پر رقم قسطوں پر ملتی ہے، مختلف پروڈکٹس کی مارکیٹوں میں نئے خریدار تو آ ہی نہیں رہے جبکہ پرانے سودوں کی ادائیگیوں کا تناسب 10 فیصد تک محدود ہے۔

ہول سیلرز اور امپورٹرز کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر 15 تا 20 یوم کے ادھار کی شرط پر اربوں روپے مالیت کا مال فروخت کیا لیکن 3 ماہ گزرنے اور بارہا تقاضوں کے باوجود خریدار ادائیگیاں نہیں کر رہے جس کی وجہ سے باہر سے مال درآمد کرنے سے سے گریز کیا جا رہا ہے اور مقامی مارکیٹوں میں بھی ادھار پر فروخت روک دی گئی ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کی اسمال ٹریڈرز کمیٹی کے سربراہ عبدالمجید میمن نے ''ایکسپریس'' کے استفسار پر بتایا کہ حکومت نے اپنی پالیسیوں کوصرف ریونیوجنریشن تک محدود کردیا ہے، بینک ٹرانزیکشن پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس، ایف بی آر کی جانب سے کھاتے داروں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرکے رقوم جبراً وصول کرنے جیسے عوامل نے تجارتی سرگرمیوں میں کمی اور مارکیٹوں میں ریکوری سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے، تھوک بازاروں میں نقد پر تجارت انتہائی محدود ہوگئی ہے، مارکیٹوں میں سناٹے ہیں۔

بڑے تجارتی ایوان کے نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایف بی آر نے درحقیقت کاروبارکو تباہ کر دیا ہے، یہ ادارہ تاجروں کو سہولتیں پہنچانے کے بجائے ہراساں کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔کراچی چیمبر کے سابق صدر انجم نثار نے اعتراف کیا کہ خراب کاروباری حالات کی وجہ سے تاجروں کا ریکوری سسٹم بری طرح متاثر ہوا ہے، صارفین کی قوت خرید گھٹ گئی ہے جس کی وجہ سے اشیا کی ڈیمانڈ گرگئی ہے اور تجارتی سرگرمیاں محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔

اس صورتحال سے نہ صرف بڑے درآمدکنندگان بلکہ برانڈڈ مصنوعات کے بڑے فروخت کنندگان بھی متاثر ہوئے ہیں جو اپنے آؤٹ لیٹس پر50 تا70 فیصد ڈسکاؤنٹ کی پیشکشیں بھی کر رہے ہیںلیکن فروخت کا حجم نہیں بڑھ رہا۔ انہوں نے حکومت پرزوردیا کہ وہ اپنی توجہ صرف ریونیو جنریشن تک محدود رکھنے کے بجائے تاجروں کو کاروبار کا سازگار ماحول بھی فراہم کرے اور متعلقہ محکموں کو خوف وہراس پھیلانے کے بجائے آسانیاں فراہم کرنے کی ہدایات کی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں