احتسابی ڈائریا اور نیب کی ڈبل ڈوز
نواز شریف کا حکومتی اسلوب کچھ اس طرح کا رہا ہے کہ وہ جب بھی ضرورت سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔
لاہور:
نواز شریف کا حکومتی اسلوب کچھ اس طرح کا رہا ہے کہ وہ جب بھی ضرورت سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں ، یار لوگوں کو ان کے اقتدار کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے۔ اس وقت بھی ملکی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے تگڑی جماعت پی ٹی آئی اپنی پے در پے حماقتوں کے سبب ایوانِ اقتدار سے کافی دور نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا بیڑہ جتنا آج غرق ہے، اتنا شاید ضیاء الحق دور میں بھی نہ ہوگا۔ایم کیوا یم کو پچھلے سال ڈیڑھ سال سے اپنی ہی پڑی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن کو بھی حکومت کے ساتھ آئے دن کوئی نہ کوئی کام پڑا ہی رہتا ہے۔
ادھر معیشت کے حالات بھی کسی حد تک بہتر ہو رہے ہیں اور نواز لیگ نے اوکھے سوکھے ہو کر ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل سے بھی ایک گیدڑ پروانہ حاصل کر رکھا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سنہ 2023تک نوازلیگ اقتدار کے ساتھ چپکی ہی رہے گی اور اسے کسی بھی قابل ِذکر سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف سے مایوس اور پیپلز پارٹی سے متنفر لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی نواز لیگ کو ہی مسیحا قرار دینے پر مجبور ہیں۔
اس صورتحال نے نواز لیگ کی ایک انتہائی خطرناک خصلت کو از سرِنوزندہ کر دیا ہے۔ یہ خصلت ہے ہر جماعت، گروپ اور ادارے کے ساتھ غیر ضروری پنگا لینے کی خُو۔ آرمی چیف کی مبینہ ایکسٹینشن والا معاملہ، احتساب کا دائرہ پنجاب تک وسیع کرنے کی مخالفت، پنجاب میں رینجرز کی بات پر جھلاہٹ اور تمام میگا پراجیکٹس پر محیّر العقول اوور انوائسینگ (Over-invoicing) اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ رہی سہی کسر نکال دی ہے آزاد کشمیر کی صورتحال نے۔ اس حوالے سے جو خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔
وفاقی حکومت اور اس کے عمال وہاں جو گُل کھلا رہے ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وفاق کی ایک اہم نمایندہ سیاسی شخصیت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کو ''پہاڑی بکرے'' کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس بات کا علم آزاد کشمیر کے ہر با خبر شخص کو ہے۔ ترقیاتی فنڈز روک کر وفاقی حکومت بیچارے قسمت کے مارے کشمیریوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ورکر کا بہیمانہ قتل آخر کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔ گلگت، بلتستان، بلوچستان اور فاٹا کے معاملات پر زیرِلب مسکراتی پاکستان مخالف قوتیں کتنا انجوائے کر رہی ہوں گی، پرویز رشید، آصف کرمانی ، برجیس طاہر اور سلطان سکندر کی ''فتوحات'' کے قصے، نواز شریف کہیں سو تو نہیں رہے، ہیں جی؟
اب یہ نئی کہانی نیب والی شروع ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کے اس ''نیب اندیش'' بیان سے ان کی جھلاہٹ بلکہ گھبراہٹ صاف ظاہر ہوتی ہے۔ لہجہ اور سکرپٹ اس قدر عامیانہ ہے کہ لگتا ہی نہیں آپ کسی ملک کے وزیراعظم ہیں۔ موصوف اس وقت نو منتخب بلدیاتی نمایندوں کے ساتھ گفت وشنید فرما رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی طبیعت ''کونسلرانہ'' ہو رہی تھی۔ پوری قوم جانتی ہے کہ چند سیاسی اور سرکاری لٹیروں نے ملکی دولت کے ساتھ جو بدسلوکی کر رکھی ہے اس کے بعد احتساب ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب پہلی مرتبہ باقاعدہ حرکت میں آتی دکھائی دیتی ہے مگر وزیراعظم کے بیان نے کم از کم یہ حقیقت تو آشکار کر ڈالی کہ ساری سیاسی قوتیں احتساب کے خوف سے نیب کے خلاف ایکا کر چکی ہیں۔
ہم آج سے قریباً 2 ماہ قبل انہی کالموں کے ساتھ ساتھ اپنے ٹی وی شو میں بھی نہایت یقین کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ نیب اپنی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بہر صورت پنجاب تک پھیلائے گی کہ قرائن ہمیں ایک عرصے سے اشارے دے رہے تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق نیب اب تک 19 پنجابی افسروں اور سیاستدانوں کو نوٹس دے چکی ہے۔
ان میں بعض ایسے چہیتے افسران بھی شامل ہیں کہ جو آقاؤں کی خدمت کرتے کرتے سرکار کو اربوں کا ٹیکہ لگا چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے کی پہلی قابل ذکر جنبش فروری یا مارچ میں ہوتی نظر آئے گی۔ چنانچہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔وہ تمام کرپٹ عناصر جو تاحال اپنی کھال بچائے پھرتے تھے، اب ''احتسابی ڈائریا'' کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں پچھلے دنوں پیپلزپارٹی سندھ کی ایک اہم خاتون ایک انتہائی اہم حکومتی شخصیت کی خدمت میں حاضر ہوکر گویا ہوئیں کہ ''سائیں'' کی خواہش بھی ہے اور مشورہ بھی کہ ہم دونوں جماعتوں کو بہر صورت احتساب کا راستہ روکنا چاہیے اور یہ کام ہم دونوں فریق مل ملا کر ہی کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے غیر ملکی دوستوں اور جمہوریت پسند قوتوں کی مدد بھی درکار ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب معاملہ اربوں نہیں کھربوں کا ہو اور جب یہ بات طے ہو چکی ہو کہ کرپشن ہمارے بد نصیب معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہے اور اس کا علاج شروع ہی احتساب کی ڈبل ڈوز سے ہوتا ہے تو پھر اسے کون روکے گا، ہیں جی؟
نواز شریف کا حکومتی اسلوب کچھ اس طرح کا رہا ہے کہ وہ جب بھی ضرورت سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتے ہیں ، یار لوگوں کو ان کے اقتدار کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے۔ اس وقت بھی ملکی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے تگڑی جماعت پی ٹی آئی اپنی پے در پے حماقتوں کے سبب ایوانِ اقتدار سے کافی دور نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا بیڑہ جتنا آج غرق ہے، اتنا شاید ضیاء الحق دور میں بھی نہ ہوگا۔ایم کیوا یم کو پچھلے سال ڈیڑھ سال سے اپنی ہی پڑی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن کو بھی حکومت کے ساتھ آئے دن کوئی نہ کوئی کام پڑا ہی رہتا ہے۔
ادھر معیشت کے حالات بھی کسی حد تک بہتر ہو رہے ہیں اور نواز لیگ نے اوکھے سوکھے ہو کر ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل سے بھی ایک گیدڑ پروانہ حاصل کر رکھا ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سنہ 2023تک نوازلیگ اقتدار کے ساتھ چپکی ہی رہے گی اور اسے کسی بھی قابل ِذکر سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف سے مایوس اور پیپلز پارٹی سے متنفر لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی نواز لیگ کو ہی مسیحا قرار دینے پر مجبور ہیں۔
اس صورتحال نے نواز لیگ کی ایک انتہائی خطرناک خصلت کو از سرِنوزندہ کر دیا ہے۔ یہ خصلت ہے ہر جماعت، گروپ اور ادارے کے ساتھ غیر ضروری پنگا لینے کی خُو۔ آرمی چیف کی مبینہ ایکسٹینشن والا معاملہ، احتساب کا دائرہ پنجاب تک وسیع کرنے کی مخالفت، پنجاب میں رینجرز کی بات پر جھلاہٹ اور تمام میگا پراجیکٹس پر محیّر العقول اوور انوائسینگ (Over-invoicing) اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ رہی سہی کسر نکال دی ہے آزاد کشمیر کی صورتحال نے۔ اس حوالے سے جو خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔
وفاقی حکومت اور اس کے عمال وہاں جو گُل کھلا رہے ہیںوہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وفاق کی ایک اہم نمایندہ سیاسی شخصیت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کو ''پہاڑی بکرے'' کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس بات کا علم آزاد کشمیر کے ہر با خبر شخص کو ہے۔ ترقیاتی فنڈز روک کر وفاقی حکومت بیچارے قسمت کے مارے کشمیریوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ورکر کا بہیمانہ قتل آخر کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔ گلگت، بلتستان، بلوچستان اور فاٹا کے معاملات پر زیرِلب مسکراتی پاکستان مخالف قوتیں کتنا انجوائے کر رہی ہوں گی، پرویز رشید، آصف کرمانی ، برجیس طاہر اور سلطان سکندر کی ''فتوحات'' کے قصے، نواز شریف کہیں سو تو نہیں رہے، ہیں جی؟
اب یہ نئی کہانی نیب والی شروع ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کے اس ''نیب اندیش'' بیان سے ان کی جھلاہٹ بلکہ گھبراہٹ صاف ظاہر ہوتی ہے۔ لہجہ اور سکرپٹ اس قدر عامیانہ ہے کہ لگتا ہی نہیں آپ کسی ملک کے وزیراعظم ہیں۔ موصوف اس وقت نو منتخب بلدیاتی نمایندوں کے ساتھ گفت وشنید فرما رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی طبیعت ''کونسلرانہ'' ہو رہی تھی۔ پوری قوم جانتی ہے کہ چند سیاسی اور سرکاری لٹیروں نے ملکی دولت کے ساتھ جو بدسلوکی کر رکھی ہے اس کے بعد احتساب ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب پہلی مرتبہ باقاعدہ حرکت میں آتی دکھائی دیتی ہے مگر وزیراعظم کے بیان نے کم از کم یہ حقیقت تو آشکار کر ڈالی کہ ساری سیاسی قوتیں احتساب کے خوف سے نیب کے خلاف ایکا کر چکی ہیں۔
ہم آج سے قریباً 2 ماہ قبل انہی کالموں کے ساتھ ساتھ اپنے ٹی وی شو میں بھی نہایت یقین کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ نیب اپنی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بہر صورت پنجاب تک پھیلائے گی کہ قرائن ہمیں ایک عرصے سے اشارے دے رہے تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق نیب اب تک 19 پنجابی افسروں اور سیاستدانوں کو نوٹس دے چکی ہے۔
ان میں بعض ایسے چہیتے افسران بھی شامل ہیں کہ جو آقاؤں کی خدمت کرتے کرتے سرکار کو اربوں کا ٹیکہ لگا چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے کی پہلی قابل ذکر جنبش فروری یا مارچ میں ہوتی نظر آئے گی۔ چنانچہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔وہ تمام کرپٹ عناصر جو تاحال اپنی کھال بچائے پھرتے تھے، اب ''احتسابی ڈائریا'' کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں پچھلے دنوں پیپلزپارٹی سندھ کی ایک اہم خاتون ایک انتہائی اہم حکومتی شخصیت کی خدمت میں حاضر ہوکر گویا ہوئیں کہ ''سائیں'' کی خواہش بھی ہے اور مشورہ بھی کہ ہم دونوں جماعتوں کو بہر صورت احتساب کا راستہ روکنا چاہیے اور یہ کام ہم دونوں فریق مل ملا کر ہی کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے غیر ملکی دوستوں اور جمہوریت پسند قوتوں کی مدد بھی درکار ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب معاملہ اربوں نہیں کھربوں کا ہو اور جب یہ بات طے ہو چکی ہو کہ کرپشن ہمارے بد نصیب معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہے اور اس کا علاج شروع ہی احتساب کی ڈبل ڈوز سے ہوتا ہے تو پھر اسے کون روکے گا، ہیں جی؟