دھرمیندرکی ڈریم گرل

بمبئی میں 21 اگست 1979ء کو مولانا قاضی ابو طلحہ نے بہ عوض مہر ایک لاکھ گیارہ ہزار روپے دونوں کا نکاح پڑھایا تھا


February 20, 2016
بمبئی میں 21 اگست 1979ء کو مولانا قاضی ابو طلحہ نے بہ عوض مہر ایک لاکھ گیارہ ہزار روپے دونوں کا نکاح پڑھایا تھا:فوٹو : فائل

لوریتا سینگ امریکا کی مشہور اداکارہ گزری ہے۔ اس کا قول ہے ''محبت ایسی چیز ہے جسے آپ نہیں پاتے بلکہ وہ آپ کو تلاش کرلیتی ہے۔'' یہ خوبصورت قول دھرمیندر اور ہیمامالنی کی داستان محبت پر پورا اترتا ہے۔

دھرمیندر لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے اداکاری کرنے کا شوق تھا۔ مگر ان کے والد ''بابوجی'' فلمی دنیا کے سخت مخالف تھے، اتنے کہ ان کا بس چلتا، تو وہ تمام فلمی ستاروں کو صفحہ ہستی سے مٹادیتے۔ مگر دھرمیندر بھی دھن کے پکے نکلے اور بابو جی پر آشکارا کردیا کہ وہ بمبئی جاکر اداکار بنیں گے۔

آخر کار والد نے ہتھیار ڈال دیئے، مگر اس شرط پر کہ بیٹا شادی کرکے فلمی دنیا میں قدم رکھے۔ چناں چہ 1954ء میں انیس سالہ دھرمیندر کی شادی پرکاش کور نامی گھریلو لڑکی سے کردی گئی۔

دھرمیندر نوجوانی میں مردانہ وجاہت اور حسن کا بے مثال نمونہ تھے۔ لیجنڈری دلیپ کمار نے ایک تقریب میں کہا تھا ''جب بھی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچا، تو ان سے صرف ایک شکایت کروں گا... یہ کہ آپ نے مجھے دھرمیندر کی طرح ہینڈسم کیوں نہیں بنایا۔''

چناں چہ اپنی خوبصورتی، محنت اور خلوص کے بل بوتے پر دھرمیندر نے بالی وڈ میں قدم جمالیے۔بالی وڈ میں بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ نوجوان شادی شدہ ہے کیونکہ اس امر کا چرچا بطور ہیرو انہیں نقصان پہنچا سکتا تھا۔

1970ء میں دو فلموں... ''شرافت'' اور تم حسین میں جوان'' کی شوٹنگ کے دوران ان کی ابھرتی اداکارہ ہیمامالنی سے ملاقات ہوئی۔ وہ پہلی نظر میں تیر عشق کا شکار ہوکر اس خوبصورت دوشیزہ سے محبت کرنے لگے جس نے آگے چل کر ''ڈریم گرل'' کا خطاب پایا۔

ہیما مالنی کو علم تھا کہ دھرمیندر شادی شدہ ہے، لہٰذا وہ انہیں نظر انداز کرتی رہیں۔ لیکن دھرمیندر تو ہیما کے عشق میں دیوانے ہوگئے۔ کبھی شوٹنگ کرتے ہوئے بار بار غلطیاں کرتے تاکہ ہیما کی قربت کا زیادہ موقع مل سکے۔

کبھی دور دراز مقام سے ہوائی جہاز میں اڑ کر اپنی محبوبہ کو ملنے آجاتے۔ ہیما مالنی کا بیان ہے کہ 1975ء میں گانے ''میں جٹ یملا، پاگل دیوانہ'' (فلم پرتگیا) کی عکس بندی کراتے ہوئے آخر وہ بھی دھرمیندر کی طرف مائل ہوگئیں۔

اس زمانے میں بالی وڈ کے مشہور اداکار مثلاً سنجیو کمار، جیتندر وغیرہ ہیما مالنی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ مگر ہیما نے ان کی پیش کش رد کرکے دھرمیندر کو ترجیح دی اور شادی کے عہدو پیمان باندھ لیے۔

تاہم پہلے والدین اور پھر ہندو مذہب یہ شادی ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ہیمامالنی کا باپ قطعاً نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی ایک شادی شدہ سے بیاہ کرے۔ اسی لیے دونوں چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ 1979ء میں ہیما مالنی کا باپ چل بسا۔ اب دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب معلوم ہوا کہ ہندومت کی رو سے دھرمیندر پہلی بیوی کی موت یا اسے طلاق دینے کے بعد ہی دوسرا بیاہ کرسکتے ہیں۔

پرکاش کور ایک سیدھی سادی گھریلو عورت تھی۔ وہ شوہر اور ہیمامالنی کے عشق پر پہلے توجزبز ہوئی پھر اس ہونی کو قسمت کا لکھ سمجھ کر قبول کرلیا۔ وہ بس اپنا گھر بچانا چاہتی تھی، اسی لیے پرکاش نے شوہر کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ ایک انٹرویو میں پرکاش نے بتایا ''ہیما اتنی حسین ہے کہ اگر میں مرد ہوئی، تو اس پر مرمٹتی۔ لہٰذا میرے شوہر کا کوئی قصور نہیں۔''

مگر دھرمیندر پرکاش کور کو طلاق دینے کے بعد ہی محبوبہ سے بیاہ کرسکتے تھے۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا گیاکہ دھرمیندر اور ہیما نے مسلمان ہوکر شادی کرلی۔ ان کے اسلامی نام بالترتیب دلاور خان اور عائشہ بی رکھے گئے۔ بمبئی میں 21 اگست 1979ء کو مولانا قاضی ابو طلحہ نے بہ عوض مہر ایک لاکھ گیارہ ہزار روپے دونوں کا نکاح پڑھایا۔

گویا ایک دوسرے کی شدید محبت میں گرفتار محب و محبوب نے ملن کے لیے مذہب کو خیرباد کہہ دیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ خود غرضی کا عمل تھا، دوسرے اسے محبت کی جیت قرار دیتے ہیں۔بہرحال کئی صدیاں قبل ولیم شیکسپیئر نے اپنے مشہور ڈرامے ''All's Well That Ends Well'' میں کہا تھا:''محبت سب سے کرو، مگر اعتماد چند لوگوں پر اور کسی کا برا نہ چاہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں