زیکا وائرس احتیاط کیجیے کہ احتیاط پچھتاوے سے بہتر ہے

سوائن فلو اور ایڈز کی طرح ہم ذکا وائرس کو بھی جھٹلا رہے ہیں، خدانخواستہ مستقبل میں پاکستان میں یہ وائرس بھی پایا جائے۔


جنید رضا February 20, 2016
اگر پاکستان میں خطرناک زیکا وائرس کو روکنے کےلئے اقدامات نہیں کیے گئے تو خوف ہے کہ خدا نہ کرے مستقل قریب میں پاکستانی ماؤں کی گودوں میں بھی ہزاروں دولے شاہ کے’’چوہے‘‘ پروان چڑھنے لگے تو کیا ہوگا؟

کسی زمانے میں سکھوں کے بارے میں مشہور تھا کہ پانی جب تک سر پر نہ آجائے مصیبت کا اندازہ ہی نہیں لگاتے۔ کچھ ایسا ہی رویّہ من حیث القوم ہمارا بھی ہوچکا ہے۔ پہلے ہم طالبان پر بات کرنے والوں کا مذاق بناتے ہیں پھر خود ہی ان کی موجودگی کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ پہلے کہتے ہیں سوائن فلو ہمارے ملک میں نہیں ہوسکتا پھر ہم نے دیکھا کیا لاہور، کیا پشاور اور کیا کراچی ہر جگہ سوائن فلو کے مریض پائے گئے۔

ایسا ہی رویہ ہم نے ایڈز کے بارے میں روا رکھا کہ یہ تو یورپ میں ہے اور وجہ بے راہ روی ہے لیکن پھر ہمارے ملک میں جب ایڈز کے مریضوں کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کرگئی تو ہم نے مانا کہ ہمارے ملک میں بھی ایڈز ہوسکتا ہے۔ دنیا میں جب کہیں نئی بیماریاں، نئی وبائیں جنم لیتی ہیں تو ان کی مکمل معلومات بشمول سدباب و احتیاطی تدابیرعوام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمیں تو یاد نہیں کہ ایسی کوئی ذمہ داری کبھی ہماری کسی حکومت نے نبھائی ہو۔ ہمارے تمام حکمرانوں نے تو ہمیشہ ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھیں لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ بشمول الیکٹرانک میڈیا بھی اس سلسلے میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہا ہے۔

آجکل امریکہ، یورپ، چین سمیت بے شمار ممالک زیکاء وائرس کی زد میں ہیں۔ بھارت، ترکی، برطانیہ و روس سمیت تقریباً تمام ممالک نے زیکاء وائرس سے متعلق مکمل پالیسی دی ہے، جس میں اس کے متعلق مکمل معلومات، احتیاطی تدابیر اور کن ممالک میں بالخصوص حاملہ خواتین کو سفر کرنا چاہیئے اور کن ممالک کی جانب حاملہ خواتین کو سفر نہیں کرنا چاہیئے شامل ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کی معلومات عوام تک نہیں پہنچائی گئیں۔ کوئی ویزا پالیسی نہیں کہ کہاں سے آئے افراد کو چیک کرنا ہے، کن ممالک کے ویزوں میں خیال کرنا ہے، ایسا کچھ بھی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔

ایک تاویل تو یہ بھی دی جارہی ہے کہ ابھی تک ہمارے یہاں زیکاء وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تو بھائی بھارت اور ترکی میں بھی کوئی کیس ابھی تک رپورٹ نہیں ہوا ہے لیکن وہاں کے اربابِ اختیار نے جامع پلان ترتیب دیا ہے جسےعام آدمی تک پہنچایا جارہا ہے۔

اب تک ہماری معلومات کے مطابق یہ وائرس ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ یہ اسی مچھر کی ایک قسم ہے جس کی وجہ سے ڈینگی وائرس کی بیماری لگ جاتی تھی۔ اس کے کاٹنے سے جسم پر خراشیں، بخار، جوڑوں کا درد اور آشوب چشم کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی وجہ سے نامکمل اور ناقص دماغ والے بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ یہ مچھرعام مچھر جیسے کیولکس کی طرح رات کو نہیں کاٹتا بلکہ ایڈیس Aedes نامی یہ مچھر دن کے وقت کاٹتا ہے۔ ایڈیس نامی اس مچھر کی گھروں کے اندر ٹھہرے ہوئے پانی میں افزائش ہوتی ہے۔ یہ آلودہ پانی اور نکاسی کے پائپوں میں انڈے دیتا ہے۔ حال ہی میں برازیل کے چھوٹے بڑے شہروں کے گائنی (زچہ بچہ) اسپتالوں میں پیدا ہوئے بچوں میں بکثرت یہ پایا گیا ہے کہ سر جسم کے باقی حصوں کے ساتھ نشوونما (Grow) نہیں کر پا رہے اور سائز میں چھوٹے ہیں۔

ابھی تک زیکاء وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین نہیں لائی جاسکی ہے، اس لئے اسکی صرف احتیاطی تدابیر ہیں کہ مچھر سے بچا جائے۔ پانی بالخصوص صاف پانی کو کھڑا نہ رہنے دیا جائے۔ مچھر دانی کے استعمال سمیت مچھروں سے بچاؤ کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ہمارے بر صغیر میں بھی کبھی کبھی ایسے مریض دیکھنے میں آتے ہیں جن کے سر چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہم انہیں ''دولے شاہ کا چوہا'' کہتے ہیں۔ ان چوہوں کو اکثر بے رحم لوگ گداگری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے دماغ کا وہ حصہ جس میں بولنے اور سوچنے کی وریدیں یا سیلٹی رنگ کا مادہ پرورش پاتا ہے، ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد رک جاتا ہے اور آگے نہیں بڑھتا۔ تاہم جسم کے باقی اعضاء پر اس وائرس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔

میرا گجرات کے مضافات میں ''دولے شاہ'' کا مزار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جیسا کہ ہمارے یہاں دستور ہے۔ ہم ان تمام غیر معمولی مظاہر فطرت کو ایسے اوہام کی نذر کر دیتے ہیں۔ جن کی کوئی عقلی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ یہی حال دولے شاہ کے چوہوں کا ہے۔ اس مزار اور اس کے چوہوں کے ساتھ جو روایات یا افسانے وابستہ ہوگئے ہیں، وہ اکثر ہم سب کو معلوم ہیں اس لئے انہیں کیا دہرایا جائے، لیکن اندیشہ اس بات کا ہے کہ خدا نہ کرے اگر مستقل قریب میں پاکستانی ماؤں کی گودوں میں بھی ہزاروں دولے شاہ کے''چوہے'' پروان چڑھنے لگے تو کیا ہوگا؟

یہ منظر نامہ جو آج نا قابلِ یقین نظر آتا ہے، خدانخواستہ آنے والے کل میں حقیقت بھی بن سکتا ہے جیسے کہ برازیل، میکسیکو، ڈنمارک یا چائنا میں بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے حاملہ خواتین کو ایسی وبائی جگہوں کی جانب سفر کرنے سے منع کیا ہے جہاں یہ وباء موجود ہے۔ یہ بیماری امریکی ممالک میں نہایت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اب اسے وباء قرار دے دیا گیا ہے۔ بہت شدید ضرورت ہے کہ اس موذی وائرس کے متعلق مکمل معلومات عام آدمی تک پہنچائی جائیں۔ احتیاطی تدابیر پر مبنی اشتہارات چلائے جائیں کیونکہ یہ تو ہم سب کا ماننا ہے کہ احتیاط ہر قسم کے پچھتاوے سے بہتر ہے۔

[poll id="968"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |